بوقتِ نکاح
سیدہ عائشہؓ کی عمر اور غامدی صاحب کی "نکتہ سنجی"
تحریر: وقار اکبر چیمہ
ام المؤمنین عائشہ کی عمر بوقتِ نکاح یا بوقتِ رخصتی
کوئی دین کا بنیادی مسئلہ نہیں۔ مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ امت میں اہلِ سنت و حدیث
کی روش سے ہٹ کر چلنے اور ان کے ہاں ثابت و محقق مانے جانے والے اقوال کو محض ایک
اچٹتے ’آئیڈیا‘ کی بنیاد پر اڑا کر رکھ دینے کی ہوس یہاں ایک نوزائیدہ فکر میں کیسی
کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ (ادارتی نوٹ)
بیسویں
صدی کے آغاز میں پہلی مرتبہ بعض مستشرقین نے بوقتِ نکاح سیدہ عائشہ کی عمر کو بنیاد
بنا کر رسول اللهﷺ کی ذات اقدس پر طعن کرنا شروع کیا اور نتیجتاً بعض مسلمانوں نے
اس موضوع سے متعلق دلائل کے بارے میں نکتہ دانی کے جوھر دکھانا شروع کئے اور نفسِ
الزام کا رد کرنے کی بجائے مضمونِ الزام کا انکار کرنے کی ٹھانی اور یہ دونوں سلسلے
آج تک جاری ہیں۔
عمومی
طور پر چند دور از کار اور موہوم و ضعیف قسم کے مقدمات قائم کر کے یہ دعوی کیا گیا
ہے کہ بوقتِ نکاح سیدہ عائشہؓ کی عمر چھ یا سات برس نہیں بلکہ سولہ، سترہ یا اس سے
بھی زیادہ تھی۔ اس دعوی کا تفصیلی رد اہلِ علم شروع سے کرتے آئے ہیں جن میں خاص
طور پر سید سلیمان ندوی کا کام قابلِ ذکر ہے۔ غامدی صاحب کے شاگرد جناب عمار خان
ناصر نے بھی ایسے اکثر "مستدلات" کا ایک سنجیدہ محاکمہ پیش کیا جو ماہنامہ اشراق میں فروری ٢٠١٢ شائع ہوا۔
البتہ غامدی صاحب کی تشفی نہیں ہو پائی اور جناب
نے اس مسئلہ پر بھی اپنی الگ ڈگر قائم رکھی۔ موصوف نے اس حوالے سے معروف اور اہلِ
علم کے ہاں غیر متنازع موقف کا انکار کرتے ہوئے تجویزِ نکاح کی روایت کو بناء
استدلال بنایا ہے۔ اس حوالے سے ان کا مضمون ماہنامہ اشراق کے جون
٢٠١٢ کے شمارے میں شائع ہوا جسے عمار صاحب
نے بھی ماہنامہ الشریعہ کی جولائی ٢٠١٢ کی اشاعت میں بلا
تبصرہ شامل کیا۔ غامدی صاحب نے لکھا:
روایات
بالکل واضح ہیں کہ رسول اللهﷺ کے ساتھ سیدہ کے نکاح کی تجویز ایک صحابیہ حضرت خولہ
بنت حکیم نے پیش کی۔ انہی نے آپ کو توجہ دلائی کہ سیدہ خدیجہ کی رفاقت سے محرومی
کے بعد آپ کی ضرورت ہے کہ آپ شادی کر لیں، "يا رسول الله كأني أراك قد دخلتك خلة لفقد
خديجة ... أفلا أخطب عليك؟" آپ کے پوچھنے پر انھی نے آپ کو بتایا کہ آپ
چاہیں تو کنواری بھی ہے اور شوہر دیدہ بھی۔ آپ نے پوچھا کہ کنواری کون ہے تو انہی نے وضاحت کی کہ کنواری
سے ان کی مراد عائشہؓ بنت ابی بکر ہیں۔ بیوی کی ضرورت زن و شو کے تعلق کے لئے ہو
سکتی ہے، دوستی اور رفاقت کے لئے ہو سکتی ہے، بچوں کی نگہداشت اور گھر بار کے
معاملات کو دیکھنے کے لئے ہو سکتی ہے۔ یہ تجویز اگر بقائمی ہوش و حواس پیش کی گئی
تھی تو سوال یہ ہے کہ چھ سال کی ایک بچی ان میں سے کون سی ضرورت پوری کر سکتی تھی؟
کیا اس سے زن و شو کا تعلق قائم کیا جا سکتا تھا؟ کیا اس سے بیوی کی رفاقت میسر ہو
سکتی تھی؟ کیا وہ بچوں کی نگہداشت کر سکتی تھی؟ کیا گھر بار کے معاملات سنبھال
سکتی تھی؟ سیدہ کی عمر سے متعلق روایتوں کے بارے میں فیصلہ کے لئے یہ قرائن میں سے
ایک قرینہ نہیں، بلکہ بنیادی سوال ہے۔ کیا عقل باور کر سکتی ہے کہ جو ضرورت آج ہے،
اس کو پورا کرنے کے لئے ایک ایسی تجویز پیش کیا جائے جس کے نتیجہ میں وہ برسوں سے
بعد بھی پوری نہیں ہو سکتی؟ ابن
خلدون نے بالکل درست لکھا ہے کہ
تاریخی واقعات کی روایت میں اصلی اہمیت امکان ِ وقوع کی ہے۔ یہ محض اس بنیاد پر
قبول نہیں کئے جا سکتے کہ ان کی سند میں فلاں
اور فلاں ہے اور یہ متعدد طریقوں سے نقل کئے گئے ہیں۔
پھر مزید فرماتے ہیں:
اس وقت جو اہل علم اس موضوع پر داد
تحقیق دے رہے ہیں، انھیں سب سے پہلے اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ انھیں بتانا
چاہیے کہ روایت کا یہ داخلی تضاد کس طرح دور کیا جائے گا؟ اور اگر دور نہیں کیا جا
سکتا تو علم و عقل یہ تقاضا کیوں نہیں کرتے کہ چھ سال کی عمر میں نکاح کی روایت کو
محل نظر ٹھیرایا جائے اور ان اہل علم کی راۓ پر بھی غور کر لیا جاتے جو یہ کہتے کہ "بنت ست" کے بعد "بعد العشر" کا مفہوم سیدہ کی گفتگو میں مقدر تھا، جسے راویوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی؟ اس سوال سے تعرض کئے بغیر جو تحقیق بھی پیش کی جائے گی، وہ کسی صاحب نظر کے لئے ہر گز لائق التفات نہیں ہو سکتی۔
موصوف کا استدلال
تجویز کی روایت اور سیدہ عائشہؓ کی عمر کے حوالے معروف روایات کے
مابین مزعومہ تضاد سے ہے۔
اس کی حقیقت جاننے کے لئے ہمیں چند
اور اہم تفصیلات کو سمجھنا ضروری ہے۔ سیدہ خولہؓ بنت حکیم نے جن
شوہر دیدہ خاتون کا ذکر کیا وہ سیدہ سودہؓ
ہیں۔ اصحابِ حدیث و سیرت کا اختلاف ہے کہ دونوں میں سے کس کے ساتھ پہلے عقد
نکاح ہوا لیکن اس بارے میں مکمل اتفاق ہے
کہ دونوں سے نکاح رسول اللهﷺ نے ہجرت سے
قبل کر لیا جبکہ رخصتی سیدہ سودہؓ کی ہجرت
سے قبل اور سیدہ عائشہؓ کی ہجرت کے بعد ہوئی۔
اس سے معلوم ہوا کہ ان دو امہات المومنین سے نکاح کا مقصد مختلف تھا۔ سیدہ عائشہؓ کی رخصتی
میں تاخیر کی وجہ ان کی کم عمری کے
سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور ان کی عمر
کتنی کم تھی اس کا اندازہ خود ان کی اپنی روایات، جن کے راویوں کو غامدی صاحب غلطی
کا مرتکب یا کم فہم قرار دینا چاہتے ہیں، کے علاوہ دیگر
دلائل سے بھی ہوتا ہے۔
اپنی رخصتی سے متعلق سیدہ عائشہؓ
فرماتی ہیں کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولے میں بیٹھی تھیں کہ ان کی والدہ نے ان
کو بلایا، تیار کیا اور رسول اللهﷺ کے
ساتھ روانہ کر دیا۔ اس روایت سے بھی بوقتِ رخصتی نو برس کا ہونا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا
ہے نہ کہ انیس برس کا۔
اسی طرح ایک حدیث میں سیدہ عائشہؓ سے منقول ہے، "میں
نبیﷺ کی موجودگی میں گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی اور میری سہیلیاں میرے ساتھ
کھیلتی تھیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتیں آپ ان کو بلا
کر میرے پاس لے آتے میں پھر ان کے ساتھ کھیلنے لگتی۔"
سنن ابو داود کی ایک روایت میں ذکر ہے
غزوہ خیبر سے واپسی پر بھی رسول اللهﷺ نے
سیدہ عائشہؓ کے پاس گڑیاں دیکھیں۔
غزوہ خیبر ٥ ہجری میں پیش آیا۔ ١٤ سال کی
عمر میں تو گڑیا رکھنا سمجھ آتا ہے، ٢٤ سال کی عمر میں ہرگز نہیں۔
اسی طرح واقعہ
افک کی تفصیل بتاتے ہوے سیدہ عائشہؓ خود
فرماتی ہیں؛ "جن لوگوں کے سپرد مجھے
ہو دے پر سوار کرنے کا کام تھا انہوں نے ہودے کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اور
سمجھے کہ شاید میں اپنے ہودے میں بیٹھی ہوں اس زمانہ میں عورتیں ہلکی ہوتی تھیں
کیونکہ غذا سادہ کھائی جاتی تھی اس لئے ہودہ اٹھانے والوں کو کچھ پتہ نہیں چلا ۔ مزید
یہ کہ میں کمسن بھی تھی۔ پس وہ اونٹ لے کر چل دیئے۔" اسی واقعہ
کے ضمن میں سیدہ عائشہؓ سے متعلق خادمہ بریرہؓ
کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں؛ "وہ ایک کمسن لڑکی ہے جو آٹا
گوندھ کر سو جاتی ہے۔" واقعہ
افک کی تقویم سے متعلق مؤخر ترین قول ٦
ہجری کا ہے۔ معروف روایات کے مطابق اس وقت سیدہ کی عمر ١٤ یا ١٥
برس بنتی ہے اور مذکورہ بالا روایات ١٤،
١٥ سال کی عمر کے حوالے سے تو مناسب معلوم ہوتی ہیں ٢٤، ٢٥ سال کے لئے نہیں۔
اسی
طرح حبشیوں کے کھیل دیکھنے کے حوالے سے روایت کے آخر میں بھی سیدہؓ نے اپنے
لئے "الجارية
الحديثة السن" یعنی "کمسن لڑکی" کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ صحیح ابن حبان
کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ
واقعہ اہل حبشہ کے وفد کی آمد کے موقع پر پیش آیا،
اور اسی روایت کے حوالے سے حافظ ابن
حجر نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ سنہ ٧
ہجری کا ہے اور اس وقت سیدہ عائشہؓ کی عمر وہی ١٥، ١٦ برس کے قریب بنتی ہے۔
یہاں بھی ظاہر ہے کہ "جاریہ" کا لفظ
درست نہ ہوتا اگر سیدہ کی عمر ١٥ کی بجائے ٢٥ برس ہوتی ۔
اسی طرح سیدہ اسماءؓ بنت ابی بکر و سیدہ فاطمہؓ سے سیدہ عائشہؓ کے عمر کے فرق کی
صحیح تحقیق بھی معروف روایات کی مؤید ہے۔
اس حوالے سے دیکھئے، فهد بن محمد بن محمد الغفيلي
کی تصنیف السنا الوهاج في سن عائشة عند الزواج (ص ٢١٢-٢١٣ اور
٢٣٠-٢٣٢) اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب "ہمارے
عائلی مسائل " (ص، ١٧٦-١٧٨)
یہ تمام روایات بھی
بوقتِ نکاح سیدہ عائشہؓ کی عمر چھ برس
ہونے کے قول کی صحت پر شاہد ہیں۔ اگر چھ
سال کی عمر والی روایات میں راویوں کا کوئی وہم ہوتا تو اس قول کی تائید ان متعدد
احادیث سے نہ ہو رہی ہوتی۔ ان روایات کے معلوم ہوتے ہوئے نکاح کے وقت چھ اور رخصتی
کے وقت نو سال کی عمر والی روایات کرنے والوں کو کسی قسم کے وہم یا سوء فہم کا
شکار قرار دینا 'نکتہ سنجی' نہیں محض تحکم
ہے۔ سیدہ کی عمر کے مسئلہ کی وضاحت کرنے
کے علاوہ یہ روایات اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللهﷺ عائشہؓ کی صغر سنی کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ تھے
اور ان کا پورا خیال رکھتے تھے چناچہ رسول اللهﷺ کے نکاح کرنے کو ہی سیدہ کی عمر
کے حوالے سے ان کی اپنی روایات کے خلاف دلیل، قرینہ یا تشکیک کی
بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ اور امکانِ
وقوع کی بحث اگر اتنی ہی نا گزیر ہو تو
یہ بحث حضرت خولہؓ کے روایت شدہ اندازِ تجویز کے بارے میں ہونی چاہیے۔
مقصودِ
بیان یہ ہے کہ ظاہری تعارض اگر زیادہ ہی
کھٹکے تو توجیہ و تاویل کا مضمون سیدہ خولہؓ کی تجویز سے متعلق روایت ہونی چاہیے
نہ کہ سیدہ عائشہؓ کی عمر سے متعلق متعدد
جلیل القدر تابعین کی اسناد سے منقول سیدہ عائشہؓ کا اپنا بیان جس
کی تائید دیگر کئی شواہد سے بھی ہو رہی ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ
تجویزِ نکاح سے متعلق روایت بھی سیدہ عائشہؓ سے ہی منقول ہے جس میں اس تجویز کے
علاوہ آنحضورﷺ کے نکاح کے حوالے سے حضرت خولہؓ کی سیدہ عائشہؓ
اور سیدہ سودہؓ کے اہل خانہ سے گفتگو، دونوں سے نکاح کا ذکر ،
مدینہ کی طرف ہجرت، سیدہ کی رخصتی
اور مدینہ میں ابتدائی سکونت کی
تفصیلات سب شامل ہیں۔ اوّل تو جب ایک ہی روایت میں اتنے امور کا احاطہ ہو تو اس میں اجمال کا ہونا لازم ہے۔ اور پھر یہ بھی
ظاہر ہے کہ سیدہؓ خود تجویز کے واقعہ کی
عینی شاہد تو نہ تھیں، تجویز کی بات انہوں
نے سیدہ خولہؓ یا خود آنحضورﷺ سے سنی ہو
گی اور برسوں بعد جب انہوں نے یہ سب ابو
سلمہؒ بن عبد الرحمن بن عوف اور یحییؒ بن عبدالرحمن بن حاطب سے بیان کیا تو
عادتاً ممکن(یا کم از کم ضروری)
نہیں تھا کہ وہ تمام باریکیوں اور تفصیلات سےواقف
ہوتیں بھی تو ان کو بیان کرتیں۔
واضح رہے
کہ غامدی صاحب سے قبل کسی نے بھی اس روایت کو بوقتِ نکاح سیدہ عائشہؓ کی
عمر کے معاملے سے نہیں جوڑا۔ غامدی صاحب
کا طرزِ
استدلال مچھر کو چھاننے اور اونٹ کو نگل جانے کے مترادف ہے۔ نہ تو تجویز پیش کرنے
والے کے ہوش و حواس پر شک کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی بوقتِ نکاح عمر سے متعلق
سیدہؓ کے اپنے بیان اور اس کی مؤید روایات نقل کرنے والے متعدد راویوں کو بیک
وقت وہم یا سوء فہم کا شکار قرار دینے کا
کوئی جواز۔
اور
پھر "بعد العشر " کے مفہوم کی
طرف موہوم اشارہ تک کسی ضعیف روایت میں بھی نہیں ملتا بلکہ بعض روایات میں ساتھ
ہی رسول اللهﷺ کی وفات کے وقت سیدہ کی عمر کا ذکر کر کے
اس وہم کی بھی جڑ کاٹ دی گئی ہے:
عن عائشة، قالت: تزوجها رسول الله صلى الله عليه
وسلم وهي بنت ست، وبنى بها وهي بنت تسع، ومات عنها وهي بنت ثمان عشرة
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللهﷺ نے ان سے نکاح کیا
تو ان کی عمر چھ برس تھی، جب ان کی رخصتی
ہوئی تو ان کی عمر نو برس تھی اور جب رسول اللهﷺ کی وفات ہوئی تو ان کی عمر اٹھارہ برس تھی۔
مذکورہ بالا دلائل کی بنیاد پر ہم جاوید احمد غامدی صاحب کو
دعوت دیتے ہیں کہ اس حوالے سے اپنے
مؤقف پر نظر ثانی فرمائیں۔ فقہاء و محدثین
مستحق ہیں کہ ان کے دلائل کا سنجیدگی سے جائزہ
لیا جائے خصوصاً جب اس بارے میں ان حضرات کا مکمل اتفاق بھی ہے۔