اپنے زمانے کے فتنوں سے آگاہی کا کیا طریقہ ہونا
چاہئے؟
تنقیحات
فیس
بک پر ہمارے یہاں ایک عبارت دی گئی:
’ایکسپوژر‘ کی نحوست
ابن
الراوندی (تاریخ اسلام کا ایک مشہور زندیق) کا اٹھنا بیٹھنا اہل الحاد کے ساتھ ہو
گیا۔ جب بھی اس معاملہ میں اسے روک ٹوک کی جاتی، کہتا: بھائی ان کے مذہب کو سمجھنے
بھی تو دو! آخر خود ملحد ہو گیا اور خدا پر طعن بکنے لگا۔
(لنک: https://goo.gl/ezgWIH )
جس پر ہمیں سوال موصول ہوا:
آپ
کیا نصیحت کرتے ہیں؟ فتنوں سے آگاہی کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے
اس پر ہمارا مختصر جواب تھا:
(1)
پہلے
عقیدۂ سلف پڑھیں اور اسی میں رسوخ حاصل کریں۔
(2)
اپنے دور کے علمائے سنت
سے وابستہ ہو جائیں۔ یہ ورثۃ الأنبیاء ہیں۔ یعنی انبیاء کی غیرموجودگی میں بس یہی
ہیں۔
(3)
پھر ان کی راہنمائی میں
اپنے دور کے فتنوں کی بابت بصیرت حاصل کریں۔ فردی فروق
individual differences کو سامنے رکھتے ہوئے وہ
آپ کو بتا سکیں گے کہ آپ کس درجے میں فتنوں کے ’قریب‘ جا کر ان کو سمجھ سکتے ہیں۔
اور شاید اکثر لوگوں کو وہ یہ بھی کہیں کہ تم ان فتنوں کو سمجھنے کےلیے بھی ان کے
قریب مت جاؤ؛ نو نقد نہ تیرہ ادھار
’’ایمان‘‘
جس دولت کا نام ہے وہ کسی خطرے میں ڈالنے کی چیز نہیں۔ لاکھوں کروڑوں سال کی اخروی
زندگی بس اسی ایک چیز پر سہارا کرتی ہے۔
اس پر یکے بعد دیگرے ہمیں
دو سوال موصول ہوئے۔پہلا سوال ’’عقیدۂ سلف‘‘ تک رسائی سے متعلق تھا کہ وہ ہو کیسے
جبکہ اس پر یہاں اتنا بڑا خلجان پیدا کر دیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرا سوال بنیادی طور
پر ایک اعتراض تھا اور وہ یہ کہ بڑے بڑے مختلف راستوں پر چلنے والے بھی ’’عقیدۂ
سلف‘‘ پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بسا اوقات تو حوالے بھی ایک سے مصادر کے دیتے
ہیں، تو پھر ’’عقیدۂ سلف‘‘ کسی مسئلہ کا حل کیسے؟
ان دونوں سوالوں کا وہاں
ہم نے جو جواب دیا، یہاں ہم ان کو دو الگ الگ مضمونوں میں دے رہے ہیں۔ ملاحظہ
فرمائیے اگلے دو مضمون:
§ عقیدۂ سلف تک رسائی۔
§ عقیدۂ سلف، دہشت گردی اور جدت پسندی۔