فص19
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
اہل
جاہلیت کے تہوار اور حدیثِ ام سلمہ
عن کریبٍ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہما، قال:
أرسلنی ابن عباس وناسٌ من أصحاب النبی ﷺ إلی أم سلمۃ رضی اللہ عنہا،
أسألہا: أیُّ الأیَّامِ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ أکْثَرَھَا صِیَاماً؟
قَالَتْ: کَانَ یَصُوْمُ یَوْمَ السَّبْتِ وَیَوْمَ الأحَدِ أکْثَرَ مَا یَصُوْمُ
مِنَ الأیَّامِ، وَیَقَوْلُ: إنَّہُمَا یَوْمَا عِیْدٍ لِلْمُشْرِکِیْنَ
فَأنَا أحِبُّ أنْ أخَالِفَہُمْ۔ (مسند أحمد،
السنن الكبرى للنسائي. حسَّنه الألباني والأرنؤوط) [1]
ابن عباس کے غلام کریبؒ سے روایت ہے، کہا: مجھے
ابن عباسؓ اور کچھ دیگر صحابہؓ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پاس یہ دریافت کرنے کےلیے
بھیجا کہ نبیﷺکونسے دنوں کا روزہ سب سے زیادہ رکھا کرتے تھے؟ ام
المومنین نے جواب دیا: سب سے زیادہ آپﷺہفتہ اور اتوار کا روزہ رکھتے اور فرمایا کرتے: یہ
دونوں مشرکین کی عید کے ایام ہیں اور مجھے پسند ہے کہ میں اُن کی مخالفت کروں۔
یہ
حدیث بھی اِس بات پر نص ہوئی کہ: اہل کتاب کی مخالفت، چاہے کسی وقت ازراہِ استحباب
ہو، شریعت کے مقاصد اور اعتبارات میں بہرحال شامل ہے.. اور یہ کہ اہل کفر کے
تہواروں پر اگر کوئی کام کرنے کا ہے تو وہ یہ ان کی مخالفت کی جائے نہ کہ اُن کی
موافقت۔
اِس حدیث کے حوالے سے جو
کئی سارے سوال اٹھتے ہیں، مثلاً یہ کہ ایک دوسری حدیث میں سبت کا روزہ منع ہے
(البتہ علت وہاں بھی یہی بیان ہوئی کہ اس سے یہود کی مخالفت مقصود ہے، لہٰذا
مقصد کے لحاظ سے صومِ سبت سے منع کرنا بھی وہی فائدہ دیتا ہے جو یہ حدیثِ ام سلمہؓ
یہاں دے رہی ہے) اور یہ کہ.. آیا سبت کا روزہ مطلق منع ہے یا مفرد طور پر
(یعنی بغیر کوئی دن ساتھ ملائے)... تو ان فقہی سوالوں[2] کا جواب ہم کتاب میں آگے چل کر دیں گے۔
یہاں یہ بات سمجھ لو کہ سبت کے روزہ پر علماء کا جو بھی اختلاف ہے، اِس پر
سب کا اتفاق ہے کہ سبت کے معاملہ میں یہود کی مخالفت کرنا مستحسن ہے۔ جو عالم اُس
دن روزہ کا قائل ہے وہ اِس اعتبار سے کہ یہ اُن کی عید کی مخالفت ہے۔ اور جو اِس
سے ممانعت کرتا ہے وہ اِس اعتبار سے کہ اِس روز کوئی خصوصی عبادت کر لینے سے یہود
کی مخالفت ایسا ایک مقصدِ دین متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اِس مسئلہ پر علمائے اسلام
کے فریقین میں جو بھی فقہی اختلاف ہو، ہمارے بیان کردہ اِس (اہل کتاب کی مخالفت
والے) مبحث کی ہردو جانب سے تائید ہی ہوتی ہے۔
(کتاب کا صفحہ 453)
[1] رواہ أحمد
رقم الحديث 26750 وقد حسَّنَه الأرنؤوط في تحقيقه على المسند، والنسائي في السنن
الكبرى كتاب الصيام باب صيام يوم الأحد رقم الحديث 2789، والحاكم في المستدرك رقم
1593، وابن خزيمة في صحيحه رقم 2167، والطبراني في المعجم الكبير رقم 964،
والبيهقي في السنن الكبرى 8497.
قال ابن تيمية: وصححه بعضُ الحفاظ.
وقد حسَّنَه الألباني في صحيح الجامع الصغير
وزيادته رقم 4803.
[2] اِس مختصر اردو اِستفادہ میں ہم اِن فقہی تفاصیل
کا ذکر نہیں کر سکیں گے۔