فصل 16
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
شرکیہ تہواروں کا ’کلچرل‘ پہلو اور حدیثِ
ثابت بن ضحاک
عَنْ ثَابِتٍ بْنِ الضَّحَّاكِ،
قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ أنْ
یَنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ، فَأتیٰ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أنْحَرَ إبِلاً
بِبُوَانَۃَ۔ فَقَالَ النَّبِیُّﷺ: ھَلۡ کَانَ فِیْہَا
وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَﷺ: فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِهِمْ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَﷺ: أوْفِ بِنَذْرِكِ، فَإنَّہٗ لا وَفَاءَ
لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، وِلا فِیْمَا لا یِمْلِكُ ابْنُ آدَمَ۔
ثابت
بن ضحاک سے روایت ہے، کہا: رسول اللہﷺ کے عہد میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ
بوانہ کے مقام پر کچھ اونٹ ذبح کرے گا۔ تب وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی:
میں نے نذر مان لی ہے کہ بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا وہاں
جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت ہوتی ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔
آپﷺ نے فرمایا: کیا وہاں اُن کے تہواروں میں سے
کوئی تہوار تھا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ تب آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری
کرلو؛ کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا (اسلام میں) نہیں جو اللہ کی معصیت میں ہو، یا
جو آدمی کے بس سے باہر ہو۔
(اِس کے
بعد امام ابن تیمیہ انہی الفاظ سے ملتی جلتی عبارت پر مبنی کچھ دیگر
روایاتِ حدیث بھی لے کر آتے ہیں، مگر ہم نے ایک ہی روایت کے ذکر پر اکتفاء
کیا ہے)
اِس
حدیث میں وجہِ دلالت:
رسول اللہ ﷺ اس شخص کو نذر
پوری کرنے کی اجازت دینے سے پہلے جو دو سوال پوچھتے ہیں، وہ اِس موضوع پر فیصلہ کن
ہیں:
1)
ایک یہ دریافت فرمایا کہ: کیا
وہاں اہل جاہلیت کا کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟
2)
دوسرا
یہ کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار festival تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟
جب دونوں سوالوں کا جواب نفی
میں ملا تو آپﷺ نے اُس کو وہاں اپنی نذر پوری کرنے دی۔ پھر جو الفاظ آپﷺ نے بولے
وہ بھی قابل غور ہیں: فإنہ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ
اللّٰہِ یعنی ’’نذر میں خدا کی معصیت
ہو تو اس کو پورا کرنا درست نہیں‘‘۔ پس واضح ہوا جاہلیت کی عید اور تہوار خدا کی
معصیت میں آتا ہے۔
حالانکہ نذر کو پورا کرنے کی
بابت رسول اللہ ﷺکہاں تک گنجائش دیتے ہیں، اس کا اندازہ ایک دوسری حدیث سے کیجئے:
عَنْ
عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ، أنَّ امْرأۃً أتَتِ النَّبِیَّﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ إنِّیْ
نَذَرْتُ أنْ أضْرِبَ عَلیٰ رَأسِكَ بِالدُّفِّ۔ قَالَ: أوْفِیْ بِنَذْرِكِ۔
قَالَتْ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا کَذَا _ مَکَانٌ کَانَ
یَذْبَحُ فِیْہِ أھْلُ الْجَاهِلِیَّۃِ _ قَالَ: لِصَنَمٍ؟ قَالَتْ: لا۔
قَالَ: لِوَثَنٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: أوْفِیْ نَذْرَكِ۔
روایت عمرو بن شعیب کی اپنے والد، اور انکے والد کی انکے
دادا (عبد اللہ بن عمروؓ) سے: ایک عورت نبیﷺکے پاس حاضر ہوئی اور کہا: میں نے نذر
مان لی کہ (اللہ آپکو بسلامت غزوہ سے لوٹا لائے تو) میں آپکے سرہانے دف بجاؤں۔ آپﷺ
نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔ وہ کہنے لگی: میں نے نذر مان لی ہے کہ میں فلاں
مقام پر جانور ذبح کروں۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں اہل جاہلیت اپنے جانور ذبح کر
لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی صنم (مرئی بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے
لگی: نہیں۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی وثن (غیر مرئی بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے
لگی: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ...:
ایک عورت رسول اللہﷺکے سرہانے کھڑی ہو کر دف (ہلکی ڈھولکی قسم کی چیز) بجانے کی
نذر مان لیتی ہے تو آپ ﷺ اُس کو نذر پوری کرنے
دیتے ہیں (اِس عمرو بن شعیب والی حدیث میں)۔ مگر دوسری جانب (ثابت بن ضحاکؓ والی
حدیث میں) جاہلیت کے تہوار کی جگہ پر جا کر (خالص اللہ کےلیے ذبیحہ کی) نذر پوری
کرنے نہیں دیتے۔ ظاہر ہے، اُس صحابی نے (نعوذ باللہ) کوئی غیر اللہ کے نام پر تو
اونٹ ذبح نہیں کرنے تھے! مگر جاہلی تہوار کی شناعت ایسی ہے کہ خالص اللہ کے
نام کی مانی ہوئی ایک نذر بھی وہاں پر ممنوع ٹھہرے گی۔
اب ذرا سوچو... جاہلی تہوار
کے لیے مخصوص ایک جگہ کی یہ شناعت ہے تو خود اس تہوار ہی کی کیسی شناعت ہوگی؟ خود
اُس تہوار ہی میں جا شرکت کرنا آخر شنیع کیوں نہ ہوگا؟ اس جاہلی تہوار کی مناسبت
سے جو کچھ مخصوص افعال انجام دیے جاتے ہیں اُن میں سے بعض کا ارتکاب کر آنا شریعت میں مذموم کیوں نہ ہوگا؟
پھر ایک اور بات پر غور
کرو... حدیث کے الفاظ ہیں فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِھِمْ؟ ’’کیا وہاں اہل جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی
تہوار (منایا جاتا) تھا‘‘؟ یہاں آپﷺ ماضی کے بارے میں دریافت فرما رہے ہیں نہ
کہ حال کے بارے میں۔ حدیث کے بعض دیگر طرق سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے نبیﷺ
سے یہ سوال حجۃ الوداع کے موقع پر کیا تھا۔ یعنی وہ وقت جب جزیرۂ عرب اسلام کے
زیرنگیں آچکا تھا اور وہاں کے سب جاہلی تہوار موت کی نیند سلائے جا چکے تھے۔ لہٰذا
آپﷺ کا سوال تب ماضی ہی کی بابت ہو سکتا تھا۔ مراد یہ کہ اب تو کسی جاہلی تہوار کا سوال ہی کہاں رہ گیا، یہ بتاؤ کیا ماضی میں بھی
وہاں جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو نہیں منایا جاتا تھا؟ پس واضح
ہوا کہ ماضی میں بھی اگر کہیں پر جاہلی تہوار منعقد ہوتا تھا تو ایسے مقام کی یہ
شناعت ہے۔جب ایسا ہے تو پھر ایک حاضر باش جاہلی
تہوار میں شرکت کرنے چل پڑنا کیوں شنیع نہ ہوگا؟
اندازہ کر لیجئے، ایک خطہ جب پوری
طرح اسلام کے زیرنگیں آجاتا ہے اور جاہلیت کی ایک ایک چیز وہاں مٹا کر رکھ دی جاتی
ہے تب بھی آپﷺ یہ تنبیہ فرما رہے ہیں؛ کہ مبادا
کسی جاہلی عمل یا کسی جاہلی مظہر کو مسلم معاشرے میں ازسرنو زندگی مل جائے۔
شرکیہ
تہواروں سے اسکے ’کلچرل‘ پہلو کو الگ کرنا!
پھر جبکہ یہ بھی ذہن میں رہے
کہ جس تہوار کی بابت آپﷺ دریافت فرما رہے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ کوئی میلہ قسم کی چیز ہوگا، جہاں
عربوں کا کھیل تماشا ہو جاتا ہوگا۔ خود مدینہ کے جو دو تہوار تھے
(جن کا ذکر پچھلی حدیث میں گزرا) اُس میں بھی انصارؓ نے آپﷺ کے دریافت فرمانے پر
کسی بت یا کسی عبادت کی مناسبت ذکر نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ اس دن ہم اپنا کھیل تماشا کر لیتے تھے (کُنَّا
نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ)۔ یعنی
اس کی کوئی مذہبی مناسبت religious significance ہمیں نہیں ملتی۔ یہ تو رہا مدینہ والے تہوار کا معاملہ۔ پھر اِس
(بوانہ والے) موقع پر تو آپ خاص طور
پر دیکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ ’’بت‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا بوانہ
کے مقام پر جاہلیت کا کوئی بت تو نصب نہ تھا) اور ’’تہوار‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے
ہیں (کہ آیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو
نہ تھا)۔ یہ واضح دلیل ہوئی کہ جاہلیت کے تہواروں کے ساتھ منسلک اشیاء میں سے
کسی بھی شےء کو کسی بھی انداز میں کرنا شدید منع ہے۔
مزیدبرآں،
پچھلی حدیث کے ضمن میں ہم نے ایک بات خاص مدینہ کے حوالے سے ذکر کی تھی۔ مگر اب یہاں غور کرو کہ پورے جزیرۂ عرب میں ہی عیدین سعیدین کے
سوا کوئی تہوار باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ کیا تم اِس میں ہرگز کوئی دلالت نہیں
دیکھتے؟ سوچنے کی بات ہے کتنے ان گنت تہوار ہوں گے جو جزیرۂ عرب میں ہمیشہ کے لیے
موت کی نیند سلا دیے گئے۔ ایک پوری قوم
کی زندگی سے، اُس کے صدیوں سے چلے آتے تہواروں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا
ڈالنا کیا کوئی معمولی بات ہے؟ بغیر ’’شدید ممانعت‘‘ کے اتنی بڑی چیز کہاں ختم
ہونے والی تھی؟ اِس پر ذرا تدبر کرو، تو کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ امام المتقینﷺنے __ میرے ماں باپ
آپؐ پر قربان __ اِن سب جاہلی رسوم کو جزیرۂ عرب کے اندر باقاعدہ
ختم کروایا تھا اور جاہلیت کے ان سب شعائر کی بابت ایک حد درجہ ناگواری نفوس کے
اندر بٹھائی تھی۔
جیساکہ کتاب کے شروع میں بھی
یہ بات گزری ہے... رسول اللہﷺ تو اُن نیکیوں یا اُن مباحات تک کے معاملہ میں جو
دوملتوں کے مابین کسی وجہ سے ’’مشترک‘‘ ہیں، کچھ نہ کچھ ایسے ’’فرق‘‘ جاری فرما
دیتے ہیں کہ جہاں اشتراک ہے وہاں بھی ایک فاصلہ قائم ہو جائے۔ اور یہ بات تم شریعت
میں جابجا دیکھو گے۔ تو پھر جس شریعت میں اِس
بات پر پورا زور صرف کردیا گیا ہو کہ اشتراک والی جگہوں پر بھی ’’فرق‘‘ کو نمایاں
کرکے رکھا جائے وہ اُن امور میں ’’موافقت‘‘ کی روادار کیسے ہوسکتی ہے جن میں ہے ہی
مخالفت؟!
بات
واضح ہے۔ شریعتِ اسلام نے تمہاری ایک ضرورت کا شدید خیال رکھا ہے:
تمہارے اور اصحابِ دوزخ کے مابین فاصلہ جتنا
زیادہ رہے گا اُتنا ہی تمہارا، اصحابِ دوزخ کے اعمال میں جاپڑنا، ان شاءاللہ دُور
از امکان رہے گا۔ (کتاب کے صفحات 436 تا
646)
’تہوار‘ آخر
کلچرل ہی تو ہوتا ہے؛ پھر جبکہ حدیث میں اسے ’بت‘ سے جدا رکھا گیا ہے۔