فص6
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
باطل ملتوں کی موافقت اور مخالفت
کچھ اصولی باتیں
مغضوب
علیہم اور ضالین ملتوں کی موافقت یا مخالفت سے متعلق کوئی ایک مسئلہ چاہے جزوی
ہو، پھر بھی اس پر بات کرنے کےلیے... آپ کو کچھ عمومی قواعد سے گزرنا ہوتا ہے۔
اُن اصولی قواعد کی ذیل میں لائے بغیر وہ ایک جزوی مسئلہ سمجھنا سمجھانا آپ کےلیے
ممکن ہی نہیں ہوتا۔
یہ
وجہ ہے ہم نے ابتداء میں کتاب، سنت اور اجماع سے اِس بات کے دلائل ذکر کر دیے کہ
ہمارے دین میں کفار کی مخالفت کی جانب ایک اصولی
و اجمالی راہنمائی ہوئی ہے اور اُن سے مشابہت
(ان جیسا نظر آنے) سے ایک اصولی واجمالی ممانعت۔ البتہ ہے یہ ایک اجمالی حکم؛
آگے اِس مخالفت و عدم مشابہت کی بعض صورتیں عام ہوں گی تو بعض صورتیں خاص۔ بعض
چیزیں واجب ہوں گی تو بعض چیزیں صرف مستحسن۔
اب
یہاں ایک نکتہ ہے جس کی میں نے اس کتاب میں خصوصی نشاندہی کی ہے۔ اس کو خوب ذہن
نشین کرلیجئے:
شریعت
کا کسی قوم (
أنعمتَ عليهم
) کی موافقت کروانا یا کسی قوم (
مغضوب عليهم
اور
ضالين
)
کی مخالفت کروانا کسی وقت محض اس لیے ہوگا کہ
ö
ایک قوم کی موافقت
بجائے خود مصلحت تھی،
ö
اور ایک قوم کی مخالفت
بجائے خود مصلحت۔
یعنی
ایک فعل جس میں ایک قوم کی موافقت یا ایک قوم کی مخالفت ہوئی اُس سے اگر یہ موافقت
یا مخالفت والا عنصر نکال دیا جائے تو خود اس فعل میں مصلحت یا مفسدت والی کوئی
بھی بات نہ رہ جائے۔ لہٰذا ایک قوم کی موافقت کرنا آپ اپنی ذات میں مصلحت تھا اور
ایک قوم کی موافقت کرنا آپ اپنی ذات میں مفسدت۔
یہی
وجہ ہے کہ ہمارا نبیﷺ اور سابقین کی اُن اعمال میں متابعت کرنا بجائے خود سودمند
ہے جن کو ان برگزیدہ نفوس نے اگر نہ کیا ہوتا تو اِن اعمال کی اپنی کوئی خوبی نہ
ہوتی۔ اِس لیے کہ
ö
ان اعمال میں نبیﷺ اور سابقین کی متابعت بجائے
خود وہ چیز ہے جو ہم میں اُن پاک روحوں کے ساتھ ایک لگاؤ اور وابستگی پیدا کراتی
ہے،
ö
نیز دل کو دل سے راہ ہونے کا ایک معنیٰ دیتی ہے،
ö
نیز ہمارا یہی رویہ کچھ دیگر امور میں ان نیک
ہستیوں سے موافقت اختیار کروانے کا محرک بنتا ہے۔ غرض اسی طرح کے کچھ دیگر فوائد۔
عین
اسی طرح.. کافروں کی اُن اعمال میں ہمارا متابعت کر لینا بجائے خود نقصان دہ ہے جن
کو یہ کافر اگر نہ کر رہے ہوتے تو ان اعمال کے اپنے اندر کوئی برائی نہ تھی۔
پس موافقت اور مخالفت کا ایک باب تو یہ ہے جو
اوپر بیان ہوا
۔
پھر
کسی وقت مخالفت اور موافقت کا حکم اُن افعال میں ہوگا جن کے اپنے ہی اندر مصلحت یا
مفسدت کا کوئی پہلو ہے۔
یعنی
ایک فعل آپ اپنی ذات میں ہی برا یا اچھا ہے چاہے ایک قوم نے اس کو نہ بھی کیا ہو۔
یہ وہ باب ہے جہاں موافقت یا مخالفت کا ذکر ازراہِ دلالت و نشان دہی آتا
ہے۔ یہاں شریعت کا موافقت سے منع کرنا مفسدت کی جانب محض ایک اشارہ اور دلیل کی
حیثیت رکھے گا اور مخالفت کا حکم دینا مصلحت کی جانب اشارہ و دلیل ۔ چنانچہ اس باب
میں موافقت اور مخالفت کا اعتبار ’’قیاسِ دلالت‘‘ میں آئے گا جبکہ اوپر والے باب
میں اس کو ’’قیاسِ علت‘‘ کہیں گے۔ یہ دونوں مجتمع بھی ہوسکتے ہیں؛ یعنی اُس فعل کی
جس میں موافقت یا مخالفت ہورہی ہے اپنی ایک حکمت ہو اور وہ قوم جس کی موافقت یا
مخالفت ہورہی ہے اُس کا اپنا ایک شرعی اعتبار ہو۔ اور یہی بات اُن امور پر غالب ہے
جو شریعت میں موافقت یا مخالفت کے باب سے وارد ہوئے ہیں۔
اِس
نکتے کو پا لینا نہایت اہم ہے۔ اِس کے بغیر ہمارے پروردگار کا ہمیں کفار کی اتباع
اور موافقت سے منع فرمانا اپنے مطلق اور مقید ہردو معنیٰ میں سمجھ نہیں آسکتا۔
(ص
82۔84
)
آئندہ
فصول میں اب ہم ان مسائل کی شرعی بنیادیں کتاب اور سنت سے واضح کریں گے۔ اِس سلسلہ
میں ایک اصولی قاعدہ البتہ ہم یہیں ذکر کرتے چلیں:
کتاب اللہ کی دلالت: عموم اور اجمال،
جبکہ سنت: اس کا بیان اور تفسیر
خوب
سمجھ لو:
اعمال
پر کتاب اللہ کی دلالت جو ان کی جزئیات تک کو واضح کرے، صرف اجمال اور عموم کے
اسلوب میں آئے گی، یا استلزام کے اسلوب میں (یعنی ایک بات بیان ہوئی تو اس سے بہت
سی چیزیں خودبخود لازم آگئیں)۔
البتہ سنت آئے گی تو وہ کتاب (کے اُس اجمال یا عموم)کی
تفسیر و بیان ہوگی۔ یعنی سنت،
کتاب
کے اجمال کو کھولتی جائے گی اور اپنی تفصیلات کی صورت میں کتاب میں مذکور قواعد
اور جواہر پر دلالت کرتی جائے گی۔ یوں سنت کتاب کی عملی تعبیر بنتی چلی جائے گی۔
بنابریں،
ہم کتاب اللہ سے وہ آیات ذکر کریں گے جو اِس قاعدے (
مخالفة أصحاب الجحيم
) کی اساس پر دلالت کر دے،
اپنے ایک مجمل انداز میں۔ اِس کے بعد ہم اُن احادیث
کی طرف جائیں گے جو اِن آیات میں مذکور حقائق کی
عملی تفسیر بنتی ہیں۔
(کتاب کا صفحہ 84
)