اردگان کی جیت تو لبرلز کی خوشی ہے!
تحریر : ابن علی
بہت خوب اے دانشورو! اسلام
پسندوں کی خوشی پر رہ رہ کر ’تعجب‘ فرمانے والو!
اردگان
کہیں وہ مطلوبہ نتائج نہ لے پاتا... تو پھر دیکھتے ’سامنے کی‘ وجوہات کیسے پھوٹ پھوٹ
کر آتی ہیں: اِس جذباتی سادہ لوح انسان کی اسلامی پالیسیاں ’جن سے عوام تنگ آ چکے
تھے‘، ’سارے جہاں کا درد‘ اپنے دل میں رکھنا، پرائے ملک شام میں اس کا باربار پنگے
لے کر آنا، اپنے ملک کے گھمبیر مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے باہر شامیوں پر مہربان
ہوتے پھرنا، اپنی معیشت پر ان کی خیمہ بستیوں کا بےتحاشا بوجھ لاد لینا اور ان کی
خاطر اپنی فوج کو پھنسا آنا، اور تو اور اس کا حماس ایسی ایک ’مانی ہوئی‘ ٹیررسٹ
آرگنائزیشن کی کھلم کھلا حمایت کرنا اور اسرائیل
کے ساتھ برتاؤ میں جنرل سیسی ایسے ’بالغ
نظر‘ کو اپنا امام و مقتدا نہ ماننا، وغیرہ وغیرہ... اور اس وجہ سے ترکی کی باشعور
عوام کو ناراض کر بیٹھنا... جیساکہ چند ماہ پیشتر تمہاری ’تجزیہ نگاری‘ رہی۔
اور اگر
اب جیت گیا... تو بھلا اس میں اسلام پسندوں کے خوش ہونے کی کیا بات ہے؟!!
کیا منطق ہے!
خدا کے بندو! ترکی کی
انصاف و ترقی پارٹی کی جیت پر ظاہر ہے کسی فریق کو تو خوش ہونا ہے۔ تم دل پر ہاتھ رکھ
کر کہو کہ تمہیں خوشی ہوئی ہے!
یہ عالم اسلام کے ان
واقعات میں سے ہے جن پر فریقین کا ردعمل ایک سانہیں ہو سکتا؛ ایک کی خوشی لازماً
دوسرے کی ناخوشی ہو گی۔
بخدا، اگر ہم اس پر ناخوش ہوتے
تو تم ضرور خوش ہوتے، کہو اس میں کیا شک ہے؟
اصل حقیقت اتنی ہے، باقی
سب اس کی ’توجیہات‘!
*****
دیکھو، فیصل ہو، ضیاء الحق
ہو، عمر البشیر ہو، یا اردگان ہو، یہ سب فرشتے نہیں ہیں۔ ان کے سب کام درست نہیں ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی عمر بن عبدالعزیز نہیں ہے۔ یہاں اسلامی کاز Islamic
cause کو جس درجہ یکسوئی اور فدائیت درکار ہے، یا جیسا
اسوہ اور نمونہ بن کر دکھانے کی یہاں ضرورت ہے، شاید یہ سب یا ان میں سے کئی اس پر
پورے نہ اترتے ہوں۔ (خود ہم شاید اس پر پورے نہ اترتے ہوں)۔ معیار ہمارے ان لوگوں کے
بنانے سے نہیں بنتے؛ معیار ہمارے بہت پیچھے سے چلے آتے ہیں۔ اپنے ایک خاص سیاق میں
ہم ان شخصیات پر بڑی بڑی تنقید بھی کر لیتے ہیں۔ ان سے بڑا بڑا اختلاف بھی کرتے ہیں۔
مگر ایک بات ہر کسی نے نوٹ کی ہو گی اور میرا خیال ہے اس پر بحث فضول ہے:
فیصل
ہو، ضیاءالحق ہو، عمرالبشیر ہو یا اردگان، دین دشمنوں کو ان سے تکلیف ضرور ہوتی ہے۔
اور دین سے محبت کرنے والوں
کا ایک خاصا بڑا طبقہ ان سے ایک گونہ لگاؤ رکھتا ہے۔
دیکھو
یہ بلاوجہ نہیں ہے۔ تمہارا یہ تجاہلِ عارفانہ کچھ ایسا فائدہ مند نہیں:
فیصل ہو، ضیاءالحق ہو،
عمرالبشیر ہو یا اردگان، ان سب نے اسلام کا کوئی بہت زیادہ بھلا کیا ہو یا نہ،
اسلام دشمنوں کا کچھ کچھ ستیاناس ضرور کیا ہے۔ نہ صرف اپنے ملک کے اندر، بلکہ
اپنےاپنے رِیجن میں خاصی دُور تک۔ اسلام دشمن کوئی اندرونی ہو یا بیرونی، ان کے
اقدامات سے خاصا دُوردُور تک اور خاصا اندر تک بلبلاتا ہے، خواہ کہنے کو ’درد‘ کی
جگہ جان بوجھ کر کوئی اور بتائے اور اصل جگہ پر ہاتھ لے جاتے ہوئے بوجوہ شرمائے۔
تم اس کی ایک مثال لے لو۔ ’جمہوریت
کا خون‘ تو ضیاءالحق نے بھی جی بھر کر کیا ہوگا اور پرویز مشرف نے بھی۔ اور ’کسی
دوسرے کی جنگ کو خوامخواہ اپنی جنگ بنا لینے‘ ایسی حرکت بھی اتفاقاً دونوں نے ایک
برابر ہی کی ہوگی۔ مزے کی بات، دونوں
نے یہ حرکت امریکہ کے ساتھ دوستی نبھاتے
ہوئے کی! مگر آپ بالعموم دیکھیں گے، اسلام پسند کا نزلہ جب گرتا ہے پرویز مشرف پر
گرتا ہے۔ اور لبرل جب دل سے کراہے گا ضیاء الحق کو دوش دے گا! بےشک دونوں طرف ’جمہوریت کا قتل‘ اور ’پرائی جنگ
کو گھر لے کر آنا‘ پوری طرح موجود ہے اور دلیل کے طور پر ایک برابر کام کرتا ہے،
مگر اس ’دلیل‘ کا استعمال ہر فریق اپنی
اپنی دُکھتی جگہ پر کرتا ہے! ہم کہتے ہیں، یہ ایک طبعی واقعہ ہے۔ اپنی دُکھتی جگہ
پر آدمی کا ہاتھ خودبخود چلا جاتا ہے۔ اسلام اور لبرلزم کی جنگ ایک حقیقی جنگ ہے۔ ہم یہ صاف بول دیتے ہیں۔ تمہیں یہ بولتے ہوئے
شرم آتی ہے۔ اسلام (شریعت کی حکمرانی) کے مخالف ہر نظریے کو ہم اپنے دشمن کے طور
پر لیتے ہیں۔ جنگ میں اپنا فائدہ آدمی کو
جتنی راحت دیتا ہے دشمن کا نقصان بھی اس کےلیے اتنا ہی باعثِ تسکین ہوتا ہے۔ اور
بلاشبہ فیصل، ضیاء، البشیر، اور اردگان وغیرہ لوگوں نے تمہارا، اور تمہارے پیچھے
کچھ اور لوگوں کا خاصا خاصا نقصان کیا ہے... جبکہ تم نے یا تمہارے پیچھے کھڑے
لوگوں نے ان کا نقصان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
لہٰذا اردگان ایسے آدمی کے
جیتنے پر خوشی کس کو ہوگی اور افسوس کس کو ہو گا، میرا خیال ہے یہ مسئلہ زیادہ
فلسفوں کا نہیں؛ بڑی سامنے کی بات ہے۔ ایک فریق کو اس پر خوشی ہونی ہی ہے۔ اور
دوسرے فریق کو پہلےکی خوشی کا کڑا نوٹس لینا ہی ہے! اردگان خدانخواستہ ہار جاتا تو
معاملہ اس کے برعکس بھی آپ ضرور دیکھتے۔
دیکھو خوشی غمی ایک بڑی
طبعی چیز ہے، اس کی زیادہ ’تفسیر‘ کرنا اس کا بےساختہ پن ختم کرتا ہے۔ میرا خیال ہے اسلامی سیکٹر کی یہ ایک آدھ
خوشی تمہیں برداشت کر ہی لینی چاہئے! اس
وقت آپ ہمیں یہ سارے فلسفے نہ سنائیں کہ اردگان نے اسلام کو کیا دیا ہے اور کیا
نہیں دیا ہے۔ وہ کوئی نامعلوم آدمی نہیں، اسلامی تحریک کا فرزند ہے۔ ایک بات
پر یقین رکھو، عالمی اسلامی تحریک جب کسی
شخصیت کےلیے کسی وجہ سے اپنا لگاؤ ظاہر کرتی ہے تو وہ اخبارات پڑھ کر یا ٹی وی تجزیے سن کر ایسی
کوئی رائے قائم نہیں کر لیتی۔ ہماری اسلامی تحریکیں اور ہمارے عالمی ساکھ repute رکھنے والے
یہ سارے علماء اس قدر سادہ ہوتے تو وہ پاکستان میں عمران خان کی ’’ایاک نعبد وایاک
نستعین‘‘ سن کر بھی ویسا ہی ’متاثر‘ ہو جاتے جیسا آپ ان کو اردگان کے معاملے میں
دیکھتے ہیں! یہاں کوئی فرق ہے تو ضرور اس کی کوئی وجہ بھی ہو گی! عالمی اسلامی
تحریک کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں۔ اپنی assessment ہوتی ہے۔ اور وہ اپنی توقعات کے بارے میں بھی واضح
ہوتی ہے کہ کسی جگہ کے اسلامی تجربے سے یا وہاں پر پائے جانے والے رجال سے اندریں
صورت اس کو کیا کچھ مل سکتا ہے اور کیا کچھ اس کے بس سے فی الحال باہر ہے۔ ہاں اس
بات کی آپ کو تسلی کروائی جا سکتی ہے کہ عالمی اسلامی تحریک کی توقعات ترکی کے
اندر تاحال بری نہیں جا رہیں، وللہ الحمد۔ کسی ’دی ہوئی صورتحال‘ میں in a
given situation اسلامی تحریک کو اپنی توقعات کیسی رکھنی ہیں، نیز اس کا تجویزکردہ
کوئی شخص اس سے پاسنگ مارکس passing marks لیتا ہے یا اس کے کاغذوں میں فیل ہو جاتا ہے، یا کب
ایک اسلامی تحریک کو ایک شخص کو فارغ خطی دے کر ’اپنے‘ لوگوں کی فہرست سے باہر کر
دینا چاہئے، اسلامی تحریک اس بات کا فیصلہ خود کرتی ہے، اس کا سبق آپ نے اس کو
نہیں پڑھانا۔
ہاں ایک
دوسری سطح پر بےشک آپ یہ بحث کر لیں کہ ضیاءالحق نے اسلام کو فی الواقع کیا دیا
ہے، عین جس طرح یہ بحث بھی آپ ایک سطح پر کر سکتے ہیں کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے
سوشلزم کو فی الواقع کیا دیا ہے... مگر اس واقعہ کو محض ’اتفاق‘ نہیں کہا جائے گا
کہ ضیاءالحق کا نام یہاں ہمیشہ ’سرخوں‘ کے سینے پر مونگ دلتا رہا ہے اور بھٹو کا
نام ’اسلامیوں‘ کےلیے مسلسل باعثِ اذیت۔ ان اشیاء کو نرا ’بےوجہ‘ جاننا کوئی تجزیہ
نگاری نہیں۔ اور میرا خیال ہے اِس موقع پر
تمہیں حوصلہ ہی دکھانا ہو گا!
ترکی کا لبرل ووٹ بلاشبہ
اردگان کے خلاف تھا اور رہا ہے، خواہ دور نزدیک کی جتنی مرضی کوڑیاں تم اب لے آؤ۔ اور
ترکی کا اسلام پسند ووٹ اردگان کے حق میں تھا
اور رہا ہے۔ رہے عوام، تو ان بیچاروں کا ووٹ نہ ’اسلام پسندوں‘ کےلیے ہوتا ہے اور نہ
’لبرلوں‘ کےلیے، ان کا ووٹ اپنے مسائل کےلیے ہوتا ہے یا وہ کچھ خارج از حساب عوامل
کا اسیر ہوتا ہے (یہ وہ بات ہے جسے ہمارے یہاں کے اسلام پسندوں کو بھی سمجھنا ہے)؛
جو زیادہ سیانا ہو گا یا کچھ خاص صورتوں میں زیادہ بااثر ہوگا وہ ان کے ووٹ لے
جائے گا۔
رہا اردگان کا لبرلوں کو چُبھنا
تو وہ ایک واقعہ ہے... اور صرف ترکی کے
لبرلوں کو نہیں بلکہ بڑی دور دور تک کے اسلام دشمنوں کو! اس کےلیے مغرب اور
اسرائیل سے لے کر خطہ میں مصر اور سعودیہ کے سیکولر پریس پر ایک نظر ڈال لینا کافی
ہے۔ نیز ایران کے رافضی پریس کو دیکھ لینا چشم کشا ہو گا (جس سے شاید آپ کو یہ بھی
معلوم ہو جائے کہ ہم اِس جیت پر کیوں خوش ہو رہے ہیں)۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ (اسلامی
پس منظر سے آنے والی) اِس پارٹی کے گِرد مصر، شام، تیونس، الجزائر، مراکش، سعودیہ
ہر جگہ اسلام پسندوں اور لبرلز کے مابین ایک گرمجوشی تک جا پہنچنے والی نوک جھوک الیکشن سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی اور ابھی تک
چلی آتی ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ ترکی کی
انصاف و ترقی پارٹی کے خدانخواستہ ہار جانے کی صورت میں ان تمام ہی ملکوں کے اندر
اسلام پسندوں کو ایک شدید دھچکا لگتا، اور لبرلز اس پر بڑھ بڑھ بغلیں بجاتے۔ لیکن
یہاں کے لبرلز کا اب یہ پینترا کہ اردگان صاحب تو خاصے سارے غیراسلامی کام بھی کر
لیتے ہیں ان کی جیت پر اسلام پسندوں کے خوش ہونے کی آخر بات ہی کیا ہے، دل کو خوش
رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے!
*****
بندگانِ لبرلزم! خاطر جمع
رکھو۔ دن ایک سے نہیں رہتے۔ اسلام پسندوں کی اِس ایک ہلکی پھلکی پیش قدمی پر بھی
تمہیں آج یقین نہیں آتا! ہم بھی مانتے ہیں صورتحال فی الوقت ایسی ہے۔ ہم (مسلم
دنیا میں اسلام کو حکمران دیکھنے کے آرزومند طبقے) بلاشبہ اپنی تاریخ کا مشکل ترین
عہد گزار رہے ہیں۔ یہ صورتحال بدلنے میں
ذرا وقت لگے گا۔ کہیں ہمارا تھوڑا ہاتھ پڑے گا کہیں ان شاءاللہ زیادہ۔ ’زیادہ‘ کی
کوشش بھی اِس مرحلہ میں ضرور ہونی چاہئے البتہ ’تھوڑے‘ کو بھی ہم معمولی ہرگز نہ
جانیں گے۔ جہاں، جتنا، لے سکے، لیں گے اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی پیش رفت بھی ہمارے
لیے بےرغبت نہ ہوگی۔ عبوری دور میں قومیں ’آئیڈیل ازم‘ کی متحمل ہوتی ہی نہیں؛ اپنی
حتمی منزل ultimate
goal کے طور پر البتہ ہم ان ملکوں میں قرآن کی
حاکمانہ حیثیت کو یہاں کی ہر ترجیح سے اوپر دیکھتے ہیں۔ ہاں درمیانی مراحل کے اپنے
احکام ہیں (جس کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے کچھ سادہ لوح طبقے کثرتِ شکوہ کا شکار
ہوتے اور ’جو مل سکتا ہے‘ اس کو ناقابل التفات جانتے ہیں؛ خود ان کو سمجھانا ہماری
ایک بڑی محنت لے رہا ہے۔ گو ایک دوسرا سادہ لوح طبقہ ’جو مل سکتا ہے‘ اسی کو ’’سب
کچھ‘‘ جانتا ہے؛ اور خود ان کو سمجھانا ہمارا بہت وقت لیتا ہے)۔
پچھلا ڈیڑھ سو سال گواہ
ہے، ہم اپنے اِس ہدف (قرآن کی مطلق حاکمیت) پر ہار ماننے کےلیے تیار نہیں۔ اس پر
تمہارے بڑوں کی تشویش بھی اب کوئی ایسی ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی۔ باقی، زور ہمارا
بھی لگے گا۔ جان تمہاری بھی کھپے گی۔ ہم اس کے عوض خدا سے ایک ابدی جہان پانے کے
امیدوار ہیں؛ یہ دنیا ہمارے لیے سب کچھ نہیں ہے۔ تمہاری سب امیدیں البتہ اِسی جہان
سے وابستہ ہیں؛ جس کا تمہارے ہاتھ سے جانا تمہارے لیے ایک بےحد بڑا سانحہ ہو گا
(ان شاءاللہ)۔ نہ تم اپنے دو سو سالہ غلبہ کے دوران پورا زور لگا لینے کے باوجود
اس ’’مسلمان‘‘ کو ختم کر سکے جو قرآن کی حاکمیت قائم کرائے بغیر چین سے نہیں
بیٹھنے کا۔ اور نہ پچھلے ڈیڑھ عشرہ کی ’وار آن ٹیرر‘ سے تمہارے بڑےافغانستان تا
عراق تا غزہ ہمارے اِس ’’مسلمان‘‘ کا
سر نیچا کر سکے۔ بلکہ تمہارے سیانوں کی آنکھیں اب جا کر کھلیں کہ ان کی اس جنگ نے
خراسان تا شام اس ’’مسلمان‘‘ کو کچھ اور ہی مضبوط کر دیا ہے۔ بلکہ اس جنگ میں تمہارے بڑوں نے جو
کیا، ان پر الٹا پڑا ہے۔ یہاں تک کہ ٹونی بلیئر جیسے سانپ اب اپنی قوم سے معافیاں
مانگنے لگے۔
گو ہم اتنے سادہ نہیں۔ ہم ابھی اور بہت بڑے بڑے
دھچکوں کےلیے پوری طرح تیار ہیں۔ کہیں صورتحال ہمارے حق میں بہت امیدافزا ہونے کے
بعد یکسر خراب ہو جائے یا مایوس کن ہونے کے بعد یکسر روشن امکانات لے آئے، ہم فی
الحال کسی چیز کو حتمی نہیں جانیں گے۔ یہ سب ہمارے لیے ایک عبوری دور ہے؛ اور
ہماری حتمی منزل ذرا آگے ہے۔ ہمیں فی الحال ہر جہت سے اور ہر طریقے سے پیش قدمی
کرنی ہے۔ اور یہ پیش قدمی اللہ کا شکر ہے ہو رہی ہے؛ بےشک ہمارا سفر لمبا ہے۔ قندوز
اور غزنی سے لے کر غزہ اور حلب تک اور پھر
تیونس و استنبول تک نگاہ دوڑا لو، ’’مسلمان‘‘ آ رہا ہے۔ مختلف جہتوں، مختلف راستوں
سے آ رہا ہے۔ روئےزمین پر ’’مسلمان‘‘ کی پیش قدمی اب ایک جہانی واقعہ ہے۔ رجب اردگان
کی کچھ کمیاں اور کوتاہیاں دکھا کر، یا ہمارے اِس ’عبوری دور‘ کے کچھ اور ناگفتہ
بہ شواہد لا کر، تم اِس حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔
واللہُ غالبٌ علیٰ امرہ۔