(جاہلی تہواروں پر کتاب، سنت
اور اجماع سے ایک سیرحاصل گفتگو کر لینے کے بعد، ابن تیمیہ اِس مضمون کو سمیٹتے
ہوئے لکھتے ہیں):
المختصر
v عیدیں، ایک امت کی شرع،
منہاج اور مناسک کا حصہ ہیں (لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا
مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ’’ہر امت کےلیے ہم نے ایک
منسک (عبادت کا ایک مخصوص طریقہ) ٹھہرا دیا جس پر اسے چلنا ہے‘‘)؛ بعینہٖ جس طرح
کسی امت کا قبلہ، روزہ اور نماز۔ آپ نے کسی امت کی عید میں شرکت کر لی یا اُس کے
دیگر مذہبی اعمال میں، ایک برابر ہے۔ اُس کی
پوری عید کے ساتھ موافقت کریں تو یہ اُس کے کفر پر موافقت ہو گی ۔ اور اگر اس کے
بعض حصوں کے ساتھ موافق کریں تو یہ کفر کے بعض شعبوں میں اس کی موافقت ہو
گی۔ بلکہ عید اُن خاص ترین اشیاء میں آتی ہے
جن کے دَم سے ایک شریعت اپنے ماسوا شرائع سے ممتاز ہوتی ہے۔ نیز عید وہ موقع ہے جب ایک امت کے شعائر اپنے ظہور
کے عروج پر ہوتے ہیں۔ لہٰذا؛ کسی کافر قوم کی عید کے ساتھ موافقت کرنا شرائعِ کفر کی خاص الخاص اشیاء اور ان کے شعائر کے نمایاں ترین حصے کے ساتھ موافقت
کرنا ہے؛ اور کچھ مخصوص صورتوں میں یہ فعل کفر تک پہنچ سکتا ہے۔
v اہل کتاب کے تہواروں کی ایک ایک چیز معصیت ہے۔
اُن کی عیدوں کی جو بہترین سے بہترین صورت فرض
کی جاسکتی ہے وہ یہ کہ: یہ (عیدیں) اُن کے ہاں شروع زمانہ سے چلی آرہی ہو۔
یہ بھی شرعِ محمدی کے ہاتھوں اب منسوخ ہو گی؛ اور
اُن کا اُسے تقربِ خداوندی کا ذریعہ سمجھ کر جاری رکھنا صاف خدا کی معصیت۔ پس
اُن کی کسی عید یا اُن کے کسی دینی شعار کا جو اچھے سے اچھا درجہ status متصور ہو سکتا ہے __ جبکہ اُن کے پورے دین میں اب کوئی اچھائی نہیں __ تو وہ یہ کہ ایک مسلمان آج بیت المقدس رُخ ہو کر
خدا کی عبادت کرلے!
v اور اگر یہ تہوار ان کی اُس شریعت میں جو اَب منسوخ اور ممنوع ہے کبھی تھے ہی نہیں،
تو پھر ان کے یہ اپنے من گھڑت ہوئے؛ اور خدا پر بالکل ہی ایک بہتان۔ اس پر ان کےلیے موافقت اور رضامندی دکھانا اور
بھی بڑا گناہ۔
v پس نصاریٰ کی عید (باعوث وغیرہ) میں موافقت
کرنا:
o
یا
تو ایک ایسے دین کی ترویج ہے جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے گھڑ لیا ہے؛ خدا نے کبھی
ایک دن کےلیے بھی وہ مقرر نہ ٹھہرایا تھا،
o
یا
ایک ایسے دین کا اِحیاء جسے خدا نے اب منسوخ کرڈالا ہے،
o
تیسری
کوئی صورت نہیں۔
یہ خالی تہوار کی بات ہے۔ ابھی ہم ان بےحدوحساب شرکیات پر بات نہیں کر رہے
جو ایسے کسی تہوار کا جزوِلازم ہوتی
ہیں۔ یہ اس پر مستزاد ہیں۔
v باطل
ادیان کے پیروکاروں کو ان کے کفریہ افعال پر چھوڑ رکھنا اور انہیں ترک کرنے پر
مجبور نہ کرنا ضرور ہمارے دین میں ہے،
بشرطیکہ ان شعائر کو وہ دارالاسلام میں على الاعلان نہ کریں۔ لیکن ان کی باطل رسوم یا ان کے شرکیہ افعال پر رضامندی
(وخیرسگالی) ہی دکھانے چل دینا ہرگز ہمارے دین میں نہیں۔ بلکہ یہ ایک کفر یا
ایک معصیت پر اظہارِ موافقت ہے۔
v عید اصل میں دین ہے۔ رہ گیا اُس کا عادات والا
(کلچرل) پہلو، جیسے پکوان، پہناوے، تفریح اور تماشے تو وہ اپنے اصل کے تابع ہے۔ (عید
حق ہے تو اُس کے رنگ میلے مستحسن ہیں، اور عید باطل ہے تو اُس کے رنگ میلے گناہ)۔
v کفار کی عیدوں وغیرہ کے حوالے سے مسلم معاشروں
میں ایک بار دروازہ کھلنے کی دیر ہے؛ باقی کام خودبخود ہونے لگتا ہے۔ معاشرے کا
ایک کم علم آدمی جب تک ایک راستے سے مانوس نہیں، بس وہ تب تک ہی اُس سے دُور ہے۔
ہاں ایک بار آپ اسے یہ راستہ کھول دیجئے؛ اس کے بعد تو منکرات جس طرح بند توڑتے
ہیں اور نصاریٰ کی سنتیں ہمارے جاہل طبقوں کے ہاں جس طرح مقبولیت پانے لگتی ہیں
اُس کا اندازہ مشکل ہے۔
v جب ایک چیز معاشرے میں کچھ دیر چل لیتی ہے تو وہ
خود روایت بن جاتی ہے؛ یہاں تک کہ لوگوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ
چیز ان کی اپنی شریعت میں کہیں نہیں آئی۔ اسی عمل نے، اور اہل علم کی اِسی خاموشی
نے، ہم سے پہلے پوری پوری امتوں کی لٹیا ڈبوئی ہے۔
v عیدیں مخلوق کے دین اور دنیا ہردو کے حق میں
نہایت عظیم منفعت رکھتی ہیں۔ اِس لیے ہر شریعت نے اپنے پیروکاروں کے لیے جہاں نماز
اور زکوٰۃ اور حج وغیرہ ایسی اشیاء کو جاری کیا وہاں اپنے پیروکاروں کے لیے عیدیں
بھی جاری کیں۔ وَلِکُلِّ أمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکُرُو
اللّٰہَ عَلیٰ مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الأنْعَامِ۔
لہٰذا ان امور میں ملتوں کا فرق ہمیشہ ملحوظ رہے گا۔
v خوب یاد رکھو: شرائع (احکامِ شریعت) درحقیقت
قلوب کی غذا ہیں۔ جیسا کہ عبداللہ بن مسعود کا قول ہے، اور جوکہ نبیﷺ سے مرفوع
بھی روایت ہوا ہے: إنَّ كُلَّ آدِبٍ يجِبُ أنْ تُؤتى مَأدُبَتُه، وَإنَّ
مأدُبَةَ اللهِ هَيَ الْقُرْآنُ. ’’بےشک ہر ضیافت کرنے والے کی ضیافت قبول کی
جاتی ہے؛ اور بےشک اللہ کی ضیافت یہ قرآن ہے‘‘۔ لہٰذا شرائع کو خالص رکھنا قلوب کی
زندگی اور صحت کےلیے سب سے بڑھ کر ضروری ہے۔ کوئی ایسی چیز جو اِس دل کی صحت کےلیے
خدا نے نازل نہیں کی یا اب وہ موقوف (منسوخ) ٹھہرا دی ہے اس کے پاس پھٹکنے نہ
پائے۔ تم دیکھو گے جب ایک قسم کی غذا سے پیٹ بھر لیا جاتا ہے تو دوسری کی وہ طلب باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح؛ قلب جب غیر مشروع اعمال
قبول کرنے لگتا ہے تو مشروع اعمال کےلیے آدمی کی وہ بھوک اور پیاس باقی نہیں رہتی۔
جس آدمی کو غیرمشروع اشیاء سے بھی کچھ خاطر تعلق ہے وہ مشروع اشیاء سے وہ تقویت
اور صحت کبھی نہیں پاتا جو اس آدمی کا نصیب ہے جس کی کل رغبت ہے ہی مشروع اشیاء کے
ساتھ۔ پس تم ضرور دیکھو گے کہ قبروں اور مزاروں کےلیے لمبےلمبے سفر کرنے والے ایک
آدمی کے حج یا عمرہ میں وہ بات نہیں جو ایک موحد متبعِ سنت شخص کے خانہ کعبہ کی
جانب عازمِ سفر ہونے میں ہوتی ہے۔ اسی طرح تم دیکھو گے جو آدمی حکمائے فارس اور
فلاسفۂ روم و یونان کی پھلجھڑیوں پر ہی سر دھنتا ہو، کتاب اللہ میں ڈوبنے کا لطف
اسے کبھی نہیں ملنے کا اور سنت کا اس کے رؤیں رؤیں میں اتر آنا کبھی نہیں ہونے کا۔
بادشاہوں کے قصوں (’رستم و سہراب‘ اور ’شہرزاد و شہریار‘ وغیرہ) سے بہلنے والا
آدمی انبیاء کے قصص الحق سے سرور پاتا اور پیغمبروں کی سیرتوں میں محو رہتا ہو، یہ تم کبھی نہ دیکھو گے۔ مسند احمد میں آنے والی
یہ حدیث (یا اثر) اِسی معنیٰ میں ہے: مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً، إلَّا نَزَعَ اللهُ عَنْهُمْ
مِنَ السُّنَّةِ مِثْلَهَا ’’کوئی
قوم کبھی ایک بدعت نہیں گھڑے گی مگر اللہ
اس نوع کی کوئی سنت ضرور ان سے
اٹھا لے گا‘‘۔ یہ اس وجہ سے کہ ’’قلب‘‘ ایک غیرمنقسم اکائی ہے۔ ’’دل جمعی‘‘ عبادت کی جان ہے۔ کہنے والے
بےشک کہیں کہ دل میں ہر چیز کی اپنی اپنی گنجائش ہے۔ لیکن اُس دل والی بات کہاں جس
میں سوائے ایک کے کسی کی گنجائش ہی نہیں! لہٰذا؛ خدا
کے سوائی کوئی معبود اور نہ اُس کے ’مشروع کردہ‘ کے سوا کوئی راستہ۔ اِس روح
کے ساتھ ہونے والی عبادت میں جو لطف اور
دلبری ہے وہ کسی اور بات میں کہاں! پس اس قلب کو سب سے زیادہ کسی چیز سے
دور رکھا جانا ہے تو وہ ہے خدا کے نام پر
ہونے والی کوئی من گھڑت یا منسوخ سرگرمیِ عبادت۔ یہ ہے حنیفیت؛ جس میں باطل راستوں کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے۔ ایک ہی سے لگاؤ؛ اور بس! چنانچہ حنفاء کا اللہ کی مشروع کی ہوئی عیدوں
کےلیے رغبت اور شوق دیدنی ہوتا ہے۔ اِن کی عید میں خدا کی تکبیر اور تعظیم بھی
بدرجۂ اتم ہوتی ہے، خوشی، تفریح اور اچھا کھاناپینا بنناسنورنا بھی، اور مخلوق کے
ساتھ احسان بھی (صدقۃ الفطر اور قربانی وغیرہ) ۔ خدا کے مشروع کردہ ایک جشن کےلیے
ایسی وارفتگی تم اس شخص کے ہاں کبھی نہ دیکھو گے جس کے شوق و رغبت کا کچھ حصہ یہاں
کے غیرمشروع تہوار بھی لے جاتے ہوں! غور کرو تو حدیث میں آنے والے لفظ (إنَّ
اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بھِمَا خَیْراً
مِنْھُمَا ’’اللہ
نے ان دونوں کی جگہ پر تمہیں اس سے بہتر دو
دن دے دیے ہیں‘‘)یہ معنیٰ دینے میں کمال اثر رکھتے ہیں۔ یعنی یہ ایک چیز دوسری کی
جگہ پر آتی ہے؛ دونوں ایک جا نہیں سماتے۔ غرض قلوب کی غذا صرف خدا کے مشروع کردہ
اعمال؛ باقی سے آخری درجے کی بیزاری۔
v قوموں کے مابین مشابہت اور مماثلت ایک طرح کی
محبت اور مودت پیدا کراتی ہے۔ مسلمان کا کافر
سے قربت اختیار کرنا اس کے دین کا نقصان ہے۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)