فصل12
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
کفار
کے اعمال کی بابت ایک جامع بیان
جان لو کہ کفار کے اعمال تین اقسام
بنتے ہیں:
1)
وہ اعمال جو
ہمارے دین میں مشروع ہیں، جبکہ وہ ان کی شریعت میں بھی مشروع تھے، یا یہ معلوم نہ
ہو کہ یہ اعمال اُن کی شریعت میں تھے البتہ اِس وقت وہ کرتے ہیں۔
2)
وہ اعمال جو کبھی
مشروع تھے مگر قرآن کی شریعت نے ان کو منسوخ کردیا۔
3)
وہ اعمال جو کبھی
مشروع نہ تھے، بلکہ انہوں نے گھڑ لیے ہیں۔
اعمال کی یہ تینوں اقسام یا تو عباداتِ
محضہ میں آئیں گی۔ یا عاداتِ محضہ میں یعنی آداب وغیرہ۔ یا وہ ایسے اعمال ہوں گے
جن میں عبادت اور عادت ہردو معنیٰ جمع ہوں گے۔ 3ضرب3: یہ کل 9 اقسام بنیں:
اعمال کی پہلی قسم: وہ اعمال جو
ہماری شریعت میں ہیں اور ان کی بھی شریعت میں ہیں یا وہ یہ اعمال کرتے ہیں۔
مثلاً صومِ عاشوراء، بلکہ جنسِ نماز و روزہ
وغیرہ۔
یہاں اگر جنس میں اشتراک ہے تو صفت اور
ہیئت میں مخالفت کروا دی گئی۔ مثلاً
ö
عاشوراء کے ساتھ
تاسوعاء کا روزہ سنت ٹھہرا دیا گیا۔
ö
افطار اور نمازِ
مغرب میں عجلت کا حکم دے دیا گیا تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو جائے۔
ö
سحری تاخیر سے کرنے کی ہدایت فرما دی
گئی تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو۔
ö
جوتوں سمیت نماز
پڑھ لینے کو مشروع ٹھہرایا تاکہ یہود کی مخالفت ہو۔
عبادات
میں جابجا اس کے شواہد ملیں گے۔
عادات
میں مثال کے طور پر:
ö
میت کو دفن کرنا
شرائع کے مابین مشترک ہے مگر یہاں ہیئت میں فرق کروا دیا گیا۔ فرمایا:
اللَّحْدُ لَنَا وَالشِّقُّ لِغَیْرِنَا
’’لحد ہمارے لیے
اور شق دوسروں کے لیے‘‘۔ اس میں عبادت کا بھی ایک معنیٰ ہے۔
ö
جوتوں سمیت نماز
عبادات میں آتی ہے تو لباس کے باب سے اس کا تعلق عادات سے بھی بنتا ہے جبکہ موسیٰ
ؑ کی شریعت میں نماز کے وقت جوتا اتارنا ہوتا تھا۔
ö
اسی طرح حالتِ
حیض کے احکام میں ایک مشابہت ہے تو اس کی ہیئت میں کچھ فرق کروا دیا گیا جس پر
یہود نے تعجب بھی کیا۔
غرض کسی چیز میں اگر اصل دو شریعتوں
میں مشترک ہے بھی تو وصف کے اندر فرق کر دیا گیا۔
دوسری قسم: وہ اعمال جو اُن کی
شریعت میں تھے مگر ہمارے ہاں منسوخ ہیں:
مثلاً سبت کی تعظیم۔ یا کسی نماز یا
روزہ وغیرہ کو اپنے اوپر فرض ٹھہرا لینا۔ یہاں؛ ان کی موافقت سے کھلی ممانعت ہے۔
چاہے وہ چیز ان پر واجب تھی؛ اور اِس لحاظ سے وہ ان کی عبادات میں آئے گی۔ اور
چاہے وہ ان پر حرام تھی؛ اور اِس لحاظ سے وہ ان کی عادات میں آئے گی۔ اب مثلاً
جہاں تک عادات کی بات ہے تو آج کسی مسلمان کے لیے یہ روا نہ ہوگا کہ وہ از راہِ
نیکی و دینداری چربیوں یا ناخن والے جانور کے گوشت سے پرہیز کرے۔ یا پھر جس چیز
میں عبادت اور عادت ہردو معنیٰ مجتمع ہو مثلاً اُن کی وہ عیدیں جو اُن کے لیے
مشروع تھیں؛ کیونکہ عید جو مشروع ہوتی ہے اُس میں عبادت کا بھی ایک معنیٰ آتا ہے
یعنی نماز یا ذکر یا صدقہ یا قربانی وغیرہ جو اس موقع پر کی جائے گی، جبکہ اسی میں
عادت کا بھی ایک معنیٰ آتا ہے اور وہ ہے اس دن اچھے اچھے کپڑے پہننا، اعلیٰ پکوان
کھانا، جشن میلہ کرنا، روزمرہ کے بہت سے اعمال چھوڑ لینا، اور کچھ ایسے طبقوں کا
جو اس میں دلچسپی رکھتے ہوں کھیل اور گانا وغیرہ کر لینا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے
کہ ابوبکر ؓنے جب نبی ﷺ کے گھر میں ان دو لڑکیوں کو ڈانٹنا شروع کیا جو عید کے دن
گارہی تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر اِن کو رہنے دو؛ کیونکہ ہر قوم کی عید ہوتی
ہے اور آج ہماری عید ہے۔ نیز حبش کے لوگوں نے عید کے روز نیزوں کا ایک کھیل پیش
کیا تھا، جسے نبی ا بھی دیکھ رہے تھے۔ غرض عیدیں جو مشروع ہوں ان میں یا تو ازراہِ
وجوب یا ازراہِ استحباب ایسی عبادات مشروع ٹھہرائی جاتی ہیں جو دیگر ایام میں نہیں
ٹھہرائی جاتیں۔ اسی طرح عیدوں پر ازراہِ جواز یا ازراہِ استحباب یا ازراہِ وجوب
ایسی عادات مشروع ٹھہرائی جاتی ہیں جن میں نفوس کو لطف اور مزہ آتا ہو، اور یہ
عادات اِن عیدوں کے علاوہ ایام میں نہیں ٹھہرائی جاتیں۔ مثلاً عیدین میں افطار کو
واجب رکھا۔ دونوں عیدوں پر نماز کو مشروع ٹھہرایا۔ نمازِ عید کے ساتھ ایک تہوار پر
صدقہ (فطر) کو مشروع ٹھہرایا۔ نمازِ عید کے ساتھ دوسرے تہوار پر قربانی کو مشروع
ٹھہرا دیا۔ اب فطرانے کا صدقہ بھی اور قربانی کا ذبیحہ بھی دونوں معاشرے کے اندر
کھانے پینے کو وافر بناتے ہیں جس سے لوگ خوب مزہ کرتے ہیں۔
یہ جو قسم ہے، یعنی وہ اشیاء جو ان کی
شریعت میں تھیں مگر ہماری شریعت میں منسوخ ہوگئیں، یہاں ان کی موافقت کرنا خواہ وہ
عبادات میں ہو یا عادات میں یا ان اشیاء میں جو عبادت و عادت ہردو معنیٰ رکھتی
ہوں، یہ پہلی قسم والے اعمال میں اُن کی مشابہت سے کہیں قبیح تر ہے۔ کیونکہ وہاں؛
چیز کی اصل مشروع تھی صرف ہیئت تبدیل ہوئی تھی؛ مگر یہاں اصل ہی منسوخ ہے لہٰذا
یہاں مشابہت حرام ہے۔ جبکہ اول الذکر میں ہو سکتا مشابہت صرف مکروہ ہو یا اس سے
بھی کم۔
تیسری قسم: وہ اعمال جو ان کے
من گھڑت ہیں اور کبھی بھی مشروع نہ تھے:
خواہ یہ عبادات ہوں، یا عادات، یا وہ
چیز جو ہردو معنیٰ کو شامل ہے۔ یہ تو بدتر سے بدترین ہے۔ یعنی یہ وہ چیز ہے جو
کافروں کی خالص اختراع ہے اور کسی نبی اور کسی شریعت سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں
ہے۔
(کتاب کا صفحہ
422 تا 424)