اسلامی
جمعیت طلبہ پر کڑی تنقید
ایک منکر کو ہٹانے میں
اس سے بڑے منکر کی راہ ہموار کرنا؟
نتقیحات
ایک نہایت خوب دینی شناخت رکھنے والی طلبہ تنظیم چارسدہ
یونیورسٹی کے اندوہناک واقعہ پر اپنا افسوس اور سوگ ظاہر کرنے میں مغربی طرز پر
موم بتیاں وغیرہ ایسی تقریبات منعقد کر بیٹھی... تو کچھ نیک حضرات کی جانب سے سوشل
میڈیا پہ اس پر ضرورت سے زیادہ کڑی تنقید ہوئی۔ یہ نوٹ کرتے ہوئے، یہ تحریر سامنے
لائی گئی:
بھائی اگر
تو 20 اسلامی تنظیمیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دین بیزار ماحول میں آپ کی اسلامی
ضرورت پوری کرنے کو موجود ہیں... تو چلیں ایک تنظیم کو فارغ کر دیتے ہیں؛ اور اس
کی موم بتیوں والی تصویر نشر کر کر کے اور اس پر تُند و تُرش کامنٹ لگا لگا کر
نوجوانوں کو اس سے بددِل کر دیتے ہیں؛ کہ ’اور بازار سے لے آئیں گے گر ٹوٹ گیا‘!
.کیا جاتا
ہے؛ ایک تنظیم ہی تو ہے؛ اگر دلوں سے نکلی، اور اچھے لوگ اس سے دُور ہوئے، تو بھی
کیا ہے؛ اور تنظیمیں بڑی ہیں اس خلا کو پُر کرنے کےلیے؛ نوجوانوں کےلیے ہم کوئی
مزید بحران تھوڑی پیدا کر رہے ہیں ایسا کر کے! تعلیمی اداروں کی دنیا میں مسلمانوں
کا کوئی کام رکنے والا تھوڑی ہے صرف ایک عدد تنظیم کو کھو کر!
نوجوانوں کا تو، ایسا کر کے، ہم ایک مسئلہ ہی حل کر رہے ہیں! کیا خیال ہے؟
لیکن بھائی
جب ایسا نہیں ہے، اور یقیناً نہیں ہے... تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ ’غیرتِ دینی‘ وغیرہ ایسے نیک جذبہ کے تحت آپ نوجوانوں کےلیے فی
الحال کیسے کیسے بحران پیدا کر رہے ہیں؟
ایک تنظیم
جیسی بھی ہے، اور بلاشبہ ایسی بہت سی باتیں اس کی قابلِ مؤاخذہ ہی ہیں، لیکن جو
نوجوان ہماری یہ باتیں سن کر اس سے بددِل ہوں گے، کیا ہم نے یہ بھی سوچا: ان کو دینے کےلیے
فی الحال ہمارے پاس ہے کیا؟ (ویسے کیا ضروری ہے کہ یہ سوچا جائے!)
کیا اس میں کوئی شرعی مانع تھا کہ جس قدر ہمارے بس میں تھا ہم اپنے ان
بھائیوں اور ان کے ذمہ داران کو پرائیویٹ طور
پر ہی ایک شرعی خلاف ورزی پر متنبہ کرتے۔ اور اگر ایک بات ہمارے بس سے باہر تھی...
یعنی ہمیں ڈر تھا کہ عوام میں نشر کیے بغیر وہ ہماری بات پر مُتَوجِہ ہی ہو کر نہ دیتے (رہا یہ آپ کی بات مانی
جائے، تو وہ تو اِس طریقے سے بھی شاید ہونے والا نہیں) تو اس صورت میں
ہمارے پاس شریعت کا ایک معلوم اصول ہے: ’’لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا‘‘۔ ایک آدمی بس اتنی ہی چیز کا مکلف ہے جو اس کے بس میں
ہے۔
بھائی ان
دو باتوں میں لائن کھینچ رکھنا ضروری ہے:
1. ایک ہے ایک برائی کے ذمہ دار
کسی شخص یا اشخاص کو اس پر متنبہ کرنا اور ممانعت کرنا۔
2. اور دوسرا ہے کچھ اچھے لوگوں،
یا عام سادہ لوح مسلمانوں کی کسی بڑی تعداد کو، اس سے دُور بھی کر ڈالنا۔
یہ دو الگ الگ باتیں ہیں، برادرم۔ پہلی چیز اگر آپ کے بس میں نہیں یا پہلی
چیز کی حد تک رہنا آپ کے خیال میں مؤثر نہیں... تو بھی دوسری چیز تک چلے جانے
کےلیے الگ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ شرعی قواعد کی رُو سے آیا اندریں حالات یہ
جائز ٹھہرتی ہے یا نہیں؟ غرض پہلی چیز دوسری کو ہر حال میں مستلزم نہیں۔ دوسری چیز
کسی حالت میں جائز ہو گی تو کسی حالت میں ناجائز ہی رہے گی؛ جیساکہ ہماری اِس وقت
کی صورتحال میں ہے۔
بھائی امر
بالمعروف و نھی عن المنکر کوئی دل کی بھڑاس نکالنے کا نام نہیں؛ ایک خالص بصیرت کا
عمل ہے؛ اور خاص اہل علم کی راہنمائی میں انجام دینے کی چیز۔ اس کےلیے جذبۂ نیکی
جس قدر درکار ہے اسی قدر صبر و برداشت اور مَآل کا اندازہ رکھنا بھی آدمی پر لازم
ہے۔
علمائے
منہج ہمیں بتا بتا کر رہ گئے کہ نھی عن المنکر کی شروط میں سے ایک باقاعدہ شرط یہ
ہے کہ آپ بغور دیکھیں: ایک منکر کو ہٹاتے ہٹاتے آپ اس سے بھی بڑے کسی منکر کی راہ
تو کہیں ہموار نہیں کر رہے؟ لیکن ہم ہیں کہ کسی بڑی اور وسیع تر تصویر
کو دیکھنے کےلیے تیار ہی نہیں ہیں۔
ہمارا دیکھنا ہے، فقہ اور بصیرت کی غیرموجودگی
میں ’جذبۂ نیکی‘ بھی آخر ایک بحران ہی بن جاتا ہے۔
یعنی ایک بحران یہ کہ: کچھ کمزور نفوس جاہلیت کی
چکاچوند کے زیراثر اسلام کی خلاف ورزی کر لینے کی جانب مائل ہوں (موم بتیوں وغیرہ
ایسا واقعہ؛ جو بلاشبہ اسلام کی خلاف ورزی ہے)۔ پھر دوسرا بحران یہ کہ: کچھ نیک
نفوس اس پر ردعمل لانے میں دین کا باقی ماندہ نقصان کر دیں۔ یوں یہ دونوں طبقے
برابر کشتی کو بھنور میں دھکیلتے چلے جائیں!
*****
شاید آپ کا خیال ہو کہ میں ایک بات کی سنگینی
بیان کرنے میں مبالغہ سے کام لے رہا ہوں۔ بخدا پچھلے چند سالوں میں میں نے اتنے
زیادہ نوجوانوں کو اسلامی جمعیت طلبہ کو خیرباد کہتے دیکھا ہے کہ آدمی چکرا کر رہ
جائے۔ اور نوجوان بھی عام سے نہیں۔ نہایت دیندار اور پابندِ شریعت۔ یہاں پائے جانے
والے کچھ کم نظر فتووں نے دراصل انہیں باور کرایا تھا کہ فلاں اور فلاں شرعی خلاف
ورزیوں کے باعث ایک تنظیم کو چھوڑ جانا ہی غیرتِ شرعی کا تقاضا ہے۔ شاید بہت کم
لوگوں نے سوچنے کی زحمت کی ہو کہ اتنا اچھا نوجوان اتنی بڑی تعداد میں آخر کیا
ہوا۔ (اور یہ دیکھنا تو ضروری بھی کیا ہے!)۔ ان میں کی ایک تعداد انتہاپسند
تنظیموں کے ہتھے چڑھی۔ اور ایک بڑی تعداد سرے سے معطل اور ناکارہ۔ دونوں ایک دوسرے
سے بڑھ کر نقصان۔ بخدا صالح نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد اگر صبر کا دامن تھامے
رکھتی اور اپنے اسی فورم سے تعلمیی اداروں میں سرگرم رہتی تو آج یہ تعلیمی ادارے
اسلامی آوازوں سے یوں سائیں سائیں نہ کرتے اور یہاں الحاد اس قدر نہ دندنا رہا
ہوتا۔
ابھی حال ہی میں متعدد طلبہ مجھ سے سوال کرنے
آئے ہیں کہ فلاں اور فلاں شرعی خلاف وزری کے باعث میں وہ تنظیم چھوڑ دوں یا نہیں؟
ان کا کہنا تھا ’ایسی ایسی‘ چیزیں دیکھ لینے
کے بعد اس میں باقی رہنے کی کیا تُک ہے۔ اور ایسے ہر نوجوان کو میرا سوال تھا: اس
تنظیم کو چھوڑ دینے کے بعد آپ اپنے دینی فرائض کی انجام دہی کے معاملہ میں
کیا انتظام اپنے پاس رکھتے ہیں؟ ہر کسی کا جواب تھا: کچھ نہیں! کسی نے اضافہ کیا:
’ذاتی اصلاح‘ کروں گا۔
میں ایسے
تمام نوجوانوں سے عرض کروں گا: بھائی اِس ’ذاتی اصلاح‘ والے تصور نے ہی ہمارے
’’اجتماعی معاملے‘‘ کو آج اس نوبت کو پہنچا دیا۔ ’’اجتماعی فرائض‘‘ بجائے خود اور
مستقل بالذات طور پر شریعت کا تقاضا ہیں؛ ’ذاتی اصلاح‘ کو ان کے ’متبادل‘ کےطور پر
لانا یا دیکھنا ہی درست نہیں۔ ہاں یہ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’اجتماعی فرائض‘‘
کی عدم انجام دہی یہ نوبت لاتی ہے کہ ’ذاتی اصلاح‘ بھی آخر دم توڑ جاتی ہے۔
’’اجتماعیت‘‘ میں صبر کرنا، جس قدر ہو سکے انکار على المنکر کرنا، ورنہ اپنا فرض
ادا کرنے پر تو بہرحال توجہ رکھنا، البتہ اجتماعیت کو کسی صورت کمزور نہ ہونے دینا...
دینداری کو معاشرے میں لازماً کچھ بڑی بڑی اکائیوں کی صورت میں سامنے لانا اور
’فرد‘ میں کبھی محصور نہ ہونے دینا... یہ فریضہ کسی حال میں نہ چھوٹنے پائے۔
*****
پھر اس
مسئلہ کی ایک اور جہت بھی ہے...
بھائی اب تو یہ نوبت آئی ہوئی ہے؛ اور قومی فضا اسلامی ایجنڈے سے خالی یوں
سائیں سائیں کر رہی ہے... کہ ہم تو
آج اس حق میں نہیں کہ تحریکِ انصاف یا مسلم لیگ وغیرہ کو داخلی طور پر لبرلز کی
گود میں پڑنے دیا جائے۔ ہم تو ان پارٹیوں میں موجود اسلامی عنصر کو آج یہ تلقین
کرتے ہیں کہ اپنی کسی کمزوری یا پسپائی سے وہاں لبرلز کے ہاتھ مضبوط نہ ہونے دیں؛
اور صبر اور دانائی سے کام لیتے ہوئے اسلامی ایجنڈا کےلیے وہاں جس قدر کچھ لیا جا
سکتا ہو لینے کی کوشش کریں؛ کیونکہ باہر کوئی اسلامی پارٹی اس وقت صورتحال پر
اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں سرے سے نہیں ہے؛ اور جبکہ لبرلز کی پوری کوشش بھی ہے
کہ وہ ان پارٹیوں پر اثرانداز ہونے کے ذریعے ملک پر اثرانداز ہو کر اپنے سب خواب
پورے کریں۔
تو بھائی اگر ہم تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ کو اندریں صورت لبرلز کی آغوش
میں جانے دینے کے روادار نہیں، تو کیا ایک اسلامی جمعیت کو موم بتیوں کے حوالے ہونے
دیں گے؟ https://goo.gl/ZWtW0z
*****
ہماری اس
تحریر پر آنے والا ایک سوال:
شیخ کیا منکر کی نشاندہی نہیں کی جانی چائیے۔ غلطی کا احساس
دلانا اگر مقصد ہو تو بھی درست نہیں؟
چونکہ تنظیمات کا معیار بھی یہ بن چکا ہے کہ لوگ کیا کہیں
گے، اس لئے بانگ دھل تنقید کی جگہ انفرادی تنبیہ کو خاطر میں ہی نہیں لایا جاتا۔
رہنمائی درکار ہے۔
(لنک: https://goo.gl/bv2Mn4 )
جس کا ہماری جانب
سے یہ جواب دیا گیا:
’منکر کی
نشاندہی‘ یا ’غلطی کا احساس دلانا‘ کیوں ضروری نہیں بھائی، اگر وہ اس چیز کا باعث
نہیں بن رہا جس سے ہماری تحریر میں متنبہ کیا گیا ہے؛ اور اس سے شاید آپ کو بھی
اتفاق ہو۔
بات ہو رہی ہے دراصل ایک اپروچ کی۔ بہت سی آوازیں اس وقت اس تنظیم میں
موجود ’’شریعت سے غیرمعمولی تمسک
رکھنے والے‘‘ عنصر کو خود تنظیم ہی سے بددِل کر رہی ہیں۔ یہ ’’شریعت سے غیرمعمولی تمسک
رکھنے والا‘‘ عنصر ہی دراصل اس تنظیم کا روحِ رواں رہا ہے، چاہے فیصلہ سازی میں اس
کو بہت دخل نہ بھی رہا ہو، لیکن تنظیم کی عمومی فاعلیت میں اس کو بہت زیادہ دخل
رہا ہے، جس کے سبب جاہلیت اس کے آگے پسپا ہوتی رہی ہے۔ مگر اس صالح عنصر کے پیچھے
ہٹتے چلے جانے سے تعلیمی اداروں میں ہمارا کباڑا ہو کر رہ گیا ہے (تعلیمی اداروں
میں ہماری پسپائی کے پیچھے گو اور بہت سے عوامل کارفرما ہیں، مگر وہ اس وقت ہمارا
موضوع نہیں)۔ اب کل سے ہمیں بھی سوال موصول ہو رہے ہیں کہ حضرت ’موم بتیوں‘ کے
بارے میں فرمائیں، یہ عمل کیسا ہے۔ ظاہر ہے ہم اسے ٹھیک کیسے کہہ سکتے ہیں۔ جس کا
مطلب ہوا کہ ’پابندِ شریعت‘ حضرات غور میں پڑ جائیں کہ ایسی تنظیم کے ساتھ رہنا اب
کیسا ہے؟! اِس پس منظر میں ہماری یہ تحریر آئی ہے۔
بھائی
’منکر کی نشاندہی‘ اگر اس تنظیم کے صالح عنصر کو تنظیم سے بددِل نہیں کر رہی تو
’نشاندہی‘ میں کوئی حرج نہیں۔ بصورتِ دیگر، میں کہوں گا حرج ہی حرج ہے۔ اور ایسی
صورت میں ’نشاندہی‘ کو ذمہ داروں تک محدود رکھنا کہیں زیادہ قرینِ صواب ہو گا اور ’’خیرخواہ‘‘
و ’’ذمہ دار‘‘ رویّوں کا کہیں بڑھ کر آئینہ دار۔
اللہ اعلم
https://goo.gl/rFmt5T