اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
جاہلی
تہوار.. اور رسول اللہﷺ و صحابہؓ کا تعامل
یہ تصور کرنا درست نہیں کہ نبی ﷺ اور صحابہ ؓکے آس پاس یہود
و نصاریٰ کہیں پائے ہی نہیں گئے اور آج پہلی بار ہمیں ہی یہ دیکھنا ہے کہ اپنے آس پاس
یہودونصاریٰ کے اِن تہواروں پر کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے! یہ درست ہے کہ نبیﷺ اور
صحابہؓ نے محاربیہودونصاریٰ سے جنگیں کیں، مگر
غیر حربی یہودونصاریٰ کے ساتھ بھی اُن کو ہرہر شہر اور ہر ہر ملک میں واسطہ رہا
ہے۔ تو پھر اگر نبی ﷺ اور صحابہ کو بھی یہودونصاریٰ کے ساتھ (اُن کے تہواروں سمیت) واسطہ پیش آیا رہا ہے تو کیا سب سے
بڑھ کر یہ ضروری نہیں کہ ہم دیکھیں اِس
مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ، آپؐ کے اصحاب اسلام پر کس طرح عمل پیرا ہوئے؟
خوب جان لو: سرزمین عرب
میں زمانۂ اول سے لے کر آج تک یہودونصاریٰ پائے گئے ہیں۔ یہود حضرت عمر کے دور تک
جزیرۂ عرب میں موجود رہے یہاں تک کہ خلیفۂ دوم نے انہیں جزیرہ سے نکالا۔ نبیﷺکے عہد
مبارک میں یہود کی ایک بڑی تعداد تھی۔ آپﷺ نے اُن سے ایک معاہدہ بھی فرمایا یہاں
تک کہ اُن کی طرف سے پےدرپے عہدشکنی ہوئی جس کے بعد اُن کی بڑی تعداد مدینہ سے
نکال دی گئی پھر بھی اُن کے کچھ لوگ باقی رہے۔ آپﷺ نے رحلت فرمائی تو زرہ مبارک
ایک یہودی کے پاس ہی رہن تھی۔ یمن یہودیوں سے بھرا ہوا تھا۔ نجران میں عیسائیوں کی
کوئی حد نہ تھی۔ بحرین میں فارسیوں کی بہتات تھی۔ اور یہ دورِ نبوت کی بات ہے۔ اور
یہ تو ہر شخص کو معلوم ہے کہ اِن سب ملتوں کے تہوار بھی ہوتے تھے!
اب یہاں ایک قاعدہ ازبر
کرلو: ایک چیز کا قوی محرک نبیﷺ کے سامنے باقاعدہ انداز میں پیش آیا مگر
آپﷺ نے اس کو اختیار کرنے سے احتراز ہی فرمائے رکھا... تو اُس چیز کو اختیار نہ
کرنا ہی دین ہوگا۔
تو پھر؛ نبیﷺ اور
اصحاب کی جانب سے کسی بھی انداز کی شرکت اپنے ’ہم وطن‘ اہل کفر کے تہواروں میں اگر
مروی نہیں ہے... کیا اِس قضیہ کا فیصلہ کردینے کےلیے یہی ایک بات کافی نہیں؟
اور جہاں تک معاشرہ میں
اِس کے لیے داعیہ پائے جانے کی بات ہے (مسلمانوں کے دورِاول میں)... تو کیا یہ
تصور ہوسکتا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے تہوار منارہے ہوں،اچھے اچھے پکوان، زرق
برق لباس، رنگارنگ اشیاء، باجے، بھنگڑے، نفیریاں، کھیلیں اور کبڈیاں سب چل رہی
ہوں... اور ادھر معاشرے کے عام بچوں، عورتوں اور فارغ طبقوں کو اُس کی طرف توجہ
اور میلان تک نہ ہو!
اب جس شخص کو سیرت پر کچھ
بھی اطلاع ہے وہ یقینی طور پر جانتا ہے کہ عہدِ نبوت میں مسلمان، کافروں کی ایسی
کسی بات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ کفار کے تہواروں کی خاطر اپنا کوئی ایک بھی معمول
نہیں چھوڑتے تھے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کےلیے کفار کا تہوار ہر ہر پہلو سے باقی دنوں
جیسا ہی ایک دن تھا؛ اِن دنوں کے لیے اُن کے ہاں کسی ایک چیز کا اہتمام نہ ہوتا۔ ہاں
کچھ اہتمام تھا تو ان عیدوں کی مخالفت کے حوالہ سے، مثل روزہ وغیرہ!
پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ
وہ دین ہی جسے دورِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبیﷺ سے سیکھا اور سمجھا تھا اِس امر
میں شدید مانع ہو... (حتیٰ کہ اِس ممانعت کے سمجھنے میں کوئی کمی رہ گئی ہوتی)...
تو عہدِ اول کے مسلمانوں کی ایک تعداد تو ضرور ہی ایسی ہوتی جو اِن چیزوں میں
بدستور شرکت کر رہی ہوتی! کیونکہ ایک چیز کا محرک صحابہؓ کی زندگیوں میں قوی طور
پر موجود تھا؛ اِس حقیقت پر عقل، منطق، تاریخ سب شاہد ہیں۔ کیونکہ یہ ایک معلوم
امر ہے کہ کافر ملتوں کے تہوار بہت پیچھے سے چلے آرہے تھے اور قوموں کا جوش وخروش
اپنی عیدوں اور تہواروں کے لیے کبھی کم نہیں ہوتا!
خلفائے راشدین کا پورا
عہد، یہی دستور رہا۔
عہدِ اول میں اِس حوالہ
سے جو زیادہ سے زیادہ بے قاعدگی پائی گئی وہ یہ کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ ازراہِ
تجسس و تماشا ان کے میلوں کی رونق دیکھنے چلے جاتے۔ اس کا ذکر ضرور ملتا ہے.. اور
اِس پر عمر کی سرزنش بھی! چنانچہ حضرت عمرؓ اور دیگر علمائے صحابہؓ سے اِس بات کی
ممانعت ملتی ہے کہ مسلمان، ذمیوں کے میلوں کا تماشا وغیرہ دیکھنے مت جائیں (جس کی کچھ
تفصیل ہم آگے چل کر بتائیں گے)۔ اب آپ خود اندازہ کرلیں حضرت عمر ؓ تو اُن
کے تہواروں کی خالی سیر کرلینے سے ہی مسلمانوں کو روکتے ہوںجبکہ اُن تہواروں میں
سیدھی سیدھی شرکت کر آنے میں حرج کی بات ہی نہ ہو! حضرت عمر ؓ نے اِس
معاملہ میں جتنی بے قاعدگی دیکھی اُتنا نوٹس لیا، یعنی مسلمانوں کو وہاں تفریح سے
ہی روک دیا۔ لیکن کیا خیال ہے کوئی مسلمان اُن اعمال اور تقریبات ہی میں ہی
باقاعدہ شریک ہو کر آتا، اس کو حضرت عمر ؓ چھوڑ
دیتے؟!
یہاں
تک دیکھ لو کہ جب بعض مسلمانوں کے ہاں یہ رجحان نظر آیا کہ وہ کفار کے تہواروں کے
دن روزہ رکھیں گے اور جبکہ اس سے اُن کے پیش نظر کفار کی مخالفت کرنا ہی تھا.. تو
فقہاء کی ایک بڑی تعداد نے اِس
رجحان کی حوصلہ شکنی کی؛ کیونکہ اِس سے بھی مسلمانوں کے یہاں کفار کے تہواروں کی
ایک خصوصی حیثیت بن جانے کا اندیشہ پیدا ہورہا تھا۔ کیا اِن حقائق سے یہ چیز واضح
نہیں ہوجاتی کہ عہدِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبیﷺ سے جو دین لیا اُس میں کفار کے
تہواروں میں ’’شریک‘‘ ہونے کی دور دور تک کوئی گنجائش نہیں؟
(کتاب کے صفحات 449
تا 450)