ولله الأسماء الحسنى
الحلیم
شيخ عبد العزيز بن ناصر الجليل
استفادہ:مریم عزیز
الحلیم: [تحمل وبرداشت والا، مسلسل معاف کردینے والا، نرمی برتنے والا]
قرآن کریم میں یہ اسم مبارک گیارہ مرتبہ مذکورہوا ہے۔
ایک صحیح حدیث کے مطابق، نبی اکرمﷺ مصیبت اور حاجت کے وقت یہ دعا مانگا کرتے تھے:
لا إله إلا الله العظيم الحليم ، لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لاإله إلا الله رب السموات ورب الأرض ورب العرش الكريم
[نہیں ہے کوئی لائق عبادت کےسوائے اللہ بڑا عظیم اور نرمی برتنے والا،نہیں ہے کوئی لائق بندگی کےماسوائے اللہ جو رب العرش العظیم ہے، نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ جو پروردگار ہے آسمانوں کا،زمین کا اور عرش کریم کا۔ ]
لغت کے اعتبار سے الحلیم کا مطلب ہے “ٹھہراؤ اور بردباری” جس میں صبر اور عقل دونوں آجاتے ہیں۔ یہبیہودگی، جہالت اور جلدبازی کی ضد ہے۔ اس کا تعلق “الحُلْمُ والحُلُمُ” سے بھی ہے جس کےمعنی خواب کے ہیں۔ خواب کیوں؟ کیونکہ خواب دماغ اور ذہن ہونے کا نتیجہ ہیں۔ دماغ نہیں تو خواب بھی نہیں۔ اسی طرح معافی اور درگزرذہین ہونے کی علامت ہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلَامُهُم بِهَذَا أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ (سورۃ الطور:۳۲)
کیا ان کی عقلیں[احلام] انہیں یہی سکھاتی ہیں؟ یا یہ لوگ ہی سرکش ہیں۔
اللہ تبارک و تعالی کی ذات کےحوالے سے،الحلیم کا مطلب سمجھاتے ہوئے الطباری کہتے ہیں، وہ جو کہ اپنے بندوں کے کفر و شرک پر سزا میں جلدی نہیں کرتا۔ نہایت صبر سےاپنےایسے بندوں پر فوری واجب سزا کو ٹالتا رہتا ہے۔
الخطّابی کہتے ہیں کہ الحِلیم کا لفظ ایسے شخص کے لئے استعمال نہیں ہوتا جومحض اس وجہ سے معافی دےدیتا ہے کہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بدلہ لینے سے قاصر ہے۔ بلکہ یہ اُس کے لئے استعمال ہوتا ہے جو سزا دینے پر مکمل قدرت ہونے کے باوجود معافی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
ابن القیّم اپنے قصیدہ نونیہمیں کہتے ہیں؛
وهو الحليم فلا يعاجل عبده بعقوبة ليتوب من عصيان
“وہ الحلیم ہے،کبھی بھی اپنے بندے کی سزا میں جلدی نہ کرنے والا، تاکہ اس کا بندہ اس مہلت میں توبہ کی طرف آجائے”۔
شیخ عبد الرحمن السعدی کہتے ہیں: ” الحلیم ہے وہ ذات باری تعالی جو اپنے خطاکار بندوں پر مسلسل اپنی نعمتیں جاری رکھتا ہے، وہ بندے جن کے گناہ کبیر و کثیر ہیں، بجائے انہیں فوری سزا دے ڈالنے کے۔”
مزید کہتے ہیں: “اُس کا حلم مطلق ہے اور آسمانوں اور زمین سے بڑھ کر۔” وہ گناہگاروں خطاکاروں کو انہی کے بد اعمال کے بُرے نتائج سے بچاتا رہتا ہے۔ بلکہ ان کوتوبہ کی مہلت عطا کرتا رہتا ہے۔ اور جب وہ ایمان ،نیک اعمال اور استغفار کےذریعے اُس کی طرف پلٹ آتے ہیں تو وہ اُن کو معافی بھی عطا کردیتا ہے۔ اُس کے صبروبرداشت کی عظمت اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ گناہوں کے ذریعے اپنی ہی جانوں پر ظلم کرنے والوں کو معاف کردیتا ہے۔
ابو موسی الاشعری کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
ما أحد أصبر على أذى يسمعه من الله تعالى، إنهم يجعلون له ندًا ويجعلون له ولدًا وهو مع ذلك يرزقهم ويعافيهم ويعطيهم
اذیت کی باتیں سننے پراللہ تعالی سے زیادہ کوئی بردبار نہیں۔ لوگ اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں، اس کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ ان کو پالتا ہے اور کھلاتا رہتا ہے، ان کا خیال رکھتا ہے اور ان پر اپنی نعمتیں جاری رکھتا ہے۔ (المسلم ۲۸۰۴)
اللہ عزّوجلّ فرماتا ہے:وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَآبَّةٍ وَلَكِن يُؤَخِّرُهُمْ إلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَإِذَا جَاء أَجَلُهُمْ لاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ (النحل: 61)
اگر لوگوں کے گناه پر اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا، لیکن وه تو انہیں ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے، جب انکا وه وقت آجاتا ہے تو وه ایک ساعت نہ پیچھے ره سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں
اس اسمِ مقدس کے کچھ فوائد:
اس مبارک نام کو جاننے سے ہماری اللہ سے محبت میں اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ اللہ نے ہمیں کتنی ہی بار معاف کیا ہے۔ ایسی کریم اور درگز کرنے والی رذات کے سامنےہمیں پھرمزید گناہ کرنے کا سوچتے ہوئے بھی شرمندگی ہوتی ہے۔ ہمیں اللہ کی معافی کی اُمید بندھ جاتی ہے۔ جب گناہ سرزد ہو بھی جائے تو یہ ہمیں مایوسی سے بچاتا ہے کہ ہمارا رب ہمیشہ معاف کرنے والا ہے۔ اور اس سے ہمیں اللہ کا خوف بھی ہوتا ہے کہ وہ جو بار بار توبہ کی مہلت دے اس کی پھر سزا بھی سخت ہوتی ہے۔
” پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دﻻیاتوہمنےانسےانتقاملیااورسبکوڈبودیا”۔ (سورۃ الزخرف)
اللہ تعالی کے اس اسم مقدس سے ہمیں اپنے دشمنوں کے ساتھ صبر اور استقامت کی تلقین ملتی ہے کہ سزا میں جلدی کرنا اللہ کا طریقہ نہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:
آپ کہہ دیجئے اگر میرے پاس وه چیز ہوتی جس کیلئے تم جلدبازی کر رہے ہو تو میرا اور تمہارا باہمی قصہ فیصل ہوچکا ہوتا اور ظالموںکواللہتعالیٰخوبجانتاہے(۶:۵۸)
“الحلیم” ہمیں خود بھی دوسروں کی خطاؤں سے درگزر اور برداشت کا سبق یاد دلاتا ہے کہ اللہ برداشت اور معاف کرنے والا ہے اور معاف اور درگزر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے حلم کی خصوصی تعریف فرمائی؛
” یقیناً ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اللہ کی جانب جھکنے والے تھے”(۱۱:۷۵)
اللہ تبارک و تعالی ابراہیم علیہ السلام پر اپنی خاص نعمت کا ذکر فرماتا ہے جب ان کو ایک حلیم بیٹا عنایت کیا؛ ” تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی “(۳۷:۱۰۱)
رسول اللہﷺ نے بھی اشجّ سے فرمایا:”تمہارے اندر دو ایسی خوبیاں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ،دونوں کو پسند ہیں؛تحمل اور بردباری”۔
مگر یہ نام ہمیں بہادر اور قابل تکریم بھی بناتا ہے۔ جیسا کہ ابن القیّم نے حلم کی تشریح میں بتایا کہ یہ وہ معافی نہیں جو ایک کمزور انسان مجبوری کی وجہ سے کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی بھی تعریف کی ہے جو خود پر کئے گئے ظلم پر اپنا دفاع کرتے ہیں:
وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ (الشوریٰ: 39)
“اور جب ان پر ظلم (وزیادتی) ہوتووهصرفبدلہلےلیتےہیں”
الحلیم کے ساتھ مذکور دوسرے اسمائے حسنیٰ اوران کی حکمت:
قرآن کریم میں الحلیم اکثر العلیم کے ساتھ ساتھ آیا ہے۔
“تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ (خوب) جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی علم اور حلم واﻻہے”۔ (۳۳:۵۱)
ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی معافی واقعی کتنی عظیم ہے کہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے اور ان کے دلوں کے رازوں سے مکمل واقف ہونے کے باوجود نرمی اور حلم کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ہاں اسکی پکڑ اس چیز پر ہے جو تمہارے دلوں کا فعل ہو، اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻاوربردبارہے(۲:۲۲۵)
ابنعاشور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہاں پر الغفورالرحیم کی بجائے الحلیم اس لئے بیان کیا ہے کیونکہ یہاں تذکرہ ان لوگوں کا ہورہا ہے جنہوں نے اللہ کا حق ادا نہیں کیا اور اللہ تعالی ان کو اپنے حلم کی یقین دہانی کراتا ہے کہ وہ ان سے درگزر کرتا رہے گا۔
الحلیم، الغنی کے ساتھ بھی آیا ہے:
“نرم بات کہنا اور معاف کردینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور بردبار ہے” (البقرۃ:۲۶۳)
ابن القیّم کہتے ہیں کہ یہی دو نام یہاں پر مناسب ہیں کیونکہ اول تو اللہ لوگوں کے صدقات کا محتاج نہیں چنانچہ ان کے صدقات کا فائدہ ان ہی کی طرف پلٹتا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص خیرات دے کر جتاتا ہو، گویا اس کے عمل نے اسکی اپنی ذات کے علاوہ کسی کو فائدہ پہنچایا ہے، اللہ پھر بھی اس سے معافی اور نرمی برتتا رہے گا۔ ثانیا، یہاں ایک اور حکمت یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کونصیحت کرتا ہے کہ وہ قادر مطلق ہے پھر بھی اپنی نعمتیں بے حساب دیتا ہے اور پھر حلم اور نرمی جاری وساری رکھتا ہے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ جب تم لوگ معمولی سا بھی خرچ کرتےہوتو ان لوگوں کو اپنے الفاظ سے اذیت دیتے ہو؟
الحلیم کا تذکرہ العظیم کے ساتھ قرآن میں بھی آیا ہے اور کرب و مصیبت کے وقت مانگی جانے والی مسنون دعا میں بھی۔ اور یہ دو ایسی صفات ہیں کہ ایمان والوں کو حاجت کے وقت تسلّی کا موجب ہوتی ہیں۔
الحلیم قرآن میں الشکور کے ساتھ بھی آیا ہے:
إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْوَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيم۔(۶۴:۱۷)
“اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے [یعنی اس کی راه میں خرچ کرو گے] تو وه اسے تمہارے لیے بڑھاتا جائے گا اور تمہارے گناه بھی معاف فرما دے گا۔ اللہ بڑا قدر دان بڑا بردبار ہے”
سیّد قطب رحمہ اللہ کہتے ہیں ؛”سبحان اللہ، کتناکریم ہےاللہ۔ اس ایک آیت میں اللہ کی اتنی جود و سخا بیان ہوتی ہیں:
اللہ اپنے بندوں کو بغیر ان کے حق کے دولت سے نوازتا ہے۔ پھر اللہ اپنے ہی بندوں سے قرض مانگتاہے۔ گویا وہ دولت اُس کی نہیں بلکہ اُس کے بندوں کی ہو جنہیں اُس نے خود نوازا تھا۔ پھراللہ یہ وعدہ کرتا ہے کہ جو بھی اُس کی راہ میں خرچ کرے گا،اللہ اُس کی دولت میں کئی گنا اضافہ فرمائے گا۔ اللہ یہ وعدہ بھی کرتا ہے جب وہ گناہ کربیٹھتے ہیں کہ وہ ان کو معاف بھی فرمادے گا اور ان کا پردہ بھی رکھے گا۔ پھر اللہ ان کو یاد دہانی کراتا ہے کہ وہ الشکور ہے،بڑا قدردان۔ سو اللہ اپنے ہی مومن بندے کا شکریہ ادا کرتا ہے جب وہ اُس کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ حالانکہ دولت بھی اُسی کی عطا تھی اور صدقہ کرنے پر مال میں برکت و اضافہ بطور انعام ویسے بھی مل ہی چکا تھا۔ پھر بھی مالک اپنے بندے کا مشکور ہو…!
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے حق ادا نہ ہوا
پھر اللہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ وہ الحلیم ہے، یعنی وہ جانتا ہے کہ وہ بار بار گناہ کربیٹھیں گے مگر وہ ان کو معاف کرتا رہے گا۔
اللہ ہمیں بھی یہ صفت عطا فرمائے آمین۔