ماضی کے دریچوں میں ذرا جھانکا تو کچھ
نوجوان کاندھوں پر سامانِ خوراک اور ادویات کے گٹھے لادے بالاکوٹ اور کشمیر کے پہاڑوں پر چڑھتے ان دور دراز دیہاتوں کی طرف
گامزن تھے جہاں 5 دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی قسم کی امداد نہیں پہنچی تھی۔ یہ
اکتوبر 2005 کے زلزلہ متاثرین کی مدد کےلیے اپنی جان و آرام کی پرواہ کیے بنا صرف اس عزم سے
آگے بڑھ رہے ہیں کہ کہیں بھی کوئی انسان مدد کا منتظر نہ رہ جائے۔ پھر خیال ہٹتا
ہے تو تھر کی چلچلاتی دھوپ میں کچھ نوجوان کسّی اور کدال اٹھائے کسی سایہ دار جگہ
کی تلاش میں ہیں جہاں وہ کچھ دیر آرام کر سکیں۔نوجوانوں کی یہ جماعت صبح سے اس
تپتے صحرا میں ایک کنواں کھودنے میں مصروف تھی جس سے یہاں کے بانلاتے مکین، ہندو،
مسلمان، پانی کی نعمت سے فیضیاب ہو سکیں۔
نوجوانوں کی یہی جماعت ہر سال جولائی اگست
میں اپنی شلواریں ٹخنوں سے چڑھائے سیلابی پانی میں اترے بھی نظر آتی ہے۔ یہ اپنے
ذاتی سامان کی منتقلی میں مصروف نہیں ہوتے بلکہ مقصد یہاں بھی انسانیت کی خدمت
کرنا ہے۔خیال ذرا لاہور، کراچی اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں کی طرف جاتا ہے تو ان شہروں
کے قریبا ہر اسپتال کے باہر ایک کونے میں
کھڑی ایمبولینس دِکھتی ہے جو کسی غریب کی مدد کو منتطر ہے۔یا کہیں بھی کوئی
ناگہانی آفت ہو نوجوانوں کی یہ ٹیم بڑے خلوص کے ساتھ مدد کو پہنچ جاتی ہے۔
حضرات آپکو سن کر حیرانی
نہیں ہونی چاہیے کہ یہ ہمہ دم مدد کرنے کو منتظر لوگ امریکی اطلاعات کے مطابق دہشتگرد ہیں! اور اس کی تصدیق بغیر تحقیق ہمارے بعض
حکمران طبقوں پر فرض! یقین نہ آئے تو نومبر 2015 میں
لاہور کے نواح سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں فیکٹری منہدم کی مثال گوش گزار ہے جہاں ان
نوجوانوں کو دہشتگرد تنظیم کا کہہ کر ملبے میں دبے غریب مزدوروں کو نکالنے سے روک
دیا گیا۔ زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے پہاڑوں کو پھلانگنے والے یا تھر کی لو میں
کنویں کھودنے والے یا مستحق افراد کو فری ایمبولینس سروس فراہم کرنے والے یا اس
طرح کی کسی اور ’دہشتگرد‘ سرگرمی میں ملوث یہ افراد فلاح انسانیت فاؤنڈیشن سے
وابستہ ہیں۔ جن کو خوشنودیِ امریکہ یا رضائے مُودی کی خاطر دہشتگرد قرار دیا جانا
ایک باعث شرم فعل ہے۔غریب مزدوروں کو ملبے سے نکالنا بھلا کس قسم کی دہشتگردی ہے؟اور
اسی دہشتگردی کا ارتکاب کرتے ہوئے قریب گیارہ افراد کو ملبے سے نکالا بھی جا چکا
تھا!
ایک طرف تو یہ لوگ حکومت کو بدنامی سے
بچا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کی کسی بھی آفت سےنمٹنے کیلئے کوئی آلات موجود نہیں
جو حکمرانوں کی ترجیحات بتاتا ہے تو دوسری طرف غریبوں کی امداد کر رہے
ہیں۔ ارباب اختیار سے صرف اتنا پوچھنا ہے کہ کیا آخر کو ئی حد ہو گی امریکہ و
بھارت کی خوشنودی کی خاطر اپنے لوگوں اور اپنے ملک کا نقصان کرنے کی۔حالانکہ اس
طرح کی کسی بھی آفت میں ہر اختلاف سے بالاتر ہو کر انسانی جانوں کا بچانا سب سے
پہلا فطری عمل ہے جبکہ بزدلی اور غلامی کی انتہا ہے کہ اتنے رقت آمیز مناظر میں
بھی حکمران سوچ رہے ہیں تو اپنی کرسیوں کے دنیاوی مالک کے بارے میں!
ویسے بھی انسانیت کے خدمتگاروں کو دہشتگرد
کس بنا پر قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ سپریم کورٹ جماعۃ الدعوہ یا ان کی ذیلی
جماعت فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو ممبئ حملوں سے بری الذمہ قرار دے چکی ہے۔ تو پھر
مسئلہ شاید ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے دفاع پاکستان کانفرنس کا انعقاد
ہے جس کا بنیادی مقصد نظریہ پاکستان لا الہ الا اللہ کی از سر نو تشکیل ہے۔ارباب
سے گزارش ہے کہ خدارا غلامی کے اس طوق کو گلے سے اتار دیں جس سے سراسر نقصان ملک و
قوم کا ہی ہو رہا ہے اور دہشتگردی کے اس زمانے میں فساد پھیلانے والوں اور امن و
سکون کا درس دینے والوں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔انسانیت کے خدمت گزاروں کو انکے
کام سے مت روکا جائے خصوصًا جب خود حکومت کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے۔