فص21
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
کفار کے
تہوار.. اور مسلمانوں کا اجماع
جہاں تک اجماع کی بات ہے
تو وہ کئی پہلوؤں سے ہے:
اول۔ عہدِ
اول کا متفقہ طرزِ عمل:
جس کی جانب میں ابھی
اشارہ کر آیا ہوں: یعنی یہود، نصاریٰ، مجوس، سب ذمی اقوام مسلم خطوں میں شروع سے
آج تک پائی گئی ہیں۔ جوکہ جزیہ دیتی رہیں اور اس کے مقابل ان کو مکمل امان حاصل
رہی۔ ان کو اپنے دین پر چلنے کی آزادی تھی، جس میں ان کے تہوار بھی
آتے ہیں۔ معاشرے میں جب کسی ایک قوم کا تہوار ہو تو باقی اقوام میں یا کم ازکم
ان کے ایک طبقے میں اس کی جانب میلان اور شرکت کا محرک ضرور پیدا ہوتا ہے، جیساکہ
پیچھے ہم واضح کر چکے۔ مگر سابقین کے عہد میں کوئی مسلمان ایسا نہیں ملتا جو اہل
ذمہ کے تہواروں میں شرکت کرکے آتا ہو۔ ایک ایسے دلچسپ اور رنگ برنگے تہوار
میں شرکت کی جانب نفوس کا میلان طبعی بات ہے۔ پورا معاشرہ اِس سے رُکا
رہے، اس کےلیے ضروری ہے کہ ’’مانع‘‘ اِس سے بھی قوی تر ہو؛ جوکہ شریعت ہی ہوسکتی
ہے۔ اب اِس مانع کی دو صورتیں ہیں:
1) کافر
تہواروں کے لیے مسلم نفوس میں اگر صرف ایک داخلی کراہت ہے اور وہ اُن کو اُس طرف
رخ کرنے نہیں دے رہی تو اس کراہت کے پیچھے شریعت ہے۔
2) اور
اگر ویسے اس کو ’’منع‘‘ سمجھتے ہوئے اِس سے دور رہتے ہیں تو اِس ’’منع‘‘
کے پیچھے شریعت ہے۔
یہ تو ناممکن ہے کہ
o ایک چیز کا محرک
قوی ہو
o اور مانع کوئی نہ
ہو
o پھر وہ چیز عمل
میں آنے سے مسلسل رکی رہے!!!
لامحالہ یہ مانع شریعت ہے؛ جو ایک پورے معاشرے کو برس ہا برس
بلکہ صدیوں ایک عمل سے روکے رکھتی ہے باوجود اس کے کہ ماحول میں اس کے محرکات پوری
طرح موجود ہیں۔
عہدِ اول میں ہمیں اِسی
ایک طرز عمل پر یکسوئی ملتی ہے۔ کوئی اختلاف ہوتا تو نہ صرف سامنے آجاتا بلکہ
(نفوس میں) اِتنے قوی محرکات پائے جانے کے باعث ’دوسری رائے‘ کے پیروکار اُن
تہواروں میں شرکت فرماتے بھی نظر آتے۔
دوم: صحابہ
ؓ کا اتفاق کہ اہل ذمہ اپنے تہوار کھلے عام نہ منائیں گے:
شروطِ عمریہ میں یہ بات
باقاعدہ درج ہے، اور جوکہ اکیلے حضرت عمر کا فیصلہ نہیں بلکہ صحابہ نے ا س پر اتفاق
کیا اوراس کے بعد سب فقہاء کا اِس پر اتفاق چلا آیا ہے کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ
ہمارے اہل ذمہ بنتے ہیں وہ دارالاسلام میں اپنے تہواروں کو کھلے عام نہیں کریں گے۔
حتیٰ کہ فقہاء کے ہاں ان تہواروں کے نام ذکر ہوئے مثلاً شعانین اور باعوث وغیرہ۔
اب اگر مسلمان اس پر متفق ہیں کہ کافر اِن تہواروں کو اپنی چاردیواریوں کے
اندر رکھیں گے اور مسلمانوں کے مابین لے کر نہ آئیں گے تو یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے
کہ مسلمان خود وہ افعال کرنے لگیں؟ کافر کی نسبت ایک مسلمان کا کھلم کھلا
وہ افعال کرنے لگنا کیا اس سے کہیں زیادہ سنگین نہیں؟
سوم: صحابہؓ اور سلف کا اِن تہواروں میں تفریح سے ممانعت کرنا:
1) ابو
الشیخ اصفہانی کی عطاء بن یسار (یا ابن دینار) سے روایت کہ حضرت عمرنے ہدایت فرمائی
تھی : إیَّاکُمۡ وَرَطَانَۃَ
الأعَاجِمِ وَأنۡ تَدۡخُلُوا
عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ یَوۡمَ عِیۡدِھِمۡ فِی
کَنَائِسِہِمۡ ’’خبردار عجمیوں کے لہجے مت سیکھو۔ مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں اُن
کی عید کے روز مت جاؤ‘‘۔
2) امام
بیہقی نے باب باندھا ہے: باب کَرَاھَۃِ
الدُّخُوۡلِ عَلٰی أھۡلِ الذِّمَّۃِ فِی کَنَائِسِہِمۡ وَالتَّشَبُّہِ
بِہِمۡ یَوۡمَ نَیۡرُوۡزِھِمۡ وَمَہۡرَجَانِہِمۡ ’’اس بات کی کراہت کا
بیان کہ اہل ذمہ کے گرجوں میں داخل ہوا جائے اور ان کے نوروز یا مہرجان کے دن اُن
کی مشابہت کا کوئی کام کیا جائے‘‘۔ اس کے تحت بیہقی صحیح اِسناد کے ساتھ روایت لاتے ہیں عن سفیان الثوری، عن ثور بن
یزید، عن عطاء بن دینار: قال: قال عمر: لَا تَعَلَّمُوا رَطانَۃَ الأعَاجِمِ وأن تَدۡخُلُوا
عَلَی المشرکین یومَ عِیدِھِم فی کَنائِسِہِم، فَإنَّ السّخۡطَۃ تنزِل
عَلَیہِم حضرت
عمر کی ہدایت: ’’عجمیوں کے لہجے مت سیکھو۔ مشرکین کے ہاں
اُن کے گرجوں میں اُن کی عید کے روز مت جاؤ؛ کیونکہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے‘‘۔
3) بیہقی
کی روایت: عن الثوری، عن عوف، عن الولید
عن عبد اللہ بن عمر، قال: من بنیٰ ببلاد الأعاجم فصنع نیروزھم ومہرجانہم
وتشبہ بہم حتیٰ یموت وھو کذلک حشر معہم یوم القیامۃ حضرت عبد اللہ
بن عمر ؓ کی تنبیہ: ’’جو شخص عجمیوں کے دیس میں تعمیرات کرے، ان کا نوروز اور
مہرجان منانے لگے اور ان کی مشابہت اختیار کرے، یہاں تک کہ اس کو موت آلے، روزِ
قیامت اس کا حشر اُنہی کے ساتھ ہونے والا ہے‘‘۔
4) بیہقی
ایک روایت امام بخاریؒ سے کرتے ہیں کہ: مجھ کو خبر دی ابن ابی مریم نے، اُس کو
نافع بن یزید نے، اُس نے سُنا سلمان بن ابی زینب اور عمرو بن الحارث سے، اُس نے
سعید بن سلمہ سے، اُس نے ابان سے: کہ اُس نے امیر المومنین عمر بن الخطاب کو فرماتے
سنا: اجتنبوا أعداءَ اللہ فی عیدھم ’’اللہ کے دشمنوں سے دور رہو
اُن کی عید کے روز‘‘۔
5) بیہقی
ابو اسامہ کی سند سے عن حماد بن
زید، عن ھشام، عن محمد بن سیرین روایت
کرتے ہیں: کہ نوروز کے دن حضرت علی کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کیا گیا تو آپؓ نے پوچھا:
یہ کیا؟ عرض کی گئی: اے امیرالمومنینؓ یہ نوروز کا دن ہے۔ آپؓ نے فرمایا: یہ فیروز
روزانہ کیوں نہیں کر لیتے۔ ابو اسامہ (راوی) کہتے ہیں: حضرت علی ؓ نے ناگوار جانا کہ
نوروز کا نام بھی سیدھا لیں (چنانچہ نوروز کو عمداً فیروز کہا)۔
(اس کے علاوہ کچھ روایات
ابن تیمیہؒ صحابہ کے اقوال سے لے
کر آتے ہیں، اس کے بعد فرماتے ہیں):
اب حضرت عمر اہل ذمہ کے گرجوں
میں اُن کے تہواروں کے موقع پر جانے سے ممانعت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ یہ وہ
مقامات ہیں جہاں خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔ اب اگر اُن کے تہوار خدا کے غضب کا محل
ہیں لہٰذا آدمی کا اُس روز وہاں صرف پایاجانا اتنی بری چیز ہے تو
اس تہوار کے کسی حصے میں باقاعدہ شریک ہوجانا کیوں خدا کے غضب کا
موجب نہ ہوگا؟
اس کے بعد ابن تیمیہ تابعین
و تبع تابعین کے اقوال بھی لے کر آتے ہیں۔
(کتاب کے صفحات 454
تا 470)