لبرلزم سارا برا نہیں!
|
:عنوان |
|
|
کوئی باطل ایسا نہیں جس میں کچھ نہ کچھ حق کی آمیزش نہ ہو۔ اور نہ کوئی باطل دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے؛ کچھ نہ کچھ حق کا جھانسہ نفسِ انسانی کو لازماً دینا پڑے گا؛ ورنہ یہ کبھی اُس کے نرغے میں نہ آئے گا۔ |
|
|
حریتِ فکر
یا حریتِ کفر؟ 2 کسی عقیدے یا نظریے کو
ہمیشہ اس کی کلیت totality کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ یہ بحث تو بےشک درست ہے کہ
فلاں مذہب یا فلاں نظریے کی کون کون سی بات اسلام کے موافق ہے اور کون کون سی بات
اسلام سے متصادم۔ (کیونکہ ہر باطل مذہب میں حق اور باطل گڈمڈ ہوتا ہی ہے)۔ البتہ وہ مذہب یا عقیدہ اپنی مجموعی حیثیت میں
ردّ ہی ہوتا ہے؛ تاوقتیکہ وہ پورے کا پورا اسلام کے تابع نہ ہو۔ یہ ہے ایک عقیدے
کو اس کی کلیت کے ساتھ لینا؛ جو ایک طےشدہ قاعدہ ہے۔ رہ
گیا یہ طرزِ فکر کہ مثلاً عیسائیت کا مرکزی مضمون چونکہ عیسی کو ماننا ہے، اور
عیسیٰ کو ماننا تو ظاہر ہے ہمارے دین میں ہے، لہٰذا جس وقت ہم
عیسیٰ پر ایمان کی بات کرتے ہیں اس وقت ہم عیسائیت پر ہوتے ہیں! یا کوئی صاحب اٹھ کر
کہیں کہ عیسائیت کو ہم غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں کچھ باتیں اچھی بھی ہیں،
ہاں عیسائیوں کی صرف ان باتوں کو غلط کہہ لیں جو اسلام سے متعارض ہوں! (اور اسلام
سے متعارض باتیں تو ظاہر ہے اگر مسلمانوں کے ہاں بھی ہوں گی تو رد کی جائیں گی؛
لہٰذا دونوں میں کوئی فرق ہی نہ ہوا!)... کوئی اٹھ کر کہے: یہودیت چونکہ موسیٰ و
دیگر انبیائے بنی اسرائیل کو ماننے سے عبارت ہے لہٰذا یہودی ہونے میں کیا حرج ہے،
بلکہ یہودی تو ہم ہیں کیونکہ موسیٰ ودیگر ابنیائےبنی اسرائیل پر ایمان جو رکھتے
ہیں! سو ایک مسلمان (معاذاللہ) بیک وقت عیسائی بھی ہوتا ہے، یہودی بھی، ہندو بھی،
بدھ بھی، کمیونسٹ بھی، ہیومن اسٹ بھی، لبرلسٹ بھی، وغیرہ وغیرہ؛ کیونکہ اسلام کی
کوئی نہ کوئی بات ان سب مذاہب اور نظریات کے ساتھ مشترک ہے... اِس طرزِفکر کا غلط
اور منحرف ہونا اِس قدر واضح ہےکہ محتاجِ بیان نہیں۔ ظاہر ہے کوئی باطل ایسا نہیں
جس میں کچھ نہ کچھ حق کی آمیزش نہ ہو۔ اور نہ کوئی باطل دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے؛
ورنہ نفسِ انسانی اس کو کبھی قبول کر ہی نہیں سکتا؛ کچھ نہ کچھ حق کا جھانسہ نفسِ
انسانی کو لازماً دینا پڑے گا؛ ورنہ یہ کبھی اُس کے نرغے میں نہ آئے گا۔ پس ہر
باطل میں ہی اسلام کے ساتھ مشترک باتیں پائی جا سکتی ہیں۔ لبرلزم میں بھی یقیناً
کئی ایسی باتیں ہو سکتی ہیں جو اسلام کی رُو سے بڑی اچھی ہوں۔ جیسے ہندومت میں بہت
سی باتیں ایسی ہو سکتی ہیں جو اسلام کی رُو سے بہت اچھی ہوں۔ یہ ہے باطل عقائد
یا نظریات کو ان کی کلیت کے ساتھ لینا۔ ایک باطل عقیدہ اپنے ساتھ حق کی بہت سی
ملاوٹ کے باوجود ردّ ہی کیا جائے گا۔ یہ نہ ہو تو پھر دنیا میں کوئی باطل عقیدہ
ایسا نہیں جو ردّ ہونے کے قابل ہو؛ کیونکہ کچھ نہ کچھ آمیزش اس کے اندر حق کی ضرور
ہو گی۔ *****
مضمون کا گزشتہ حصہ مضمون کا اگلاحصہ
|
|
|
|
|
|