ہمارے حُدی خواں حالی، اقبال اور نسیم حجازی ہی
تو ہیں!
نتقیحات
نسیم حجازی مرحوم پر سوشل میڈیا کے بڑےبڑے اچھے اسلام پسند
لکھاریوں کے لگائے ہوئے نشتر دیکھ کر لکھی گئی ایک تحریر:
بھائی نسیم
حجازی نے اگر کوئی غلط بیانیاں کر دی ہیں تو ضرور ان کی نشان دہی ہونی چاہئے، اور
یہ بھی طے ہونا چاہئے کہ وہ کس درجہ کی ’غلط بیانیاں‘ ہیں؛ کیونکہ چھوٹاموٹا سھو
تو ہر کسی سے ہو جاتا ہے۔ مجھ سے، آپ سے، ہر کسی سے ہو جاتا ہو گا۔ بہرحال اگر
کوئی سنگین غلط بیانیاں ہوئی ہیں تو ہم ضرور انہیں جاننے میں دلچسپی رکھیں گے۔
اس وجہ سے کہ ہم وہ امت ہیں جسے ’’كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ
وَالْأَقْرَبِينَ‘‘ کا حکم دے
رکھا گیا ہے اور اللہ کا شکر ہے ہماری علمی روایت مقدور بھر اس خدائی حکم پر پورا
اترتی رہی ہے۔ اس امت نے کبھی باطل پر اصرار نہیں کیا، ان شاء اللہ آج بھی نہیں
کرے گی۔ جو چیز علم کی روشنی میں ہم پر واضح کر دی جائے گی ہم اسے ضرور تسلیم کریں
گے خواہ وہ ہمارے خلاف کیوں نہ پڑتی ہو، یہ بطورِ امت ہمارا طرۂ امتیاز ہے، الحمد
للہ۔
البتہ ہم
وہ امتِ عدل ہیں جو ایک غلطی کو بھی اُس غلطی تک ہی رکھتی ہے۔ یعنی اگر کچھ غلطیاں
کسی شخص کے کلام میں ثابت بھی ہو جائیں تو ہم اُن چند غلطیوں کو برطرف رکھتے ہوئے
اس کے باقی کلام سے، اگر وہ مفید ہو، بھرپور فائدہ لیتے ہیں۔ اور اس پر بدستور اس
کے شکرگزار رہتے ہیں (مَن لمۡ
یشکُر النَّاسَ لمۡ یشکُرِ اللہَ)۔ الا یہ کہ
کسی شخص کا کلام ہو ہی جھوٹ کا پلندہ۔ ہاں اس سے لوگوں کو خبردار بھی کیا جاتا ہے
اور ایسے شخص کو کذّاب بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ البتہ کسی کلام میں اِکادُکا غیر
محقَق باتوں کا آ جانا اس کو ڈس کریڈٹ نہیں کرتا، ورنہ قرآن کے علاوہ شاید ہی کوئی
کتاب ایسی ہو جس کی بابت ایک منفی رویہ پیدا کرا دینا ہم پر واجب نہ ہو جاتا ہو۔
پھر... لکل
مقامٍ مقال
میں ہرگز
یہ نہیں کہہ رہا کہ اگر کسی کو تاریخ پر ماسٹرس یا پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھنا ہو تو
وہ اس میں حالی و اقبال کی شاعری یا نسیم حجازی کی نثر کا اسلوب لائے! کیونکہ اُس
کا اپنا ایک محل ہے اور اِس کا اپنا۔ یہ تھیسس نگار ضرور مسلم
مؤرخین کے ساتھ ساتھ نصرانی یا یہودی یا ہندو مؤرخین وغیرہ کو بھی پڑھے، تقابل
کرے، وقائع میں جس قدر غوطہ زنی کر سکتا ہو کرے، اور اپنی تحقیق کے دیانتدارنہ
نتائج پیش کرے، خواہ وہ ہمارے حق میں پڑتے ہوں یا ہمارے خلاف۔ گو غلطی کا امکان
آپ کے ان ’دیانتدارانہ‘ نتائج میں بھی پائے جانے کا امکان ہے، خصوصاً اگر آپ کسی
یہودی یا نصرانی سپروائزر کے نیچے تحقیق کر رہے ہوں، یا حتیٰ کہ اگر کسی ’کالے
انگریز‘ سے زیادہ نمبر لینے کے چکر میں ہوں، یا ویسے ہی ایک ہزیمت خوردہ شخصیت
رکھتے ہوں جوکہ اِس وقت بہت ہیں؛ کہ ذہنوں پر دورِ مغلوبیت کے کچھ اپنے ہی پرنٹ
ہوتے ہیں اور وہ روزمرہ گرد کی طرح دماغوں پر جمتے چلے جاتے ہیں۔ ان کو کھرچنا
کوئی آسان کام نہیں۔ (’آج کے‘ پڑھےلکھے طبقے کے ہاں مقبول ہونے کی طلب اغلب طور پر
ایک احساسِ کمتری ہے)۔ پس بہت امکان یہ ہے کہ اپنے مؤرخین پر اگر ہمارے کسی ماڈرن
محقق نے آج کوئی استدراک فرمایا ہے تو وہ بھی من و عن لیا جانے کے قابل نہ ہو،
بلکہ ضروری ہو کہ راسخ العلم لوگوں پر اسے پیش کرنے کے بعد ہی عوامی کھپت public consumption کےلیے اسے نکالا جائے۔
کیونکہ دورِ غلامی میں عوام کو کنفیوز کرنے اور پیچھے سے چلے آتے ایک ڈسکورس سے
انہیں ہٹانے سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں ہے۔ اور ہمارا مسلم معاشرہ کسی ’ارتقائی‘
کھلواڑ کی جگہ نہیں ہے۔
لیکن چلیں،
اتنی ہماری کون سنے گا کہ وہ اپنی کسی ناقص تحقیق کے نتائج، راسخ العلم لوگوں کے
سامنے پیش کرنے سے پہلے عوام میں لا دھرنے سے احتراز کرے اور یوں مسلمانوں کو خراب
کرنے کے معاملہ میں اللہ سے ڈرے۔ ہم کہتے ہیں، کم از کم کوئی تحقیق پیش تو
ہو کہ نسیم حجازی نے ان ان مقامات پر تاریخ کو مسخ کیا ہے۔ جس کی روشنی
میں اب ہم لوگوں کو متنبہ کریں کہ بھئی دیکھو فلاں اور فلاں مقامات پر نسیم حجازی
سے غلطیاں ہوئی ہیں لہٰذا ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے نسیم حجازی کی چیزیں پڑھیں اور
ان سے استفادہ کریں۔ اصولاً اس میں ہرگز ہمیں کوئی مانع نہیں۔ مگر آپ ان غلطیوں کی
نشاندہی فرمائیں تو سہی!
الا یہ کہ
آپ کو اُس پورے ڈسکورس سے شکایت ہو جو تاریخ پڑھنےکے معاملہ میں نسیم حجازی کے ہاں
پایا جاتا ہے۔ جس میں نسیم حجازی بہرحال اکیلا نہیں۔ اقبال کا ’وہ
کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا‘ دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا
کہ عین اقبال کی دکھائی ہوئی وہ شعری تصویر ہی نسیم حجازی کے ہاں ایک نثری رنگ
اختیار کر گئی ہوئی ہے... جہاں تک ڈسکورس کا تعلق ہے۔
اور اقبال
کا یہ ڈسکورس تو، مسلم نونہالوں کو تاریخ پڑھانے کے معاملہ میں، آپ کو ابن کثیر
اور ذہبی کے ہاں بھی مل جائے گا۔ آپ خود بتائیں یہ ڈسکورس ایک مومن کے یہاں کیوں
نہ پایا جائے؟ وہ جنگیں جو بتوں کی پوجا کرنے والوں اور خدائے واحد کی عبادت کرنے
والوں کے مابین لڑی گئیں، اور جن کے نتیجے میں (فاتحین کے اخلاص و عدم اخلاص سے
قطع نظر) روئے زمین پر بت خانے مٹتے، دیویوں کی پوجا ختم ہوتی اور کفر کے اندھیرے
چھٹتے چلے گئے، اور شہروں کے شہر ’’اللہ اکبر‘‘ کی صداؤں سے گونجنے لگے، بستیوں
میں ہر چند ساعت بعد لوگ باوضو ہو کر صفیں بنا بنا خدائے واحد کو سجدے کرنے لگے
اور ان شہروں میں لوگوں کی صبحیں سورج چڑھنے سے نہیں بلکہ قرآن پڑھنے سے ہونے لگیں
اور مسائل حیات میں لوگوں کا مرجع نبی آخرالزمانﷺ کی ذات گرامی ٹھہری... وہ جنگیں (فاتحین کے
اخلاص و عدم اخلاص سے قطع نظر) جن کے اپنے مضمرات روئے زمین پر اس اعلیٰ نوعیت کے
رہے ان جنگوں کے احوال پڑھنے میں آدمی کا ’جانبدار‘ ہو جانا، ان کے واقعات کو
پڑھتے ہوئے آدمی کے دل کی دھڑکن تیز ہو جانا، خود بھی ذہن کی دنیا میں ان لشکروں کے
ساتھ جا کھڑا ہونا اور ایک ایک قدم ان کے ساتھ چلنا... یہ تو ہمارے ہاں ’’ایمان‘‘
جانا گیا ہے بھائی... جہاں تک ڈسکورس کا تعلق ہے!
اور اگر
کہیں پر اس امت کو پسپائی ہوئی... اور کہیں اندلس کے ایک ایک ٹیلے پر کھڑا کر کے
نسیم حجازی ہمیں رلاتا چلا گیا... تو اذانوں کی اس پسپائی اور مسجدوں کی اِس
ویرانی پر رونا اور رُلانا بھی ایمان ہی ہے... جہاں تک ڈسکورس کا تعلق ہے۔
اور جہاں
تک ’’محل‘‘ کا تعلق ہے تو اقبال اور حجازی ظاہر ہے کسی ایم فل کا تھیسس نہیں لکھ
رہے تھے۔ یہ اپنے نونہال کو وہ ’گردوں‘ دکھا رہے تھے جس سے ٹوٹ کر یہ تارا مستشرق
کے کسی جوہڑ میں جا گرا ہے۔
*****
بغور
دیکھئے تو اس وقت دشمن کا سب سے بڑا حملہ ہمارے دماغوں پر ہے۔ اور دماغوں پر حملے
کی سب سے بڑی صورت تشکیک ہے۔ مختلف طبقے مختلف سطحوں پر ہمارے ہاں تشکیک پیدا کر
رہے ہیں۔ کسی کی ’تشکیکی‘ سعی اس وقت نبوتِ محمدﷺ پر ہے۔ کسی کی خدا کے وجود پر۔ کسی کی قرآن پر۔
کسی کی سنت پر۔ کسی کی حدیث اور اصولِ حدیث پر۔ کسی کی صحابہؓ پر۔ کسی کی فقہ پر۔
کسی کی فقہاء پر۔ کسی کی عربی لغت پر۔ کسی کی اسلامی تاریخ اور اسلامی فتوحات اور
توسیعِ اسلام پر۔ کسی کی دورِ حاضر کے ہمارے ان علمی رجال اور ان تحریکوں پر جو
اسلام کا احیاء کرنے اور کسی نہ کسی میدان میں عالم اسلام سے باطل کو پسپا کرنے
کےلیے کھڑی ہوتی رہیں۔
’’تشکیک‘‘
سے بڑھ کر ان کے پاس اِس امتِ حق کو خراب کرنے کے حوالہ سے کچھ ہے بھی نہیں۔
کیونکہ باقی تو کسی چیز کےلیے ثبوت دینا پڑتے ہیں، جوکہ آسان کام نہیں۔ پس وہ
ہمارے نوجون کو صرف کونفیوز کر سکتے ہیں۔
پس
’’تشکیک‘‘ ہمارے خلاف برتا جانے والا اس وقت کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ملحد بھی یہی
ہتھیار اٹھا کر ہمارے نوجوان پر حملہ آور ہیں۔ اور بدقسمتی سے کچھ دیندار اصحاب
بھی، نادانستہ اسی کورَس میں اپنا سُر شامل کر رہے ہیں۔
بڑی محنت
فی الوقت اس پر ہو رہی ہے کہ کسی طریقے سے وہ ہمیں اپنا وہ پیراڈائم بیچ لیں جس کی
روشنی میں ہم اپنی ہر چیز ’نظرِ ثانی‘ کے قابل جاننے
لگیں۔
میرے
دیندار بارِیش بھائیو! ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں بسنے والی اشیاء کو تھوک میں مشکوک
مت ٹھہرائیے۔ ہاں کسی چیدہ چیدہ مقام پر کوئی علمی غلطی ہمارے کسی شاعر یا ہمارے
کسی نثرنگار سے ہوئی ہے تو سو بار اس کی نشاندہی کیجئے۔ ہم اسے قبول بھی کریں گے
اور اس صورت میں یہ بھی تسلیم کریں گے کہ آپ تصحیح کر رہے ہیں نہ کہ تشکیک۔
تصحیح کرنے لگے تو آپ کو پتہ چل جائے گا یہ کتنا
محنت طلب کام ہے۔ نیز خود پر استدراک کا ڈر ہو گا۔ اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ
’تقابلی‘ تحقیق کے اندر آپ کتنے پانی میں ہیں۔ البتہ تشکیک کےلیے صرف زبان یا قلم
چلنا چاہئے۔ بھائی کوئی ٹھوس معلومات تو دیں، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
(النساء: 135) ’’عدل وانصاف پر
مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی موﻻ
کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں
باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے‘‘۔