یہ ایک
لنک مجھے اس تاکید کے ساتھ بھیجا گیا ہے کہ میں اس پر کچھ تبصرہ کروں:
https://goo.gl/9ghQpf
مسلمانوں کا کچھ فائدہ ہو سکتا ہو، یا ان کو کسی نقصان سے بچایا جا سکتا ہو تو
کیوں نہیں۔ کسی بھی فاضل شخصیت کو زیر تنقید لانا ہمارے لیے ایک ناخوشگوار عمل ہے؛
اور اس کےلیے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔ تاہم مسلمانوں کی وحدت اور یگانگت ہمیں ہر
چیز سے بڑھ کر عزیز ہے۔ سنت اور
صحابہؓ سے وابستہ طبقوں کے مابین گروہی تلخیاں پیدا کرنے والے عوامل سے متنبہ رہنا
اور قوم کو متنبہ کرنا اس وقت یہاں کی ہر ترجیح سے بڑی ترجیح ہونی
چاہئے۔ پس اس پر میں یہی عرض کروں گا کہ:
1.
دوسری جانب کیمپ میں بھی جیالے اتنے بےتحاشا ہیں،
خصوصاً آپ کے ذکر کردہ ’مداخلہ‘، کہ یہ آگ ٹھیک ٹھاک بھڑک اٹھ سکتی ہے اور کچھ
فارغ طبقوں کو اچھا خاصا شغل ہاتھ آ سکتا ہے۔ کیا صاحبِ مقال کا یہی مقصد ہے؟ آخر
وہ کن جھگڑوں کو اٹھانے جا رہے ہیں؟ اہل سنت طبقوں کے مابین ہم آہنگی کے لہجے عام
کرنا کہیں زیادہ قرینِ صواب بات ہوتی۔
2.
پوری ’’سلفیت‘‘ پر چڑھائی کرنا اور اس کو گمراہی کا باقاعدہ لیبل بنا کر پیش
کرنا برصغیر کےلیے اب کچھ پرانا ہو گیا ہے۔ ساٹھ ستر سال پہلے ایک طبقہ دوسرے طبقے
کو بلاشبہہ یونہی بلا تفریق لتاڑ لیا کرتا تھا؛ جس کے نتیجے میں طرفین کے مابین
تبرّا کا ایک بازار گرم ہو اٹھتا۔ لیکن اب اللہ کا شکر ہے تفصیل اور تدقیق کے رجحانات آ چکے
ہیں بےشک وہ اتنے ’پاپولر‘ ابھی نہ ہوئے ہوں، بہتر تھا وہ انداز اختیار کر لیا
جاتا۔
3.
ایک واقف حال کو ظاہر ہے اس پر حیرت ہی ہو سکتی ہے کہ: سن 1979 کی ایک مثال
دیتے ہوئے، شیخ ابن بازؒ اور ان کے ساتھ کھڑے سینکڑوں ہزاروں علماء تو آپ کو نظر
نہ آئیں جو بیت اللہ میں فساد کرنے والی ایک مٹھی بھر جماعت کو نری جاہل اور منحرف
قرار دے رہے تھے، باوجودیکہ وہ (ابن
باز اور ان کے سب ساتھی علماء) بھی اپنے آپ کو محمد بن عبدالوھابؒ ہی کے مستند شارح کہتے ہیں... ان
تمام علماء کو تو آپ ’’سلفیت‘‘ کا آئینہ دار تسلیم نہیں کریں گے البتہ سلفی علماء
کی اس پوری جماعت کے خلاف علمی خروج کرنے والے
ایک چھوٹے سے ٹولے (جُــهَـیمـان العـتـیـبـی کی جماعت، جو پیشے کے لحاظ سے محض ایک ڈرائیور
تھا اور سرے سے عالم نہ تھا) کو آپ ’سلفی‘ کے طور پر آئیڈنٹیفائی identify
کرنے پر تُلے نظر آتے ہیں! یعنی اگر کثرت کی بات ہے تو ’سلفی‘ ابن باز کے ساتھ
زیادہ۔ (پورا ملک)؛ دوسری جانب تو محض چند سو آدمی ہیں۔ اور اگر علم کی بات ہے تو
وہاں کے سب علماء ابن باز کے ساتھ؛ دوسری جانب کوئی عالم سرے سے نہیں۔ (جبکہ یہ
سارے کے سارے علماء ابن عبدالوھابؒ کا ہی دم بھرتے ہیں) لیکن آپ ہیں کہ ابن بازؒ
اور ان کے ساتھ کھڑے علماء کے جمع غفیر اور ان کے ہمنوا عوام کے انبوہِ عظیم کے
مقابلے پر ان چند جہلاء کو ہی ’’سلفیت‘‘ کا اصل تعبیر کنندہ قرار دینے پر بضد ہیں
اور اس کو ایک ’بدیہہ و مسلَّمہ‘ مانتے ہوئے، پھر اس سے ’’سلفیت‘‘ کی بابت بقیہ
اصول کشید کرنے چل دیتے ہیں!
4.
اسی (کعبہ میں فساد پھیلانے والی جماعتِ جہیمان کی) مثال پر اب بقیہ اشیاء
قیاس کر لیجئے۔ ان شاء اللہ بات واضح ہوتی چلی
جائے گی۔ کم از کم سینکڑوں علماء کے ٹویٹ روزانہ میری نظر سے گزرتے ہیں۔
ہماری اپنی اطلاعات اس پر مستزاد۔ سعودی عرب کے علماء کو میں جتنی بڑی تعداد میں
داعش کے خلاف یک آواز پاتا ہوں وہ نہایت قابل ذکر ہے۔ دیگر عرب ملکوں میں
’’سلفیت‘‘ سے منسوب علماء کا بھی ایک بڑی تعداد میں داعش کی بابت یہی موقف سامنے
آیا ہے۔ سعودی عرب کے مفتیِ عام کے خطبۂ حج میں تو آپ مسلسل داعش کی مذمت سنتے
ہوں گے۔ (گو وہ ’’واو عطف‘‘ کے ساتھ اسی ایک رَو میں نہ صرف القاعدہ بلکہ الاخوان
المسلمون کا بھی ذکر کر جاتے ہیں! جس پر ہم بھی معترض ہیں؛ الاخوان کو داعش کے
ساتھ ملا آنا خود ہماری نظر میں زیادتی ہے؛ تاہم گفتگو کا موضوع یہاں کچھ اور ہے)۔
اب یہ سارے علماء بھی تعلق تو اسی سلفیت سے رکھتے ہیں۔ جبکہ داعش سے یہ عوام الناس
کو صبح شام خبردار کرتے ہیں۔ لیکن ان کا ذکر آپ اس حوالے سے درخورِ اعتناء نہیں
جانتے! کیا یہ بات خاصی عجیب نہیں؟ ایسی
یک رُخی تصویر تو ایک پورے کے پورے دینی طبقے کی، ہمارے یہاں سیکولر میڈیا پینٹ
کرنے کی کوشش کیا کرتا ہے۔ اسے ہم biased picture دکھانا کہتے ہیں، یعنی متعصبانہ تصویر۔
مثلاً پاکستان میں وہ TTP یا
لال مسجد کے اصحاب یا لشکر جھنگوی کی تصویر کو ہی ’’پوری دیوبندیت‘‘ کی تصویر بنا
کر پیش کرتا ہے جبکہ ہم اسے صحافتی معیاروں کے منافی کہتے ہیں۔ دینی معیار تو
برادرم اس سے کہیں بلند ہونے چاہئیں! کیا شک ہے کہ TTP کو ’’دیوبندیت‘‘ کی نمائندہ بنا کر پیش کرنا TTP کی زبردست خدمت ہے؛ چاہے ایسا کرنے والا بظاہر TTP کی مذمت کا پیرایہ کیوں نہ اختیار کیے ہوئے ہو۔
بعینہٖ یہی خدمت ’’سلفیت‘‘ کو ’مداخلہ‘ یا ’داعش‘ کی پیکنگ میں پیش کرکے بھی آپ
انجام دے دیتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ ہمارے برصغیر میں معاملہ کچھ خراب ضرور ہے، لیکن
عالمی طور پر ’’سلفیت‘‘ کی مین سٹریم نہ تو ’مداخلہ‘ کو منہ لگاتی ہے اور نہ
’داعش‘ کو؛ یہ ان دونوں انتہاؤں سے سراسر ہٹ کر ہے۔
5.
صاحبِ مقال کو میں بہت زیادہ نہیں جانتا۔ لیکن مضمونِ گفتگو سے نظر آتا ہے کہ
الاخوان المسلمون اور تحریکِ اسلامی کے حق میں فضا سازگار کرنا ان کے پیش نظر ہے۔
ہمارے پڑھنے والے ہمارا شمار بھی اخوان اور تحریک اسلامی کے خیرخواہوں میں کرتے
ہیں۔ جبکہ ہم اپنے آپ کو اس طرح کی تمام معتدل جماعتوں کے مؤیدین میں گنتے ہیں۔
مصر میں اخوان پر ڈھائے جانے والے مظالم ہوں یا غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل نواز
مصریوں اور خلیجیوں کا ملت فروش کردار، اس پر ہم شاہ عبداللہ کے سعودی عرب کے
مجرمانہ کردار کو کھل کر نشانۂ تنقید بناتے رہے ہیں۔ حزب النور کے گھناؤنے کردار
کو بےنقاب کرنے میں بھی شاید ہی ہم نے کوئی کسر چھوڑی ہو، اور اِس پر اُس طرف کے
جیالوں سے بہت کچھ سنا بھی۔ یہاں جو میں بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ: جن طبقوں کی
تائید و حمایت صاحبِ مقال کے ہاں مقصود ہے، خود وہ اخوان اور تحریک اسلامی بھی
’’سلفیت‘‘ کی بابت یوں بات کرنے کے ہرگز روادار نہ ہوں گے۔ خود اخوان اور جماعت اسلامی کے وجود کا ایک بڑا
حصہ ’’سلفیت‘‘ پر کھڑا ہے۔ ہمارے دشمن کا تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن ’’دیوبندیت‘‘
اور ’’سلفیت‘‘ دونوں کےلیے ایک ہی کیٹگری رکھتا ہے (کلاسیکل اسلام)؛ اور حق بھی یہ
ہے کہ ان دونوں ندیوں کا اصل ایک ہے۔ ان دونوں کے مابین پائے جانے والے
فرق جتنے بھی ہوں اور ان کو آپ جتنا بھی بڑا کر کے دکھا سکتے ہوں، ان کے مابین
پائی جانے والی وحدتِ اصول کے مقابلے پر یہ سارے فرق بالکل ہی ناقابل ذکر ہیں؛
خصوصاً آج کے اِس جدت پسند (revisionist) اور لادین (secular) سیلاب کے مقابلے پر۔ معاملے کو
اس جہت سے دیکھنے میں بھی حرج تو نہیں! اس سے مسلمانوں میں وحدت بھی قائم ہو گی
اور ان شاءاللہ ثواب بھی ملے گا؛ اور عالم اسلام میں شیطان بھی مایوس ہو گا۔ یہ
اہل سنت طبقوں کے مابین دیواریں اٹھانے کا نہیں گرانے کا وقت ہے۔ میرا نہیں خیال
ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی بھی اپنی عوامی تقریر و تحریر میں
’’سلفیت‘‘ سمیت امت کے کسی بھی طبقے کو موضوع بنا کر اس کے خلاف یوں تعمیم کے صیغے
میں گفتگو فرمائی ہو۔ خود اخوان و تحریک اسلامی کی حمایت ہی اگر صاحبِ مقال کے پیش
نظر ہو تو میرے نزدیک اس مقصد کو حاصل کرنے کا بھی یہ طریقہ بہرحال نہیں۔ یہ اسلوب
اخوان کے مخالفین پیدا کرنے میں زیادہ کارگر ثابت ہوگا بنسبت اخوان کےلیے حمایت
پیداکرنے کے۔ ایسے لہجوں کا فائدہ تو
عالم اسلام کے اندر یا باہر ایک ہی گروہ کو ہو سکتا ہے اور وہ ہے اسلام مخالف کیمپ۔
اس کا فائدہ کرنا تو ظاہر ہے صاحبِ مقال کا مقصد نہیں ہو سکتا۔
6.
آخر میں، میں اس خطہ کے تمام نوجوانوں سے عرض کروں گا: وقت آ چکا کہ پختگی اور ذمہ داری کا ایک اعلیٰ
معیار سامنے لا کر امت کے دشمنوں کو مایوس کیا جائے۔ یہ نوجوان آج اس بات سے بلند
ہو کر دکھائیں کہ ان کی رگِ حمیت کسی ’دیوبندیت‘، کسی ’سلفیت‘، کسی ’اخوانیت‘، کسی
’وہابیت‘، کسی ’اشعریت‘ اور کسی ’ماتریدیت‘ کے حق میں/یاخلاف کبھی بھی پھڑک کر دے۔
یہ رگ پھڑکے تو صرف ’’امت‘‘ کےلیے اور صرف اللہ کے دشمنوں کے خلاف۔ بلکہ ایسی
پختگی لائیں کہ ان ’دیوبندی‘، ’سلفی‘، ’وھابی‘، ’اخوانی‘، ’اشعری‘، ’ماتریدی‘
دائروں کے حق میں/یاخلاف جے بولنے والے کسی نااندیش آدمی کو یہ سب دیوبندی، سلفی،
وھابی، اخوانی، اشعری، ماتریدی مل کر کہیں: دَعۡھَا؛
فَإِنَّھَا مُنۡتِنَۃٌ۔