فص17
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
"تہوار"
ایک ملت
کے ظہور کا ذریعہ.. حدیثِ عائشہ کی دلالت
عَنْ عَائِشَۃَ (رَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہَا)، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ أبُوْ بَکْرٍ (رضي الله عنه)،
وَعِنْدِیۡ جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِی الأنْصَارِ تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ
بِہٖ الأنْصَارِ، یَوْمَ بُعَاثٍ. قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ.
فَقَالَ أبُوْ بَکْرٍ أبِمَزْمُوْرِ الشَّیْطَانِ فِیْ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ؟ وَذٰلِكَ یَوْمُ عِیْدٍ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ
اللّٰہِﷺ: یَا أبَا بَکْرٍ إنَّ
لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً وَهٰذَا عِیْدُنَا. (متفق علیہ)
عائشہ
سے روایت ہے، کہا: ابوبکر میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس دو انصاری لڑکیاں
تھیں جو گا رہی تھیں اُن رجزیہ اشعار پر جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر گائے
تھے۔ عائشہ کہتی ہیں: یہ دونوں کوئی (باقاعدہ) گانے والیاں نہ تھیں۔ تب ابوبکر
بولے: ارے، رسول اللہﷺ کے گھر میں شیطان کے راگ؟ جبکہ یہ عید کا دن تھا۔ تب رسول
اللهﷺنے فرمایا: ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے، اور آج ہماری عید ہے۔
اِس حدیث میں وجہِ دلالت تین
پہلوؤں سے ہے:
۱۔ ہر قوم کی اپنی اپنی عید۔ إنَّ لكُلِّ قومٍ عِيدًا
اِس
حدیث کے الفاظ اور اِن دو قرآنی آیتوں کے الفاظ کے مابین مماثلت پر ذرا غور کرو:
وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ هُوَ
مُوَلِّیْہَا (البقرۃ: ۱۴۸) ’’ہر
کسی کی کوئی سمت ہے جس کی طرف اُس کو رخ کرنا ہوتا ہے‘‘۔
اور لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً (المائدۃ: ۴۸) ’’تم میں سے ہر کسی کے لیے ہی ہم نے ایک شریعت
اور ایک منہاج ٹھہرا دیا ہے‘‘۔
اول الذکر آیت، قبلہ سے متعلق
ہے اور لِکُلّ کا لفظ بول کر ہر امت کا الگ الگ اختصاص واضح
کیا گیا ہے، اِسی لیے ہم دیکھتے ہیں وہاں پر یہ بھی فرمایا گیا: وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا
بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ (البقرۃ: ۱۴۶) ’’اور
تم اُن کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہو، اور وہ بھی ایک دوسرے کے قبلہ کی
پیروی کرنے والے نہیں‘‘۔ چنانچہ اِن دو آیتوں کی طرح حدیث (لِکُلِّ قَومٍ) میں بھی
لام اختصاص کا آیا ہے۔ یعنی جس طرح از روئے آیت: قبلہ میں شرعی اختصاص ہے (ہر امت
کا اپنا اپنا قبلہ) ویسے ہی ازرُوئے حدیث: عید میں شرعی اختصاص ثابت ہوتا ہے؛ یعنی
یہود کی اپنی عید، نصاریٰ کی اپنی، اور مسلمانوں کی اپنی۔ جب اختصاص ہے تو کوئی کسی دوسرے کے قبلہ کی طرف جائے گا اور نہ دوسرے کی
عید کی طرف۔
۲۔ رسول
اللہﷺ کا فرمانا: وَإنَّ
عِیْدَنَا ھٰذَا الیَوم ’’اور
ہماری عید آج ہے‘‘،
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے
تہوار اِن دو مواقع کے اندر محصور ہیں۔ الیَوم پر جو الف لام ہے وہ استغراق کا فائدہ دیتا ہے؛
جیسے فرمایا: تَحْرِیْمُہَا التَّکْبِیْرُ
وَتَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ ’’نماز کی تحریم، تکبیر ہے
اور تحلیل، تسلیم‘‘۔ (تکبیر پر ال کا فائدہ یہ ہوا کہ: تکبیر ہی سے نماز کی تحریم
ہوگی۔ اور تسلیم پر ال کا فائدہ یہ کہ: سلام سے ہی نماز کی تحلیل ہوگی۔ یعنی ایسا
نہیں کہ تکبیر سے بھی تحریم ہوجاتی ہو البتہ تکبیر کے علاوہ کسی چیز سے بھی تحریم
ہو جاتی ہو، یا یہ کہ سلام کے علاوہ کسی لفظ سے بھی نماز کی تحلیل ہو جاتی ہو۔ یہ
فائدہ ہوا استغراق کے ’’ال‘‘ کا)۔ جبکہ
لفظ ھٰذا سے رسول اللہ ﷺ کا اشارہ روزِ عید کی جنس کی طرف ہے نہ کہ عین کی
طرف؛ لہٰذا عید الفطر کے ساتھ عید الاضحیٰ ( اپنے پورے ایام کے ساتھ) خود بخود
شامل ہوگی؛ جیساکہ ابوداود اور نسائی میں عقبہ بن عامرؓ کی روایت میں رسول اللہﷺ
کا فرمان ہے: یَوْمُ عَرَفَۃَ وَیَوْمُ
النَّحْرِ وَأیَّامُ مِنیٰ عِیْدُنَا أھْلِ الإسْلَامِ، وَھِیَ أیَّامُ أکْلٍ
وَشُرْبٍ ’’یومِ عرفہ، یومِ قربان، اور
منیٰ کے ایام ہم اہل اسلام کی عید ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں‘‘۔
۳۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً
کے الفاظ نبیﷺ نے بچیوں کے
گانے وغیرہ پر رخصت دینے کے سیاق میں ارشاد فرمائے ہیں۔ پس یہ (گانے وغیرہ ایسی)
رخصت اِس مناسبت سے ہوگی کہ یہ ’’مسلمانوں کی عید‘‘ ہے۔ کسی اور ’’عید‘‘ کے لیے یہ
احکام ہی نہ ہوں گے۔ ورنہ ایک بات (جسے ’’مزمور الشیطان‘‘ کہنے پر آپﷺ نے کوئی اعتراض نہ فرمایا) کی اگر
ہر وقت ہی گنجائش ہے تو خاص یہ لفظ بول کر کہ ’’ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے‘‘
کوئی خصوصی گنجائش بتانے کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا۔
(کتاب کے صفحات 646 تا 449)