السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قارئین
کرام نوٹ فرمالیں، سال 2016 کے دوران ہم لبرلزم پر کچھ خصوصی مضامین دینے کا ارادہ
رکھتے ہیں۔ ہماری خواہش ہو گی، اپنے حلقے میں ان موضوعات میں دلچسپی رکھنے والے
اصحاب کے ساتھ آپ یہ تحریریں شیئر کرتے رہیں۔
قارئین!
اسلامی عقیدہ ایک وسیع مضمون ہے اور اس کا بیان مختلف سطحوں پر ہونا ضروری ہے۔ مگر
اس عقیدے سے پھوٹنےوالی تہذیب آج ہر کسی کو متوجہ کیے ہوئے ہے۔ اسلام کا ایک عظیم شعار ’’حیاء‘‘ اور اس کا ایک
عظیم مظہر ’’حجاب‘‘ براعظموں کے اندر حملوں کی زد میں ہے۔ کہیں (سوٹزرلینڈ میں)
انتخابات کے اندر یہ سوال رکھا جا رہا ہے
کہ نقاب پہنے نظر آنے والی خواتین کو ساڑھے چھ ہزار پاؤنڈ تک جرمانہ کر دیا جائے
یا نہیں؟ تو کہیں مملکت خداداد پاکستان میں حجاب کی داعی ایک تنظیم ’’الھدیٰ‘‘ کو
لبرل تیروں کے نشانے پر رکھا جا رہا ہے۔ یہاں آدمی دم بخود رہ جاتا ہے کہ اسلامی
تہذیب کے بدخواہوں کو جہاں دنیا بھر کی زبانیں، قلمیں اور چینل دستیاب ہیں وہاں
اسلامی تہذیب کے حق میں بولنے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ کیا واقعتاً ہم
اس پر بول تک نہیں سکتے؟
اُدھر
مشرقِ وسطیٰ میں نئے میدان سجنے لگے۔ ’نئے عثمانیوں‘ نے وقت کی ایک سپرپاور جو ارض
شام پر بےروک چڑھ آئی تھی، یعنی روس کا طیارہ گرا کر گویا اعلان کر دیا کہ روس کے
خلاف جہاد کو جو نصرت کبھی ضیاء الحق کے زمانے میں ارض پاکستان سے ملی رہی تھی آج
وہ ارضِ ترکستان سے دستیاب ہے۔ طرفین میں
تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی حد سے تجاوز بھی کر سکتی ہے۔ معاشی ہتھیار پھر
قوموں اور تہذیبوں کی توجہ لینے لگے، کاش ہم اس کا اندازہ کرلیں، جوکہ ہمیں
خودکفالت سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ روس میں ترکی مصنوعات کا بائیکاٹ ہو جانے کے بعد
سعودیہ اور قطر کی کمپنیوں نے اعلان کیا کہ وہ یہ مصنوعات خرید کر برما اور افریقہ
کے مسلمانوں تک پہنچائیں گی اور ترکی کو اس موقع پر تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا
جائے گا۔ عملاً اس پر کہاں تک عمل ہو گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ بات ہو
جانا ہی مسلم وحدت کے تصور کو جگا دینے میں ایک تاثیر رکھتا ہے۔
جہاں اس وحدت کا ذکر ہو گا، وہاں دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ
میں اب کھل کر سامنے آنے والا ایران بھی موضوعِ بحث ہو گا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات
کی سردی کی ساری برف پگھلتی ہم ایک عرصہ سے دیکھ چکے۔ اب روس شام پر آ چڑھا تو
یہاں کے مسلمانوں کا خون کرنے میں اب یہی ایرانی لشکر روس کے ہم رکاب ہیں۔ ادھر ٹریبیون ایسے اخبارات میں چھپ چکا کہ
ایران پاکستان سے بھی نوجوانوں کی بھرتی کر رہا ہے۔ اس سے پہلے عراق اور لبنان میں
ایرانی سرگرمیوں کو سامنے رکھیں تو اندیشہ ہے کہ ایسی سرگرمیوں سے ایک تو ایران
شام کے محاذ پر پاکستان نوجوانوں کو کام میں لائے گا اور دوسرا، اسی عمل سے
خدانخواستہ پاکستان میں بھی اُس کےلیے ایک عدد ’حزب اللہ‘ تیار ہو گی۔ خدا پاکستان
کو نظربد سے بچائے۔
کراچی
میں ملک دشمن عناصر کے خلاف جاری آپریشن کچھ بڑے بحرانات سے گزرتا نظر آ رہا ہے۔
معاملات کو خراب کرنے کےلیے سیاست کا ہتھیار بڑی مہارت کے ساتھ آزمایا جا رہا ہے۔
سیاسی کھلاڑیوں کے نئےنئے پینتروں کے نتیجے میں خدشہ یہاں تک پیدا ہو گیا ہے کہ
رینجرز کے آپریشنز سے پیدا ہونے والی ایک امیدافزا صورتحال پھر سے کسی پرانے رخ پر
پلٹا کھا کر کراچی کو ان تاریکیوں میں نہ دھکیل دے جو پچھلے کئی عشروں سے یہاں
ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ کراچی ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اس کا بحال ہونا ہمارے
دشمنوں کو کبھی برداشت ہونے کا نہیں۔ دشمن کی زبان بولنے والے طبقے بھی ہرگز یہاں
چھپے ہوئے نہیں، مگر مسئلہ اس زبان کو پڑھنے کا ہے!
قارئین!
پچھلے دنوں نئے تعینات ہونے والے اسرائیلی انٹیلی جنس کے سربراہ یوزی کوھن کی ایک
تصویر منظرعام پر آئی، جس میں وہ اپنی تعیناتی کے اگلے ہی دن اپنے مرشد کی دست
بوسی کو حاضر ہوا۔ اس کا مرشد اس کا بچپن کا استاد حاخام ڈورک مین ہے جو قتل کے
فتوے دینے کی شہرت رکھنے والا ایک شدت پسند یہودی عالم ہے۔ یہ تصویر ذرائع ابلاغ میں على الاعلان چھپی۔
تصور کریں کسی مسلمان انٹیلی جینس کا کوئی افسر یہاں کی کسی انتہاپسند تو کیا کسی
معتدل مذہبی شخصیت کو یوں على الاعلان ملا ہوتا اور ذرائع ابلاغ میں اپنی فوٹو نشر
کرواتا... تو یہ دنیا کو کیسے ہضم ہوتا۔ کم از کم ہمیں اندازہ تو ہونا چاہئے کہ ہمارے
مسلم ملکوں کو آج کیسی صورتحال کا سامنا ہے اور اس دنیا میں کیسے دہرے معیار چلتے
ہیں۔
اسی دوران، افریقی ملک گیمبیا کے صدر یحیىٰ جامح نے ریاست
کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے وہ کومن ویلتھ سے نکلنے
کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ عمل کی دنیا میں بےشک یہ کوئی بڑا واقعہ بوجوہ نہ ہو
سکے، لیکن اس موقع پر جہاں اسلام کو ہر طرف سے گھیرا اور اسلام کا نام لینا دشوار
کیا جا رہا ہے، یہ اس بات کا غماز ضرور ہے کہ عالم اسلام میں برسر کار عوامل میں
اسلامی فیکٹر آج بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے اور کیا بعید، تھوڑی دیر میں یہ پھر ابھر
آئے۔