امام شافعیؒ کا ایک قول
درست سیاق میں
رکھنے کی ضرورت
تنقیحات
امام شافعیؒ سے منسوب ایک مشہور مقولہ: قولی
صواب یحتمل الخطأ وخلافه خطأ یحتمل الصواب ’’میرا قول درست ہے اس احتمال کے ساتھ کہ یہ
نادرست ہو۔ اس کے مخالف قول نادرست ہے اس احتمال کے ساتھ کہ وہ درست ہو‘‘۔
حال ہی میں جدت پسندوں کی جانب سے امام شافعیؒ
سے منسوب اس مقولے کا خاصا غلط استعمال ہوا ہے۔ کوئی بھی چیز بس ان کے ہاتھ لگنی
چاہئے!
بھائی امام شافعیؒ یہ بات کسی مطلق سیاق میں
نہیں کہہ رہے۔ امام شافعیؒ حالیہ یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی ’رواداری‘ کے
منہج پر نہیں تھے۔ اگر ہر بات میں امام شافعی ایسی ہی ’رواداری‘ پر ہوتے، جوکہ
دراصل ایک فکری آوارگی پر ایمان رکھنے کا نام ہے، تو یہ دوسرا ایک قول بھی تو امام
شافعی ہی کا ہے: حُكْمِي فِي أَصْحَابِ الْكَلامِ أَنْ يُضْرَبُوا بِالْجَرِيدِ
وَيُحْمَلُوا عَلَى الإِبِلِ وَيُطَافُ بِهِمْ فِي الْعَشَائِرِ وَالْقَبَائِلِ
يُقَالُ هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَأَخَذَ فِي
الْكَلامِ (قولِ شافعیؒ کا ویب لنک:http://goo.gl/rvRNx7 )
’’اصحابِ کلام کی بابت میرا فتویٰ یہ ہے کہ کھجور
کی چھڑیوں سے ان کی پٹائی کی جائے اور پھر اونٹوں پر بٹھا کر ان کو قریہ قریہ
پھرایا جائے کہ یہ ہے بدلہ ایسے شخص کا جو کتاب اور سنت کو چھوڑ کر کلام (فلسفہ)
کی طرف رخ کرے‘‘
*****
اس سلسلہ میں ہم اپنے ایک پرانے مضمون سے ایک
اقتباس شیئر کریں گے:
منہج اہلسنت کی رو سے آدمی جو شریعت
سے سمجھتا ہے:
أ.
اس کا ایک حصہ ایسا ہو سکتا ہے جس کا موافقِ شریعت ہونا قطعی
اور یقینی ہے۔ مثلاً صحابہ وقرونِ سلف کا اجماع، ائمہ اہلسنت کے اتفاقات وغیرہ۔ پس
اس ’فہم‘ کا اتباع واجب ہے اور اس کا خلاف گمراہی اور شقاق۔
ب.
انسانی فہم کا ایک حصہ ایسا ہے جس کا موافقِ شریعت ہونا آدمی
کے نزدیک ظنِ راجح ہو۔ اس کا اتباع کرنا اس شخص پر جو دیانت اور خدا خوفی کے ساتھ
اس کا قائل ہے ،چاہے وہ ذاتی فہم و استخراج و تحقیق کا نتیجہ ہو یا کسی صاحب علم
پر اعتماد کا ، واجب ہے۔ مگر جو کوئی دیانت اور خداخوفی کے ساتھ اس کے برعکس موقف
کا قائل ہے ،چاہے وہ ذاتی فہم و استخراج و تحقیق کا نتیجہ ہو یا کسی صاحب علم پر
اعتماد کا، وہ آدمی کے نزدیک قابل عذر ہونا چاہیے۔ فہمِ دین کے اس حصہ میں علمی
مباحثہ، صحت مند تبادلۂ آراء اور نقطہ ہائے نظر، کا متواضع انداز میں ایضاح و
استیضاح اور باہمی تصویب کی کوشش مستحسن ہے البتہ ’مخالفت‘اور ’شقاق‘ حد درجہ
مذموم۔ اخوت کا برقرار رہنا یہاں ہر فرض سے اہم فرض ہے۔ امام شافعیؒ کا بیان
کردہ مشہور قاعدہ: قولی صواب یحتمل
الخطأ وخلافه خطأ یحتمل الصواب جس پر سب اہلسنت کا عمل ہے دراصل انسانی فہم یا
فکر کی اسی دوسری قسم سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پہلی یا تیسری قسم کے ساتھ۔
ج. انسانی فہم کا ایک حصہ ایسا ہے جس کا
خلافِ شریعت ہونا قطعی اور یقینی ہے۔ مثلاً باطل فرقوں اور نظریوں کے وہ استدلالات
جو اجماعِ سلف اور اتفاق اہلسنت سے صریح متصادم ہیں۔ انسانی فہم کے اس حصہ کا،چاہے
اس پر شریعت کے کتنے ہی حوالے دیے گئے ہوں، بطلان اور خلاف کرنا آدمی پر واجب ہے۔
(’’عقیدہ سے فکر اور ثقافت تک‘‘۔ جنوری 2006)