قیامت کی نشانیاں:
علمائے سلف کو چھوڑ کر بونوں سے علم لیا
جانا
فرقے
جیسا کہ
اِن احادیث و آثار کے سیاق سے ظاہر ہے، یہاں علم لینے سے مراد کسی
سے ’پڑھ لینا‘ نہیں بلکہ ’’دین کا فہم لینا‘‘ ہے۔ ’جدت پسند‘ سے ہماری مراد وہ تمام افکار ہیں جو اِس دورِاستشراق میں
دین کافہم، بلکہ فہمِ دین کے اصول ہی، علمائے سلف کی بجائے اپنی اقُول سے لیتے اور
اسی کو مستند جانتے ہیں۔
عن أبی أمیۃ اللخمی (الجمحی)، أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم
قال: ’’إن
من أشراط الساعۃ ثلاثۃ، إحداھن: أن یُلتمَس العلمُ عند الأصاغر‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، الحدیث رقم: ۱۷۵۳۶، الزہد والرقائق لابن
المبارک رقم: ۶۱۔ قال الألبانی صحیح۔ انظر السلسلۃ الصحیحۃ ج ۲ رقم الحدیث ۶۹۵)
ابو امیہ جمحی سے روایت ہے،
کہ نبیﷺ نے فرمایا: قیامت کی نشانیوں میں سے تین
ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ: علم بونوں کے ہاں ڈھونڈا جائے گا۔
عن
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، قال: ’’لا
یزال الناس بخیر ما أتاھم العلم من أصحاب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم قال، ومن أکابرھم، فإذا جاءھم العلم
من قِبَلِ أصاغرہم فذلک حین ھلکوا‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی
الأثر رقم: ۸۵۱۱، کتاب الزہد والرقائق لابن
المبارک، الأثر رقم: ۸۰۲، جامع بیان العلم ۱: ۶۱۷)
عبد اللہ بن مسعود سے روایت
ہے، فرمایا:
’’لوگ خیر خیریت سے رہیں گے جب تک علم
اُن کو اصحابِ رسول اللہؐ سے پہنچتا رہے گا، اور ان کے بڑوں سے پہنچتا رہے گا۔ ہاں
پھر جب ان کو علم اُن کے بونوں کے پاس سے آنے لگے گا تو یہ وہ وقت ہو گا جب وہ
ہلاک ہوں گے‘‘۔
کان عمرُ یقول: إنَّ أصدق القیلِ قیلُ اللہ۔ ألا وإن أحسن
الھدیِ ھدیُ محمدٍ صلی اللہ علیہ وسلم قال۔ وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ
ضلالۃ۔ ألا وإن الناس بخیرٍ ما أخذوا العلم عن أکابرھم، ولم یقم الصغیر علی
الکبیر، فإذا قام الصغیر علی الکبیر فقد‘‘۔ (شرح أصول الاعتقاد
للالکائی ۱: ۸۴، الأثر رقم ۸۸۔ وذکر جزءاً منہ فی جامع بیان العلم ۱: ۶۱۵ الأثر رقم: ۱۰۵۴)
عمر فرمایا کرتے تھے:
سب سے اچھا کلام اللہ کا قول
ہے۔سب سے اچھا نمونہ محمدﷺ کا نمونہ ہے۔ سب سے بری چیز وہ ہے جو دین کے اندر نئی
نکال لی گئی ہو، اور ہر نئی نکال لی گئی بات گمراہی ہے۔ خبردار! لوگ خیر سے رہیں
گے جب تک کہ وہ علم اپنے بڑوں سے ہی لیں، اور جب تک یوں نہ ہونے لگے کہ چھوٹا، بڑے
کے اوپر بڑا بنے۔ ہاں جب چھوٹا، بڑے پر بڑا بننے لگا، تو تب وہ وقت ہو گا کہ..
اس معنیٰ کے کئی دیگر آثار نقل کرنے کے
بعد... آخر میں جا کر ابن عبد البر ایک تقریر دیتے ہیں، گو اس میں بھی ابن عبد
البر کچھ آثارِ سلف کی جانب ہی اشارہ کرتے ہیں:
وقال آخرون: معنیٰ
حدیث ابن عمر وابن مسعود فی ذلک أن العلم
إذا لم یکن عن الصحابۃ کما جاء فی حدیث ابن مسعود، ولا کان لہ أصل فی القرآن
والسنۃ والإجماع، فھو علم یھلک بہ صاحبہ، ولا یکون حاملہ إماما ولا أمینا ولا
مرضیا کما قال ابن مسعود، وإلیٰ
ھذا نزع أبو عبید رحمہ اللہ۔ (جامع بیان
العلم۔ ج ۱ ص۶۱۸۔ الأثر رقم: ۱۰۵۶)
دیگر بزرگانِ سلف نے بیان
کیا ہے کہ:
حدیث ابن عمر و ابن مسعود کا
مفہوم اس سلسلہ میں یہ ہے کہ علم اگر صحابہ سے چلتا ہوا نہ آیا ہو، جیسا کہ حدیث
ابن مسعود میں ہے، اور نہ اس کا کوئی اصل قرآن میں ہو اور نہ سنت میں اور نہ
اجماع میں تو وہ ایک ایسا علم ہو گا جو آدمی کو برباد کروا دے۔ ایسے علم کا حامل
نہ امام ہو گا، نہ امانت کا محل، اور نہ قابل اطمینان، جیسا کہ ابن مسعود نے
فرمایا۔ اور اسی معنیٰ کی جانب امام
ابو عبید (قاسم بن سلام) کا میلان ہے۔
*****
خیر القرون کے تمام ائمۂ علم کو دیکھیں (جن میں
ائمۂ اربعہ بھی آتے ہیں)... تو ان کے یہاں آپ
کو یہ بات ایک دستور کی طرح نظر آئے گی کہ ۔ فہمِ دین و تفسیرِ نصوص کے
معاملہ میں ۔ ’’صحابہ کے اقوال کی اتباع لازم ہے‘‘۔ دورِ اول کے ائمۂ علم کا یہ دستور
جاننے کےلیے آپ ہماری کتاب کی مذکورہ فصل سے رجوع فرما سکتے ہیں۔
یعنی یہ محض کسی ایک آدھ امام کی رائے نہیں، بو
حنیفہؒ و شافعیؒ سمیت سب کا دستور ہے۔ اس دستور کو ’چیلنج‘ کرنے والے تو پیدا
ہی بہت بعد میں جا کر ہوئے۔ جو علم کی اساس ہی اور فہم کے مبادی ہی اپنی ’اقُول‘
سے جاری کرکے امت کو دینے لگے۔
وہ دور (خیر القرون) جس سے __ صحابہؓ کے علمی
اتباع کو لازم ٹھہرانے کے حوالے سے __ ایسے ڈھیروں آثار اور نقولات ملتے ہیں..
یہاں تک کہ اُس دور کا کوئی بھی امام، علمائے صحابہؓ کے علمی مقررات سے ہٹ کر اور
اقوالِ صحابہؓ سے نکل کر اپنی مصنوعات سامنے لانے کا روادار ہی نظر نہیں آتا، (اور
اگر کسی نے یہ بدعتی کام کیا تو وہ خوارج و روافض و معتزلہ وغیرہ ہوئے، جن کو خیر
القرون کے اُس معاشرے سے صبح شام سننے کو کچھ ملتا تو وہ ضلالت اور بربادی کی
وعیدیں ہوتیں)..
نہایت ضروری ہے کہ اُس دور کی اُن اشیاء کا جو
اُس کے یہاں مسلمات کی حیثیت کر گئی تھیں صحیح صحیح مول لگایا جائے۔ ایک نہایت
عظیم بات کو محض ایک جملے میں اڑا دینے کا اسلوب تباہ کن ہے۔
ویسے ہم صحابہ کی عزت بڑی کرتے ہیں۔ بوحنیفہ و
شافعی کا بھی احترام بہت ہے۔ مگر مقرراتِ سلف کی اتباع کو واجب ٹھہرانے والے
آثارِ شافعیؒ کو ہم ایک جانب لڑھکا دیں گے، آثارِ
بو حنیفہؒ کو کسی دوسری جانب، آثارِ مالکؒ کی کسی اور
طرح توجیہ کر لیں گے اور احمدؒ و اوزاعیؒ وبخاریؒ وغیرہ کے آثار سے کسی
اور طرح جان چھڑا لی جائے گی اور زیادہ ہی ہوا تو فہمِ صحابہؓ کی اِس غیرمعمولی
تعظیم کی بابت اِن ائمۂ علم کےلیے کوئی ’عذر‘ تلاش کیا جائے گا کہ صاحب وہ تو کوئی
دور ہی ایسا تھا کہ سب لوگ ایک سی ہی ’غلطی‘ کرتے چلے آئے ہیں اور اُن پر تو
اقوالِ ابو بکرؓ و عمرؓ و ابن عباسؓ و ابن مسعودؓ وغیرہ کی دھاک ہی کچھ غیر ضروری
طور پر بیٹھی رہی ہے... بس ہم آئے ہیں تو اَب کہیں جا کر بو حنیفہؒ و شافعیؒ کے
اُن نسل در نسل چلے آنے والے (تعظیمِ صحابہؓ پر مبنی) دستوروں کی اصلاح ہونے لگی
ہے!
ردِ تقلید کے مومنٹم سے زور پکڑنے والا یہ آزادی
پسند رویہ جو کئی ایک عوامل کے تحت اب تیزی کے ساتھ مقبولیت پانے لگا ہے... شدید
حد تک باعث تشویش ہے۔
کچھ اور نہیں تو اِس ایک ہی بات کو مد نظر رکھ
لیا جائے کہ: آپ کا یہ دور جس میں کھڑے ہو کر آپ کو ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ، مالکؒ ،
احمدؒ ، اوزاعیؒ ، ثوریؒ ، بخاریؒ وغیرہ کے یہ متفقہ مقررات ’غلط‘ نظر آتے ہیں، آپ
کا یہ دور جس میں کھڑے ہو کر آثارِ صحابہ کی اتباع کا لزوم آپ کو
فرسودہ نظر آتا ہے... جہالت اور علمی بوناپن کا دور ہے (ابھی اس کے ساتھ ہم اھواء
اور بغی اور بیرونی اثرات __ خصوصاً
استشراقی اثرات جوکہ ہوا میں پھیلے ہوئے وبائی خصائص کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور آپ
سے آپ نفس میں اترتے ہیں __ کا ذکر نہیں کر رہے)۔ اور یہ کہ جس دور کے علمی مقررات
آج جا کر آپ کو ’غلط‘ اور ’فرسودہ‘ نظر آنے لگے ہیں وہ علم اور ہدایت کا تابناک
ترین دور ہے!
(اِس موضوع کو تفصیل میں پڑھنے کےلیے ہماری
کتاب ’’فہمِ دین کا مصدر‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے)۔
ابن عبد البر اِس حدیث کے تحت، قاسم بن سلام
اور عبد اللہ بن المبارک کے اقوال لاتے ہیں:
وذکر أبو عبید فی تأویل ھذا الخبر عن ابن المبارک أنہ کان
یذھب بالأصاغر إلیٰ أھل البدع ولا یذھب إلی السِّنِّ۔ قال أبو عبید: وھذا وجہ۔ قال أبو عبید: والذی آریٰ أنا
فی الأصاغر أن یؤخذ العلم عمن کان بعد أصحاب رسول اللہ ﷺ، فذاک أخذ العلم عن الأصاغر۔ (جامع بیان العلم۔ ج ۱ ص ۶۱۲۔ الأثر رقم: ۱۰۵۲)
اس اثر میں ابن مسعود اور اس سے اگلے اثر میں عمر
کا بیان ہے۔ تاہم محدثین کے ہاں اصول یہ ہے کہ وہ بات جو
ایک صحابی مستقبل کی پیشین گوئی کے سیاق میں بیان کرے وہ مرفوع کا درجہ
رکھتی ہے، کیونکہ غیب کی بابت صحابی رسول اللہﷺ سے سنے بغیر کوئی بات نہیں کرتا۔
خیال رہے یہاں بات ’قولِ
صحابی‘ کی نہیں ہورہی، جوکہ خود ائمۂ سنت کے مابین مختلف فیہ ہے۔ بلکہ بات یہاں بطورِ جنس ’اقوالِ
صحابہ‘ کی ہورہی ہے جس کا اتباع تمام ائمۂ سنت کے ہاں ضروری ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: کتاب کی فصل ’’صحابہؓ کا اتباع
اہلسنت کے سب مذاہب کے نزدیک واجب ہے‘‘۔