فصل7
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
اہل کتاب ومشرکین کی متابعت سے انتباہ پر
کتاب اللہ کی دلالت
۱
۔ سورۃ جاثیہ کی آیات:
وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ الْکِتَابَ
وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنَاھم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھمْ
عَلَی الْعَالَمِیْنَ وَآتَیْنَاھم بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوا
إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاء ھمْ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْنَھُمْ إِنَّ رَبَّك
یَقْضِیْ بَیْنَھمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوا فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ
ثُمَّ جَعَلْنَاك عَلَی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ
أَھوَاء الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّہُمْ لَن یُغْنُوا عَنك مِنَ اللَّہِ
شَیْئاً وإِنَّ الظَّالِمِیْنَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَاللَّہُ وَلِیُّ
الْمُتَّقِیْنَ
.
(الجاثیۃ
۱۶
۔
۱۹)
اِس
سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی۔اُن کو ہم نے عمدہ
سامانِ زیست سے نوازا اور، دنیا بھر کے لوگوں پر اُنہیں فضیلت عطا کی اور دین کے
معاملہ میں اُنہیں واضح ہدایات دے دیں پھر جو اختلاف اُن کے مابین رونما ہوا وہ
(ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آجانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس
میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، اللہ قیامت کے روز اُن معاملات کا فیصلہ
فرمادے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔
اس
کے بعد اب اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہِ (شریعت) پر
قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم
نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے۔ ظالم لوگ
ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے‘‘۔
(ترجمہ
مودودی)
یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دی جانے
والی دین و دنیا کی نعمتوں کا ذکر فرمادینے کے بعد اُن کے انحراف کا حال بتایا؛
یعنی علم آجانے کے بعد دین میں اختلاف کرنا اور اس کا سبب اُن کی آپس کی دھینگا
مشتی۔
پھر فرمایا کہ اب اُس نے محمدﷺ کو شاہراہِ شریعت
پر قائم کیا ہے۔ اِس راستہ میں؛ آپﷺ کو
ö
ایک حکم دیا اور وہ یہ کہ: بس
اسی کی پیروی کرنی ہے:
فَاتَّبِعْہَا
ö
اور ایک خبردار رہنے کی بات
بتا دی: نادانوں کی اھواء و خواہشات کی پیروی سے بچنا ہے:
وَلَا تَتَّبِعْ أَھوَاء الَّذِیْنَ
لَا یَعْلَمُونَ
ý
الَّذِیْنَ
لَا یَعْلَمُون
’’نادانوں‘‘ میں وہ سب لوگ آتے ہیں
جو شرعِ محمد ﷺ کی مخالفت کریں۔
ý
اور اُن کی
اھواء
: ان کے نفوس کی خواہشات اور
فرمائشیں، اُن کا نمایاں طریقہ اور ہیئت جس پر وہ مشرکین لوگ پائے جاتے ہیں، یا اس
کی ذیل میں آنے والی اشیاء، جوکہ اُن کے دینِ باطل کے موجبات ہیں یا اس سے برآمد
ہونے والی اشیاء۔
ý
اور اس میں اُن سے موافقت
اختیار کر لینے سے مراد ہے: اُن کے نفوس کی اُن خواہشات اور فرمائشوں کو پورا کر
بیٹھنا۔
چنانچہ تم ہمیشہ دیکھو گے کہ جب بھی مسلمان کسی
چیز میں کافروں کی موافقت یا مشابہت کریں وہ خوشی سے بے حال ہونے لگتے ہیں۔ مسلمان
اُن کے پیچھے لگے نظر آئیں، اس کے لیے وہ آسمان سے تارے بھی توڑ لائیں تو گویا کم
ہے! یہی وجہ ہے کہ تم شریعت کا عمومی رجحان یہ پاؤ گے کہ اہل کتاب کی موافقت کی
اجازت دینا تو درکنار، اُن کی مخالفت کروانا ہی کسی ایک لمحہ کے لیے شارع کی نظر
سے اوجھل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اُن کی مخالفت کروا دینے سے اُن کی امیدوں پر جو پانی
پڑتا ہے اُس سے شرعِ محمدﷺ کی ایک نہا یت عظیم غایت پوری ہوتی ہے ؛ یعنی اہلِ
صراطِ مستقیم کو منسوخ شدہ شرائع کے پیروکاروں سے ہر لحظہ ممیز رکھنا؛ یوں کہ وہ
اِس شاہراہ کے آس پاس نظر تک نہ آئیں (اور آئیں تو اپنا وہ راستہ چھوڑ کر آئیں)۔
چنانچہ اُن کی مخالفت کروا دینے کی صورت میں اُن کی موافقت کا مادہ ہی ختم کر کے
رکھ دینا شارع کا باقاعدہ مقصود نظر آتا ہے، کہ یہی طریقہ اِن دو راستوں کو خلط سے
بچانے کے لیے کارگرترین ہے؛ وگرنہ آدمی ایک خطرناک لکیر کے آس پاس رہے تو پیر کسی
وقت اندر جا سکتا ہے۔
۲
۔ آیات سورۃ الرعد:
وَالَّذِیْنَ آتَیْنَاھمُ
الْکِتَابَ یَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْكَ وَمِنَ الأَحْزَابِ مَن یُنکِرُ
بَعْضَہُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّہَ وَلا أُشْرِك بِہِ إِلَیْہِ
أَدْعُو وَإِلَیْہِ مَآبِ وَکَذَلِك أَنزَلْنَاہُ حُکْماً عَرَبِیّاً وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ
أَھوَاء ھم بَعْدَ مَا جَاء ك مِنَ الْعِلْمِ مَا لَك مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ
وَلاَ وَاقٍ.
(الرعد:
۳۶
۔
۳۷)
جنہیں
ہم نے کتاب دی تھی، وہ تو اُس چیز سے جو تم پر اتاری جاتی ہے، بڑے خوش ہیں۔ اور
گروہوں میں ایسے بھی ہیں جو اِس کے ایک حصے پر معترض ہیں۔ تم صاف کہہ دو: مجھے تو
حکم ہے کہ عبادت کروں اللہ کی بغیر اس کا کوئی شریک کیے۔ پس میں تو اُسی کی طرف
دعوت دوں گا اور اُسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔ اِسی شان کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ
عربی تم پر نازل فرمایا ہے، اب اگر اِس علم کے آجانے کے بعد بھی تم اُن لوگوں کی
خواہشات کی پیروی کرتے ہو تو اللہ کے آگے نہ تمہارا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ بچانے
والا۔
یہاں
أَھْوَاءَھُم
میں ضمیر __ اللہ اعلم __ اس سے پہلے گزرنے والے
لفظ
وَمِنَ الأَحْزَابِ مَن یُنکِرُ بَعْضَہ
کی طرف جاتی ہے۔ یعنی گروہوں
میں سے ایسے جو شرعِ محمد ﷺ کے ایک حصے پر معترض ہیں، خواہ وہ یہودی ہو خواہ عیسائی
یا کوئی اور ۔ یہاں؛ نہیں فرمایا کہ تم نے اُن کے دین کے پیچھے نہیں چلنا؛
بلکہ کہا کہ تم نے ان کی خواہشوں اور فرمائشوں کی ہی پیروی نہیں کرنی۔
۳
۔ آیات سورۃ البقرۃ:
وَلَن
تَرْضَی عَنك الْیَھودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَھمْ قُلْ إِنَّ
ھدَی اللّہِ ھوَ الْھدَی وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَھْوَاء ھم بَعْدَ الَّذِیْ جَاء ك
مِنَ الْعِلْمِ مَا لَك مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ نَصِیْرٍ.
(البقرۃ:
۱۲۰)
اورہرگز راضی نہ ہوں گے تم سے یہ یہود اور نہ یہ عیسائی یہاں تک کہ تم ان
کی ملت ہی کی پیروی نہ کر لو۔ صاف کہہ دو: اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ اگر تم
نے ان کی اھواء کی پیروی کر لی بعد اس کے علم تمہارے پاس آچکا ہے تو اللہ کے آگے
نہ تمہارا کوئی حمایتی اور نہ مددگار۔
یہاں دو چیزوں پر ذرا غور
کرو:
ö
اُن کی بابت خبر دی تو بولا:
مِلَّتَہُمْ
’’اُن کی ملت‘‘۔
ö
خود ممانعت فرمائی تو بولا:
أَھْوَاءھُم
’’اُن کی اھواء‘‘۔
ý
یعنی اُدھر وہ (اہل کتاب) لوگ
راضی تب تک نہ ہوں گے جب تک تم (اُن کے
پیچھے چلتےچلتے) اُن کی ملت ہی کے پیروکار نہ ہو جاؤ۔
ý
جبکہ اِدھر ممانعت ایسی کہ
اُن کی اھواء کو ہی سرے سے گھاس نہیں ڈالنی۔ تھوڑا نہ زیادہ، اُن کی فرمائشوں پر
چلنا ہی نہیں۔
اور یہ تو واضح ہے کہ اُن کے دین کا کوئی جزء جس
کے وہ پیروکار ہیں اُس میں ان کی متابعت کرنا اُن کی اھواء کے ایک حصے میں ان کی
متابعت کرنے میں آتا ہے، یا اُن کی اھواء کی اتباع کے قائم مقام ہے۔
وَلَئِنْ
أَتَیْتَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ بِکُلِّ آیَۃٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَك
وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَھمْ وَمَا بَعْضُھم بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ وَلَئِنِ
اتَّبَعْتَ أَھْوَاءھم مِّن بَعْدِ مَا جَاء ك مِنَ الْعِلْمِ إِنَّك إِذَاً
لَّمِنَ الظَّالِمِیْنَ الَّذِیْنَ آتَیْنَاھمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا
یَعْرِفُونَ أَبْنَاءھمْ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنْھمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَھمْ
یَعْلَمُونَ الْحَقُّ مِن رَّبِّك فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ وَلِکُلٍّ
وِجْہَۃٌ ھوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْرَاتِ أَیْنَ مَا تَکُونُواْ
یَأْتِ بِکُمُ اللّہُ جَمِیْعاً إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ وَمِنْ
حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَك شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّہُ
لَلْحَقُّ مِن رَّبِّك وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ وَمِنْ حَیْثُ
خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَك شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ
فَوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ
إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْھمْ.
(البقرۃ:
۱۴۵
۔
۱۵۰)
اور اگر تم اِن کتابیوں کے پاس ہر نشانی لے آؤ
تو بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے۔ اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے
والے ہو، اور نہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہیں۔ اب اگر تم ان کی
خواہشات کے پیچھے چلے بعد اس کے کہ تمہیں علم مل چکا، تو تم ضرور ظالموں میں سے ہو
جاؤ گے۔ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اِس (نبی) کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے اپنے
بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اور بے شک اُن میں ایک فریق جان بوجھ کر حق چھپاتا ہے۔ اور
ہر ملت کے لیے ایک سمت (مقرر) ہے جدھر اُسے (عبادت کے لیے) رخ کرنا ہوتا ہے۔ پس تم
نیکیوں میں اوروں سے آگے نکل جاؤ۔ جہاں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو جمع کر لے گا۔
بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور تو جہاں سے نکلے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر
لیا کر؛ بے شک وہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق ہے۔ اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو، اللہ
اس سے بے خبر نہیں۔ اور تو جہاں سے نکلے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کر۔ اور
تم جہاں ہوا کرو اپنا منہ اسی کی طرف پھیر لیا کرو۔ تاکہ لوگ تم پر کوئی حجت نہ
رکھیں، سوائے وہ جو ظالم ہیں۔
سلف کی ایک بڑی تعداد نے
لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ
’’تاکہ
لوگ تم پر کوئی حجت
نہ رکھیں‘‘ کی تفسیر میں کہا ہے: تاکہ
یہود تمہارے اوپر یہ حجت نہ رکھیں کہ دیکھا انہوں نے
ہمارے ہی قبلے کی موافقت کی،
اور پھر کہیں کہ قبلے میں یہ ہماری موافقت کی راہ پر ہیں تو ہمارے دین کے بھی موافق ہو ہی جائیں گے۔ تب اللہ
تعالیٰ نے قبلے میں اُن کی مخالفت کروا کر
اُن کی اس حجت کو کاٹ کر پھینک دیا۔ کیونکہ ’’حجت‘‘ ہر اُس چیز کو کہیں گے جس سے
ایک آدمی کی جیت ہو، خواہ یہ جیت حق
میں ہو یا باطل میں۔ جبکہ
إِلاَّ الَّذِیْنَ
ظَلَمُواْ مِنْہُمْ
’’سوائے
وہ جو ظالم ہیں‘‘ کی تفسیر
’’قریش‘‘ سے کی۔ یعنی ہاں اب یہ ہیں جو کہیں گے کہ: ہمارے قبلے کی طرف تو لوٹ آئے،
ہوتے ہوتے ہمارے دین کی طرف بھی لوٹ ہی آئیں گے۔
چنانچہ اللہ رب ا لعزت نے ایک قبلہ کو منسوخ
فرما کر مسلمانوں کو دوسری جانب قبلہ رخ کیا تو وہاں صرف حکم نہیں دیا، باقاعدہ
حکمت بھی بیان فرمائی۔ کافروں کی مخالفت ہی نہیں کروائی بلکہ مقاصدِ شریعت کا
ایک طویل بیان بھی عین وہیں پر عنایت فرمایا۔ جس کا لب لباب یہ کہ اہل باطل کی
فرمائشیں جو وہ ملتِ اسلام سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہاں سے اپنے پندار کی
تسکین پاتے ہیں، اس کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دی جائے اور اِس امت کا مستقل بالذات ہونا
اور اِس کی ملت کا ممیز، بے مثال اور ناقابل قیاس ہونا اظہر من الشمس بنادیا جائے۔
تحویل قبلہ کے اِس موقع پر یہ جو ایک اصولی بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرائی گئی...
ظاہر ہے یہ بات ہر موافقت اور ہر مخالفت کے معاملہ میں ہی پائی جائے گی۔ کیونکہ
کسی بھی مسئلہ میں آپ کی جانب سے جب کافر کی موافقت اور پیروی ظاہر ہوگی تو
صورتحال وہی یا اُس سے قریب ہوگی جو قبلہ کے معاملہ میں یہود کو اسلام پر ایک قسم
کی حجت فراہم کر رہی تھی۔
۴
۔
آیت سورۃ آل عمران:
وَلاَ
تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَھمُ
الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِك لَھمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.
(آل عمران:
۱۰۵)
اور نہ ہونا اُن لوگوں کی طرح کا جنہوں نے تفرقہ
کیا اور اختلاف میں پڑے، بعد اس کے کہ اُن کے پاس بینات آچکی تھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں
جن کو بڑا عظیم عذاب ہونے والا ہے۔
یہ لوگ کون ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے
کہ اُن کی طرح کا نہ ہونا؟ ظاہر ہے یہود اور نصاریٰ؛ جو ستر ستر فرقے ہوئے۔ یہی
وجہ ہے کہ نبیﷺ نے خاص تفرقہ اور اختلاف کے سلسلہ میں یہود و نصاریٰ کی متابعت سے
منع فرمایا، باوجود اس کے کہ آپﷺ نے یہ پیشین گوئی بھی فرما دی تھی کہ خود آپ ﷺ کی
امت تہتر فرقوں میں بٹے گی۔
لغت میں جب آپ کسی کو کہتے ہیں ’فلاں کی طرح کا
مت ہو جانا‘ تو اس سے جو لفظی یامعنوی مفہوم نکلتا ہے اس سے اُس شخص کی مماثلت سے
ایک عمومی نفی ثابت ہوتی ہے۔ آیت سے اگر یہ مفہوم نہ بھی لیا جائے تو یہ مفہوم تو
بہرحال نکلتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت بطورِ جنس اور ان کی مشابہت
کو ترک کرنا بطورِ جنس ایک مشروع امر ہے۔
اور یہ اس چیز پر دلالت ہے کہ وہ چیزیں جو ہمیں
بیان نہیں کر کے دی گئیں ان میں بھی آدمی جتنا اُن کی مشابہت سے دور رہے اتنا ہی
اُس کا ممنوعہ مشابہت سے دور ہونا قوی تر ہوگا۔ اور یہ دین کی ایک جلیل القدر
مصلحت ہے۔
اِسی اسلوب کی یہ آیات ہیں:
موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو دی جانے والی
ہدایات:
فَاسْتَقِیْمَا وَلاَ
تَتَّبِعَآنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُون
(یونس:
۸۹)
’’پس حق
پر قائم رہو اور ہرگز اُن لوگوں کی راہ نہ چلنا جو نادان ہیں‘‘۔
نیز آیت:
وَقَالَ مُوسَی لأَخِیْہِ ہَارُونَ اخْلُفْنِیْ فِیْ
قَوْمِیْ وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ
(الأعراف:
۱۴۲)
’’موسیٰ
نے ابنے بھائی ہارون سے کہا: قوم میں میرے جانشین ہو، اور اصلاح کرتے رہنا اور شریروں
کا راستہ نہ چلنا‘‘
5
۔
آیت سورۃ
النساء
:
وَمَن
یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ
سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ
(النساء:
۱۱۵)
جو
شخص راہِ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد بھی پیغمبر کا خلاف کرے اور مومنوں کی راہ
کے ماسوا کے پیچھے چلے، تو ہم اُسے اُسی رخ پر چلا دیں گے جس رخ پر وہ چل گیا
ہے اور اُس کو جہنم میں داخل کریں گے۔
اوپر کی آیت میں
غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ
کا ذکر ہوا یعنی ’’مومنوں کی راہ کے ماسوا
راستہ‘‘۔ اس میں وہ سب امتیازی طریقے، دستور، روایات اور اعمال (تمام امورِ تہذیب)
آجاتے ہیں جو اہل ایمان کے ماسوا لوگوں کے ہیں (خواہ وہ مشرک قوموں کے امتیازی
امور ہوں یا اہل کتاب قوموں کے)۔
غرض جس جس چیز پر وہ قومیں (امتیازی طور پر) چلی
آتی ہیں وہ
غَیْرَ سَبِیْلِ
الْمُؤْمِنِیْنَ
ہوا۔ بلکہ
سبیل المفسدین
ہوا۔ یا
سبیل الذین لا یعلمون
ہوا۔آیت میں ان سب اشیاء سے ممانعت ثابت ہو گئی۔
کم از کم، ان کی یہ سب اشیاء بطور جنس وہ چیز ہوئیں جس سے مفارقت کرنا ہمارے حق
میں مستحسن ہے۔
6
۔
سورة المائدة
وَأَنزَلْنَا
إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ
الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ
ۖ
فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ
ۖ
وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ
الْحَقِّ
ۚ
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا
ۚ
وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً
وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ
ۖ
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ
ۚ
إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم
بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ.
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَلَا
تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ
اللَّـهُ إِلَيْكَ
ۖ
(المائدة: 48، 49)
اور اے نبیؐ ہم نے
تمہاری طرف سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی اور ان پر محافظ و گواہ تو
ان میں فیصلہ کرو اللہ کے اتارے سے۔ پس نہ پیروی کرنا اُن کی خواہشوں کی اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر۔ ہم
نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی
امت کردیتا مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے۔ تو بھلائیوں
کی طرف سبقت کرو، تم سب کا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جس بات
میں تم جھگڑتے تھے۔ اور یہ کہ اللہ کے اتارے پر فیصلے کرنا اور ان کی خواہشوں پر
نہ چلنا اور ان سے شدید ہوشیار رہنا کہ کہیں تمہیں اُس چیز کے کسی جزو سے بھی
بھٹکا نہ دیں جو اللہ نے تمہاری طرف اتاری۔
اب اُن کے امتیازی طریقہ کی پیروی کرنا’’اُن کی خواہشات کی پیروی‘‘ میں ہی آ جائے
گا۔ یا’’اُن کی خواہشات کی پیروی‘‘کا
مِظَنَّۃ
(آماج گاہ) ہو گا۔ لہٰذا ان کے امتیازی طریقہ
کی پیروی نہ کرنا اُن کی خواہشات کی پیروی کے مادہ کو ہی ختم کر کے رکھ دینا ہے۔
جان رکھو! قرآن میں جہاں کہیں کافر
قوموں کے قصے سنائے گئےوہاں ہمیں باقاعدہ راہنمائی ہوئی ہے کہ ہم ان کے احوال سے
سبق لیں، یعنی ان کی مشابہت سے دور رہیں اور ایسی اشیاء سے دامن بچائیں جو ان قوموں کے امتیازی افعال مانے جاتے ہوں۔
چنانچہ اہل کتاب کا انجام دکھاتے ہوئے فرمایا:
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
(الحشر: 2)
’’پس سبق لو اے
نگاہ والو‘‘۔ اسی طرح قریش کو برادرانِ
یوسف کا قصہ سنا کر کہا گیا:
لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ
لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
(یوسف: 111)
’’یقیناً ان کے
قصے میں ہوش والوں کےلیے بڑی پتے کی بات ہے‘‘۔ غرض اسی طرح کی دیگر مثالیں۔
ان میں سے کچھ مقامات ایسے ہیں جو
ہمارے مقصود پر براہ راست دلالت کرتے ہیں۔ جبکہ بعض مقامات سے ہمارے مقصود کی جانب
اشارہ ہوتا ہے، یا وہ اس کا تتمہ و تکملہ ٹھہرتے ہیں۔
(کتاب کے صفحات
85 تا 90)
7
۔
آیت سورۃ التوبۃ:
كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ
مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا
بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن
قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَـٰئِكَ
حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ
هُمُ الْخَاسِرُونَ.
(التوبۃ: 69)
تم لوگوں کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمہارے پیش روؤں کے تھے وہ تم
سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے پھر انہوں نے دنیا میں
اپنے حصہ کے مزے لوٹ لیے اور تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اسی طرح لوٹے جیسے انہوں
نے لوٹے تھے، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے، سو ان
کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہو گیا اور وہی
خسارے میں ہیں۔
(ترجمہ مودودی)
(سورۃ التوبۃ کے اِس پورے رکوع کے تحت
ابن تیمیہ نے یہاں بہت لمبا کلام کیا ہے۔
تقریباً 60 صفحے۔ ہم اس کا صرف ایک
نکتہ جو درج بالا آیت کے تحت بیان ہوا، یہاں اختصار کریں گے):
سیاقِ کلام سے
واضح ہے، آیت کا مخاطب اِس امت کے منافقین ہیں جو زبان سے اسلام کے دعویدار ہوئے۔
مگر ان کے رنگ ڈھنگ پہلی امتوں کے ان لوگوں والے ہیں جن کے اعمال خدا کے ہاں رد ہو
جانے والے ٹھہرے اور وہ اِس دنیا سے نامراد گئے۔
چنانچہ پچھلی قوموں
کے نامراد لوگوں کے ساتھ اِن کی مشابہت ذکر ہونا اِن کی مذمت کا ایک بیان ہوا۔
اِس امت کے
منافقین کی پچھلی قوموں کے نامراد لوگوں کے ساتھ مماثلت، آیت میں آگے چل کر، دو باتوں میں سمٹ آئی:
1)
فَاسْتَمْتَعْتُم
بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم
بِخَلَاقِهِمْ
’’
تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اسی
طرح لوٹے جیسے انہوں نے لوٹے تھے،
2)
وَخُضْتُمْ كَالَّذِي
خَاضُوا
’’اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ
پڑے تھے‘‘۔
ý
چنانچہ اول
الذکر: (دنیا کے مزے لوٹنا): فسق و فجور کے اعمال ہوئے، اور
ý
ثانی الذکر: (بحث
و آراء میں پڑنا): گمراہ عقائد، فلسفیانہ موشگافیاں، کلامی جدل اور بدعات۔
ثانی
الذکر: باطل شہوات۔ اور ثانی الذکر: باطل شبہات۔
اول الذکر: گناہگاری اور حرام طرب و
عیش کی زندگی۔ جبکہ ثانی الذکر: گمراہ افکار اور منحرف عقائد و نظریات۔
(چنانچہ باطل ملتوں کے ’گناہگار‘ پہلی صنف بنیں گے اور اُن کے’
دیندار‘ دوسری صنف۔ ہردوصورت: گمراہ و نامراد)۔
مزیدبرآں، کتاب اللہ کی یہ جو دلالت معلوم
ہوئی: یعنی اِس امت کے بعض لوگوں کا گزری ہوئی قوموں کے ساتھ دین و دنیا کے
معاملات میں ایک مشابہت اختیار کرنا اور ایسے لوگوں کا قابل مذمت ہونا... سنت کے اندر بھی اس پر دلالت پائی جاتی ہے (جس
کی کچھ مثالیں پیچھے بیان ہو چکیں، کچھ ابھی ہوں گی)۔ نیز صحابہ کے ہاں بھی
سورۃ التوبۃ کی اِس آیت کی تفسیر اِسی انداز پر ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر:
ö
حضرت ابوہریرہ
نے نبیﷺ سے یہ حدیث روایت کی:
لتأخذن كما أخذت الأممُ من
قبلكم: ذراعًا بذراع، وشبرًا بشبر، وباعاً بباع، حتى لو أن أحدًا من أولئك دخل
جحرَ ضبٍ لدخلتموه.
’’تم
ضرور بضرور اپنے سے پہلی امتوں تم ضرور بضرور اپنے سے پہلی امتوں کی روش چلو گے،
ہوبہو، بالشت ببالشت، گز بگز۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی سانڈے کے بل میں گھسا
ہو گا تو تم بھی گھسو گے‘‘۔ اس کے بعد حضرت ابوہریرہؓ بولے: چاہو تو یہ آیت پڑھ
لو:
كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ
آخر تک۔ (پھر ابوہریرہؓ نے روایتِ
حدیث جاری رکھتے ہوئے کہا): صحابہؓ نے عرض: اے اللہ کے رسول! کیا وہ روش جو فارس،
روم اور اہل کتاب کی رہی؟ آپﷺ نے فرمایا: تو کیا لوگ ان کے سوا کوئی اور بھی ہیں؟
ö
ابن عباس سے روایت ہے
، اِس آیت سے متعلق، کہ آپ نے کہا: آج کی رات گزشتہ رات سے کتنی مشابہ ہے۔ یہ
رہے بنی اسرائیل، ہماری مشابہت انہی سے ہوئی۔
ö
عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے، کہا:
تم بنی اسرائیل کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والی امت ہو، صورت میں
بھی اور سیرت میں بھی۔ ہو بہو اُن جیسی حرکتیں کرتے ہو، بس یہ میں نہیں جانتا کہ
تم بچھڑا پوجے گے یا نہیں۔
ö
(جہاں
تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’منافقین‘کا
پایا جانا صرف دورِ رسالت کا ایک واقعہ ہے، مسلم معاشرے کا یہ کوئی مستقل کردار
نہیں، تو اس پر دیکھئے) حضرت حذیفہ بن الیمان کا بیان: ’’تمہارے آج کے منافق ان
منافقوں سے زیادہ برے ہیں جو رسول اللہﷺ کے زمانے میں تھے‘‘۔ ہم نے عرض کیا: کیسے؟
حذیفہ بن الیمان نے فرمایا: ’’وہ اپنے نفاق کو چھپاتے تھے۔ یہ سرعام کرتے ہیں‘‘۔
(کتاب کے صفحات 91 تا 149)
(امام ابن تیمیہؒ نے بہت سی دیگر آیات سے بھی
استدلال کیا ہے مگر ہم فی الحال اِنہی قرآنی نصوص پر اکتفا کریں گے)۔
خلاصہ یہ کہ:
شریعت کا یہ مقصود کہ اہل کفر خصوصاً
اہل کتاب کی عمومی امور میں مخالفت ہمارے حق میں باعثِ صلاح ہے، تو یہ سبھی
آیات یہ دلالت دینے میں نہایت واضح اور صریح ہیں۔
رہ گیا اُن کی مخالفت کرنے کا وجوب،
تو اِس پر کچھ آیات کی دلالت ہوگی تو کچھ کی نہیں ہوگی۔ ہم نے اِن آیات سے جو بات ثابت کی ہے وہ یہ کہ اہل کتاب کی مخالفت بالجملہ
مشروع ہے، اور یہی بات واضح کرنا یہاں پر مقصد ہے۔
ہاں یہ بات کہ کہاں دلالت وجوب کا
فائدہ دیتی ہے اور کہاں غیر وجوب (صرف مستحب یا مستحسن ہونے) کا، تو وہ یہاں ہمارا
موضوع نہیں۔ ہمیں اِس باب میں دین کا ایک عمومی مقصود واضح کرنا تھا، اور وہ ہم نے
کر دیا۔ یہاں ہمارے پیش نظر اِس باب میں آنے والے تمام مسائل کا احاطہ کرنا نہیں،
ہاں ہم یہ مسئلہ آگے چل کر بیان کریں گے کہ اُن کی عیدوں اور تہواروں میں اُن کی
مشابہت اختیار کرنا حرام امور میں آتا ہے۔ اور اس ایک مسئلہ کی تفصیل میں جانے سے
پہلے ضروری سمجھا گیا کہ وہ قاعدہ کلیہ بھی بیان کر دیں، اور جوکہ نہایت عظیم
فائدہ کا حامل ہے۔
(کتاب کا صفحہ
91)