فصل10
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
سنتِ
جاہلیت کیا ہے؟
عَنِ
ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلاَثَةٌ: مُلْحِدٌ
فِي الحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلاَمِ
سُنَّةَ الجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ
دَمَهُ".
(صحيح
البخاري. كتاب الديات، باب من طلب دم امرئٍ بغير حق. رقم 6882)
حضرت عبد اللہ بن عباس
سے روایت ہے
، کہ فرمایا رسول
اللہﷺ نے:
تین آدمی اللہ کو سب سے زیادہ برے لگتے ہیں:
1)
حرم میں بےدینی
کرنے والا،
2)
اسلام میں جاہلیت کی سنت کا چلن چاہنے والا
،
3)
اور جو کسی شخص
کا ناحق خون کروانے کے درپے ہے۔
اسلام میں جاہلیت کی کسی رِیت (سنتِ
جاہلیت) کو جاری کروانے یا اس کی چاہت رکھنے والا خدا کے ہاں تین بدترین آدمیوں
میں سے ایک ہے۔
سنتِ جاہلیت کیا ہے؟
وہ سب روایات جو اہل جاہلیت کے یہاں
چلتی آئی ہیں۔ سنت ایک ایسے معمول کو کہیں گے جو کسی قوم کے ہاں لگاتار دہرایا جاتا
ہو، یا وہ راستہ جو ان کے ہاں تسلسل کے ساتھ چلا جاتا ہو؛ خواہ وہ اس کو عبادت
گنتے ہوں یا غیرعبادت۔ چنانچہ فرمایا:
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ
(آل عمران:
۱۳۷)
’’تم سے پہلے کچھ طریقے برتاؤ
میں آچکے ہیں‘‘ اور نبیﷺ نے فرمایا:
لَتَتْبَعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ
’’تم اپنوں سے
پہلوں کے طور طریقے اپناکر رہوگے‘‘۔
اِس حدیث میں لفظ آئے ہیں:
لَتَتْبَعُنَّ
’’اتباع‘‘ دو معنوں کے اجتماع سے بنتا
ہے: ایک
اقْتِفَاء
یعنی ’’کسی کے پیچھے
آنا‘‘ اور دوسرا
اسْتِنَان
یعنی ’’اس کو طریقے اور دستور کے طور پر لینا‘‘۔
بنابریں جو شخص کفار کے معروف طریقوں
میں سے کسی طریقے پر عمل پیرا ہوگا وہ ایک جاہلی سنت کی اتباع کرے گا۔ اب نبی ﷺ کا
برسبیلِ مذمت یہ فرمانا کہ :
لَتَتْبَعُنَّ
سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ
ایک جامع نص ہے
جوکہ جاہلیت کی سنتوں میں آنے والی جملہ اشیاء کی اتباع کو مذموم اور ممنوع
ٹھہرانے کا فائدہ دیتی ہے۔ خواہ یہ اُن کے تہوار ہوں یا کچھ اور۔
(کتاب کا صفحہ
266، 267)
نبی ﷺ کا فرمان:
ألا کُلُّ شَیْءٍ مِنْ
أمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ
(صحيح مسلم. رقم 1218)
خبردار! جاہلیت کے دستور کی ہر شےء منسوخ ہو کر میرے
قدموں کے نیچے!
اس میں وہ سب کچھ آتا ہے جس پر اہل
جاہلیت چلتے آئے تھے، خواہ وہ رواج ہوں یا عبادات۔ مثلاً اُن کے نعرے کہ فلاں کی
جے اور فلاں کی جے۔ نیز اُن کے تہوار۔ اور اسی طرح کے دیگر امور جو ان کی پہچان
ہوں۔
اِس میں وہ اشیاء نہیں آئیں گی جن پر
اہل جاہلیت رہے تو ہیں البتہ اسلام نے ان کو برقرار رکھا۔ مثل: حج کے بہت سے
مناسک، مقتول کی دیت سو اونٹ، قسم ڈالنا، وغیرہ۔ کیونکہ لفظ جاہلیت کا جو مفہومِ
عام استعمال ہے وہ اُن اشیاء کے لیے ہے جن پر اہل جاہلیت تھے اور اسلام نے ان کو
برقرار نہیں رکھا۔ہاں اگر کوئی چیز جاہلیت میں تھی تو وہ اسی ممنوعہ زمرے میں ہی
رہے گی اگرچہ اسلام نے خاص معین کر کے اس چیز کو نہ بھی روکا ہو۔
(کتاب کا صفحہ
305، 306)