یہ سب کچھ.. اور ابھی فتویٰ نہیں لگایا!
احوال و تعلیقات
ایک مخصوص سوچ جو ایسے ہر
موقع پر لازماً پھوٹ آتی ہے۔ اِس حوالہ سے سوشل میڈیا پر دی گئی ہماری ایک تحریر:
دین سے متمسک نوجوانوں کو
بڑے عرصے سے ایک طبقہ یہاں ’توحید‘ کے نام
پر کنفیوز کرتا آ رہا ہے۔ کوئی دوسرا
تیسرا سوال آج مجھے اس مضمون کا موصول ہو رہا ہے کہ ممتاز قادری مرحوم کا جنازہ
پڑھ کر کیا ہم نے گناہ تو نہیں کر لیا؟ اس کے حق میں دعائےمغفرت کرنا یا اس کےلیے
’رحمہ اللہ‘ کا لفظ بول دیناکیا صریحاً حرام اور ہمارے عقیدہ کی خرابی کا موجب تو
نہیں ہو چکا؟
ظاہر ہے عقیدہ کس کو پیارا
نہیں؟!
خاص ان نوجوانوں کے خیال
سے جنہیں ’توحید‘ کے نام پر ایسی بحثوں میں الجھایا جا رہا ہے، میں اس پر چند
کلمات کہہ دیتا ہوں۔ البتہ اس (کنفیوز کرنے والے) طبقے کی کوئی خدمت کرنا میرے بس
کی بات نہیں۔ وقتاً فوقتاً یہ صریح انداز ہمارے پیجز پر اس طبقہ کی بابت اختیار کیا جاتا
رہا ہے۔ قاضی حسین احمد رحمہ اللہ کی وفات پر ہم نے خالصتاً
دعائیہ پیرائے میں مرحوم کےلیے خدا سے جنت اور بلندیِ درجات کی دعاء کی تھی۔
(ہمارے فیس بک پیج پر دیا گیا ایک سٹیٹس، جو شاید اب بھی دستیاب ہو)۔ اس پر یہ
حضرات عین موقع پر ہمیں یاد دلانا نہیں بھولے کہ دوزخ میں جانے کا بھی امکان تو
ہے! ایسے بےرحم لوگوں کے ساتھ آپ کیا بحث کریں گے؟ بھائی یہ آپ کو مسلسل اِس 8 کے
ہندسے میں گھمائیں گے: نہ یہ مرحوم کو مشرک
کہیں گے۔ نہ یہ اُس کو مسلم مانیں گے۔ نہ یہ تسلیم کریں گے کہ یہ معتزلہ کے ’منزلۃ
بین المنزلتین‘ پر ہیں (یعنی ایک آدمی کو نہ مشرک کہنا اور نہ مسلم؛ بلکہ ان
’دونوں کے بیچ میں کچھ‘ ماننا۔ معتزلہ
کی ایک معروف بدعت)۔ ’تکفیری‘ کے الزام سے بچنے کےلیے یہ اُس کو ’مشرک‘ کہنے پر بھی معترض ہوں گے، لیکن اس
کو ’مسلم‘ کہہ دینے پر سراپا احتجاج بھی ہو جائیں گے! اور پھر صرف اتنا
نہیں کہ خود اس کےلیے رحمت اور مغفرت کے الفاظ نہیں
بولنے۔ ہمیں بھی اس سے روکنا ہے۔ حرام جو ہے! اُس کےلیے استغفار کر لینے پر آدمی کو
’عقیدے‘ کی باقاعدہ فکر کروا دینی ہے! (شاید آپ جانتے ہوں، ’رحمہ اللہ‘ کے خلاف یہ
تحریک کہاں تک پہنچتی ہے اور مختلف ادوار کے کیسےکیسے شہداء و صالحین اس
کی زد میں آتے ہیں)۔ سب کو سورۃ توبہ کی ایک آیت کا مصداق ٹھہراتے
ہوئے!
حیرت یہ
کہ دلیل سورۃ التوبہ کی آیت مَا
كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ سے جو
ایسے بدکاروں کےلیے استغفار کو حرام ٹھہراتی ہےجو صاف مشرک ڈیکلیئر ہو چکے اور جو
قطعی طور پر ملت سے خارج ہیں۔ دلیل وہاں سے۔ اور اس کا اطلاق اُن بھلے لوگوں پر جن
کو یہ خود بھی مشرک ڈیکلیئر کرنے پر تیار نہیں! بحث یہ کہ اُس بھلے آدمی کے پاس
(ان لوگوں کے خیال میں) کوئی عذر نہیں بچ گیا تھا۔ بھئی اگر عذر نہیں بچ گیا تو
کرو بسم اللہ، اس کو ’وہ‘ کہہ دو جس کےلیے استغفار شریعت میں حرام ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ جرأت بھی نہیں۔ ’احتیاط‘ اس قدر دامن گیر ہے کہ اس کو ’وہ‘ کہے بغیر ہی اس
کےلیے استغفار حرام ٹھہرا دینا ہے! آخر اس
بات کی دلیل؟ آیت کوئی اور بات کرتی ہے: ایک شخص جو مشرک ہے۔ آپ ایک اور بات کرتے ہیں: ’ہم
نے تو اس کو مشرک کب کہا ہے‘! تو پھر یہ کوئی اور شخص ہوا۔ ’وہ‘ تو نہ ہوا جس
کی بابت آیت بات کرتی ہے۔ آیت ہے مشرک کے
بارے میں، یعنی کافر۔ مشرک آپ اُس کو کہتے
نہیں۔ لیکن حکم اُس کا عین وہی جو آیت میں ایک (ڈیکلیئرڈ) مشرک کےلیے آیا ہے! آپ کو اِدھر سے پکڑیں، آپ اُدھر چلے جاتے ہیں۔
اُدھر آپ کو مرحبا کہنا چاہیں آپ اِدھر گھوم آتے ہیں۔ حکم نہیں لگانا، چھوٹ
دینی ہے (بعد اس کے کہ اس کا کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا تھا!)۔ اور (یہ چھوٹ مرحمت
فرما رکھنے کے بعد) پکڑ اس کی وہ کرنی ہے جو حکم لگے (ڈیکلیئرڈ) شخص کی کی
جاتی ہے (کسی پر ’مشرک‘ کا حکم لگانے کا مطلب ہی یہ کہ: اس کو بطور مسلم ملی رہنے
والی چھوٹ ہمارے یہاں اب ختم ہو چکی)!
یعنی
’حکم‘ لگانے کو تو (بظاہر) سکِپ skip کرنا ہے۔ جوکہ ان (باقی ماندہ) احکام
کی طرف جانے کا اصل دروازہ ہے۔ البتہ (’حکم‘ لگانے والی
جگہ سے ایک بڑی چھلانگ بھرتے ہوئے اور پیر زمین کو نہ لگنے دیتے ہوئے) وہاں جا
پہنچنا ہے جہاں حکم لگانے کے بعد ہی پہنچا جاتا ہے! یعنی ایک حکم لگ جانے کے
لوازم کو بغیر وہ حکم لگائے ہی لازم کر دینا اور باقاعدہ لوگوں کو ان (لوازم) کا
پابند کرتے پھرنا!!! ایسے لطائف بھی یہاں ہوتے ہیں! کوئی پوچھے، اس کی بنیاد؟
فرمائیں گے، میں اس کےلیے کوئی عذر جو نہیں پاتا! ویسے مہربان اتنا ہوں کہ آپ نے
دیکھا میں نے اُس پر ’مشرک‘ کا حکم تھوڑی لگایا ہے! میں نے تو اُسے مشرک قرار دینے سے پہلے اُس پر
صرف وہ احکام لگا دیے ہیں جو مشرک قرار پانے کے بعد ہی اُس پر لگنے کے تھے!
مختصراً،
اُس ایک حکم کو زبان پر لانے سے پرہیز ہے جس پر (شرعاً) ان تمام احکام کا
انحصار ہے جو یہ فر فر لگاتے ہیں!
کافر کہے بغیر ہی تمام
احکام آدمی پر کافروں والے لگادو، نہ آپ پر ’تکفیری‘ ہونے کا گناہ آیا اور نہ اُس
بیچارے کے احکام ’مسلمانوں‘ والے رہے! بس اس کےلیے اتنی سی علمی بےقاعدگی مطلوب ہے کہ
وہ ایک لفظ مت بولو جس پر باقی سب لفظوں کا انحصار ہے!!! کسرِ نفسی اور فراخدلی
بھی رہی: بہت سارے حکم لگا کر بھی ابھی یہ
کوئی ’حکم‘ نہیں لگا رہے ہوتے! ایک معیَّن آدمی کے حق میں بس دعائے مغفرت کرنے
کو جملہ مسلمانوں کے حق میں حرام اور خود اُس معیَّن شخص کےلیے امکانِ نجات
کو معدوم ٹھہرا دیا ہے، کوئی فتویٰ
تھوڑی لگایا ہے۔ ’فتویٰ‘ کے سر پر تو بڑےبڑے سینگ ہوتے ہیں، خدا کا شکر ہے آپ نے
کبھی وہ نہیں دیکھا!
*****
اسی پوسٹ کے نیچے ہمیں موصول
ہونے والا ایک سوال:
یہ...
حضرات ایک اور پراپیگنڈہ بھی فرماتے ہیں کہ رحمہ اللہ کہنے والے اور جنازہ پڑھنے
والے لوگ یہ 'حرکتیں" مصلحت کے باب میں کرتے ہیں۔ یعنی ان کا گمان ہوتا ہے کہ
اصلاََ یہ لوگ بھی "وچوں" 'وہ' ہی سمجھتے ہیں جو یہ لوگ سجھتے ہیں لیکن
سیکولرز کے خلاف محاذ کی مصلحت کی وجہ سے کسی کو شہید قرار دے رہے ہوتے ہیں کسی کو
رحمہ اللہ ۔ یہ ہمارے حق میں ان کا سوء ظن نہیں حسن ظن ہوتا ہے !!!! اور ہم سادے
لوگ اس قسم کی "مصلحت" جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی کہ جس کے تحت
کسی کو "شہید" قرار دیا جا سکتا ہو۔ شہید کی ایک اور قسم "مصلحتاََ
شہید" !!! ویسے مصالح کا یہ "استعمال" بھی فقہ کا ایک نیا باب بن
سکتا ہے۔ https://goo.gl/Ltmlau
جواب:
یعنی زندہ
اور اِن کے اپنے دور میں موجود لوگوں کی بابت اِن کی افسانہ نگاری کا یہ حال ہے۔
اس سے آپ کو اندازہ ہو جانا چاہئیے جب یہ ابن تیمیہ وغیرہ ایسی گزری ہوئی شخصیات
کو کسی موضوع پر اپنی تائید میں لے کر آتے ہیں اور اس میں یہ جمہور علمائےتوحید کے
موقف سے ہٹے ہوتے ہیں!
کوئی پوچھے
یہ بات اُن لوگوں نے اپنے ’باطنی‘ عقیدہ کی بابت اِن حضرات کو خود بتائی ہے یا یہ
ان کی خودساختہ ترجمانی ہے؟
اس طرزِعمل
سے مجھے اہل کوفہ کی وہ افسانہ گری یاد آجاتی ہے جو وہ اہل بیت کی غیرموجودگی میں
ان کے ’بی ہاف‘ پر کرتے تھے۔ اہل بیت کی وہ بالکل واضح بات جو ان خودساختہ
ترجمانوں کے پھیلائے ہوئے افسانوں کے خلاف پڑتی، کسی ’نادیدہ مصلحت‘ کے کھاتے میں
ڈال کر ’آئی گئی‘ کر دی جاتی اور ’’اصل بات‘‘ وہی باور کرائی جاتی جو یہ (خودساختہ
ترجمان) اہل بیت کی بابت اُن کی غیرموجودگی میں لوگوں کے اندر پھیلاتے رہے تھے۔
غرض پورا ایک باطنی منہج یہاں سے نکل آیا: اہل بیت خواہ قسمیں اٹھا لیں، سادہ لوح
پیروکاروں کو پوری عقیدت کے ساتھ اس کا اعتبار کرنے سے انکاری ہو جانا ہو گا اور
اس کی ’تفسیر‘ اہل کوفہ کے ہاں جا کر ڈھونڈنا ہو گی!