اردگان کی جیت پر خوش ہونا حرام؟!
تحریر : حامد کمال الدین
لبرلز
اور رافضہ کے ہاں تو دو روز سے ویسے ہی شامِ غریباں منعقد ہے۔ جہاں صفِ ماتم بچھی
ہو وہاں خوشی کا کیا سوال۔ مگر جس گروہ کا اس پر خوش ہونا بنتا تھا، ادھر بھی ایک
بھلے طبقے کے ہاں یہ ’شرعی‘ بحثیں چھڑ جاتی ہیں کہ اردگان کی جیت پر اظہارِ خوشی
کر کے کہیں آپ خدا کی معصیت تو نہیں کر بیٹھے؟!
ویسے ہم ایقاظ لکھنے والے اِن موقعوں پر ایسے سوالات کے
عادی ہو چلے ہیں:
آپ رجب طیب اردگان کی جیت پر خوش ہو رہے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے
وہ ایک غیراسلامی نظام میں شمولیت رکھتا ہے!
جب جمہوریت ایک باطل نظام ہے، تو یہاں کسی کے جیتنے پر آپ
خوشی کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟
ایک صحیح عقیدے کا دعویدار ایسا کیسے سوچ سکتا ہے!!!
حضرات! رجب طیب اردگان تو
خیر ایک مسلمان آدمی ہے۔ اسلامی تحریک کا فرزند؛ ہمارا بھائی۔ ایسے نیک عزائم کے
مالک شخص کو دیکھ کر ہی آدمی کا سیروں خون بڑھتا ہے۔ وہ بیک وقت دیسی و ولایتی ہر
دو قسم لبرلز، رافضہ، اہل تکفیر، سیسی و بشار وغیرہ ایسے اہلِ غدر و نفاق و
استبداد، حماس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا
خواب دیکھنے والی ملتِ صیہون اور اس کے پیچھے کھڑے فاشسٹ صلیبیوں، سب کی آنکھوں
میں کھٹکنے والا کانٹا ہے۔ مصر کے مظلوم و مقہور اسلام پسندوں سے لےکر فلسطین میں
روندے جانے والے نہتے مسلمانوں اور ان کی بیٹیوں کی بےبس آوازوں، اور پھر شام کے
آدم خور بشار سے آزادی پانے کےلیے سرگرم شامی مسلمانوں، یہاں تک حوثیوں کے خلاف
برسرِ پیکار سعودیوں، بحرینیوں اور یمنیوں
کےلیے ان کے بےرحم دشمن کے مقابلے پر ایک بہت بڑا سہارا ہے۔ اتنے اعزاز ایک
ہی شخص میں اکٹھے ہونا بجائے خود حیرت انگیز ہے۔ مسلمانوں کےلیے امید اور کافروں کےلیے باعثِ اذیت بنا رہنے والے ایسے نیک مسلمان کی
جیت پر ’خوشی‘ کا لفظ تو بہت
چھوٹا ہے۔ ہم تو اس پر باغ باغ ہوتے ہیں۔
جہاں تک خالی ’خوش‘ ہونے کی بات ہے تو وہ تو ایسے کافر کی جیت پر بھی سوفیصد جائز ہے جو مسلمانوں سے ظلم کو کم کرنے والا
ہو یا جس کے دم سے مسلمانوں کے کسی بڑے دشمن کو زک پہنچتی ہو۔ ایسا شخص
غیرمسلم بھی ہو تو اس کی شکست یا موت پر غمگین بھی ہوا جا سکتا ہے، جیسے رسول
اللہﷺ ابوطالب کی وفات پر ہوئے۔
مگر جیسا کہ ہم نے کہا:
یہاں تو ہمارا ایک مسلمان بھائی ہے۔ یہ باسعادت شخص مصطفیٰ کمال اتاترک (علیہ من
اللہ ما یستحق) کے سیکولر ترکی کو اسلام کی منزل کی جانب کئی میل گھسیٹ لایا ہے،
بےشک ابھی اس سفر کے سینکڑوں میل ابھی پڑے ہوں اور اس میں بہت سی چڑھائیاں اور
دشوارگزار گھاٹیاں ابھی باقی ہوں۔ بےشک اس کا شروع کردہ سفر بالکل اپنی ابتداء میں
ہو، اور اس کا ایک ناقابل اندازہ حصہ ابھی طے ہونے سے پڑا ہو، مگر کچھ شک نہیں کہ
اِس شخص کی قیادت میں ملک کا رخ اُس سمت کے برعکس ہےجس پر کمال اتاترک اور اس کے
پیروکاروں نے پون صدی تک ملک کو لشتم پشتم بھگایا تھا، اور جس کی سرعت کو ’قیامت
کی چال‘ بنا ڈالنے میں مشرق تا مغرب پائے جانے عالمی عوامل نے ایک ہوش رُبا کردار
ادا کیا تھا۔
ایسے مسلمان کی جیت پر خوش
ہوں تو فکر پڑ جائے، کہیں گناہ تو نہیں ہو گیا؟!
سبحان اللہ!
میں پوچھتا ہوں یہ طرزفکر
پیدا ہی کہاں سے ہوا ہے؟
ہمارے
ان (معترضین) بھائیوں کی فکری و نظریاتی ساخت کیا واقعتاً علمائے امت کے زیر سایہ
ہوئی ہے... یا یہ legacy
ایک ایسے گوشہ نشین خودرَو فکر کی ہے جو ان اہل
شذوذ
طبقوں کے زیراثر پروان چڑھی جن کی زندگی ان بحثوں کے اندر گزری ہے کہ: فلاں کو
سلام کا جواب دینا جائز بھی تھا یا نہیں؟ فلاں کے پیچھے نماز ہو گئی ہے یا دہرانی
پڑے گی؟ فلاں کےلیے ’رحمہ اللہ‘ کا لفظ
بول کر کہیں کوئی گناہ ہو گیا ہے یا ’احتیاط‘ افضل تھی؟ فلاں کے ساتھ مسلمان والا
رہن سہن رکھ لینے پر آدمی کے ایمان کو کوئی خطرہ تو نہیں؟ یہاں کے عامۃ المسلمین
کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟ یہاں کے ایک عام
شخص کا جنازہ پڑھ آنے میں کوئی شرعی مانع تو نہیں ہے؟! وغیرہ وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک خاص
شذوذ seclusion کے زیرسایہ پروان چڑھنے والی ذہنیت ہے، چاہے وہ
پچھلے چند سالوں میں نوجوانوں کے مابین کچھ پزیرائی بھی پا گئی ہو۔ اس کے علمی
رجال عالمِ اسلام میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پھر ایک عشرے کے اندر ہی اس نے کچھ
بہت تلخ نتائج بھی دکھا ڈالے۔ یہاں تک کہ اس کے ابتدائی و درمیانی مراحل طے کروانے
والے بہت سے اصحابِ خیر اس کے ’انتہائی مراحل‘ کو دیکھ کر (دشت کو دیکھ کے گھر یاد
آیا!) اب خود واپسی کی راہ لینے کی فکر میں ہیں۔
اس لیے؛ خاص اس مسئلہ کی
تفصیل اپنی جگہ، مگر میری گزارش ہو گی کہ ہمارے وہ نوجوان جن کے اذہان میں ایسے ہر
موقع پر فی الفور ایسے سوال اٹھ کھڑے ہوتے اور پھر بڑی دیر تک انہیں پریشان کرتے
ہیں... اسلام دشمنوں کے مدِمقابل کسی اسلامی گروہ کی پیش قدمی پر محض خوش ہوجانے
پر ہی جن نوجوانوں کے ہاں اس انداز کی
فکرمندی اٹھ کھڑی ہوتی ہے کہ اس اظہارِ خوشی سے آدمی کہیں گناہگار تو نہیں ہو
گیا...! ایسے نوجونوں سے میری استدعاء ہو گی کہ اس مسئلہ کے نفس الامر میں جانے سے
پہلے کچھ دیر یہ سوچنے میں صرف کریں کہ ان کے اس اندازِ فکر کا منبع آخر ہے کیا؟
اس اصل مسئلہ پر غور نہ کیا گیا تو اس سے پھوٹنے والی فروع پر بحثیں آپ بےشک بہت
کر لیں گے مگر کوئی مستند عملی راہ سرے تک ناپید رہے گی۔
یہ ایک بہت سنجیدہ سوال
ہے: آپ کی فکری ساخت کن رجالِ علم کے زیرسایہ
ہوئی ہے؟ باقی سوالات جو اِس مسئلہ سے متعلق ہوں یا اُس مسئلہ سے متعلق، اِس
اصل سوال کے بعد۔
*****
اور جہاں تک اس بات کا
تعلق ہے کہ ایک شخص کسی باطل نظام میں شمولیت رکھتا ہے، لہٰذا قطع نظر اس سے کہ
کسی وسیع تر سنیاریو میں وہ مسلمانوں کےلیے کتنا مفید اور اسلام دشمنوں کےلیے کتنا
نقصان دہ ہے، اس کی کسی پیش قدمی پر خوش یا اس کی پسپائی پر ناخوش ہونے کی گنجائش
ہی شریعت میں کہاں ہے؟
تو علاوہ اس بات کے کہ یہ
شریعت کے ساتھ ایک بدگمانی ہے کہ شاید وہ انسان کے فطری احساسات کو دبانے کا حکم
دیتی ہو گی... یہ شریعت سے صریح لاعلمی بھی ہے۔
صاحبو! نظام تو وہ بھی
شاید کوئی ’اسلامی‘ نہیں تھا جس میں اصمحہ نجاشی شامل تھا۔ اُس ’نظام‘ کو باطل
کہنے کے بہت سے دلائل بھی شاید دیے ہی جا سکتے ہیں۔ لیکن اُس ’نظام‘ کے اعلیٰ منصب
پر جو ایک مسلمان فائز تھا اس کےلیے حبشہ ہجرت کر جانے والے مظلوم مسلمان مردوں
اور عورتوں کے دل اُس وقت تقریباً ویسے دھڑکتے تھے جس طرح آج بشار کے ستائے ہوئے
شامی اہل سنت مہاجر مردوں، عورتوں اور بچوں کے دل تُرک سرزمین پر تاحدنظر پھیلی
خیمہ بستیوں میں ہمارے اِس ممدوح کےلیے دھڑکتے ہیں۔ اس سے محبت کرنے والے غزہ کے
ان مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا ذکر فی الحال جانے دیجئے جن پر اوپر سے
صیہونی بمباری کا ہتھوڑا برستا ہے تو نیچے سے سیسی حصار کی مڈھی انہیں اس بمباری
کے نیچے ’قابو‘ کر کے رکھتی ہے، اور جن کا حصار تڑوانے کےلیے ایک بار جب اردگان کے
بحری بیڑے غزہ کے قریب ہی آئے تھے تو فلسطینی مائیں اپنے ان تُرک بیٹوں پر پھول
نچھاور کرنے کےلیے اُسی طرح بےچین ہو رہی تھیں جس طرح کسی دور میں فرڈی ننڈ اور
ازابیلا کی ستائی ہوئی اندلسی مائیں اپنی مدد کو آنے والے خیرالدین باربروسہ کے تُرک
سپاہیوں کی بلائیں لیتی تھیں۔
آپ اس کے راستہ سے اتفاق
نہیں کرتے، بےشک نہ کریں۔ اُس کا اپنا اجتہاد آپ کا اپنا۔ لیکن اس کےلیے دعائےخیر
یا کلمۂ خیر ہی کو شرعاً ممنوع ٹھہراتے پھریں، یہ اس کے ساتھ ہی نہیں شریعت کے
ساتھ بھی زیادتی ہے۔ نیز امت کے ان بےبس طبقوں کے ساتھ زیادتی ہے جو اسے کسی نہ
کسی درجہ میں اپنے لیے سہارا سمجھتے ہیں۔ اور سچ پوچھیں تو یہ آپ کے اپنے ساتھ
زیادتی ہے۔ مسلمان ایسا سنگدل اور ناشکرا کبھی نہیں ہوتا۔ من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ۔
پورے شرقِ اوسط میں مظلوم
مسلمانوں کا سہارا بن رہنے والے ایک بھلے شخص کےلیے اظہارِ خوشی یا اظہاِرتشویش پر
ہی پابندی؟!
مسند احمد میں ام المؤمنین
ام سلمہ کی روایت آتی ہے، جس کی سند کو محدث ارنؤوط نے حسن کہا۔ اس کے آخر میں ام
المؤمنین کے الفاظ ہیں:
فَوَاللهِ إِنَّا عَلَى ذَلِكَ إِذْ نَزَلَ بِهِ يَعْنِي
مَنْ يُنَازِعُهُ فِي مُلْكِهِ. قَالَتْ: فَوَاللهِ مَا عَلِمْنَا حُزْنًا قَطُّ
كَانَ أَشَدَّ مِنْ حُزْنٍ حَزِنَّاهُ عِنْدَ ذَلِكَ تَخَوُّفًا أَنْ يَظْهَرَ
ذَلِكَ عَلَى النَّجَاشِيِّ فَيَأْتِيَ رَجُلٌ لَا يَعْرِفُ مِنْ حَقِّنَا مَا
كَانَ النَّجَاشِيُّ يَعْرِفُ مِنْهُ. قَالَتْ: وَسَارَ النَّجَاشِيُّ
وَبَيْنَهُمَا عُرْضُ النِّيلِ قَالَ: فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَجُلٌ يَخْرُجُ حَتَّى يَحْضُرَ وَقْعَةَ
الْقَوْمِ، ثُمَّ يَأْتِيَنَا بِالْخَبَرِ. قَالَتْ: فَقَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ
الْعَوَّامِ أَنَا. قَالَتْ: وَكَانَ مِنْ أَحْدَثِ الْقَوْمِ سِنًّا قَالَتْ:
فَنَفَخُوا لَهُ قِرْبَةً فَجَعَلَهَا فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ سَبَحَ عَلَيْهَا
حَتَّى خَرَجَ مِنْ نَاحِيَةِ النِّيلِ الَّتِي بِهَا مُلْتَقَى الْقَوْمِ، ثُمَّ
انْطَلَقَ حَتَّى حَضَرَهُمْ. قَالَتْ: وَدَعَوْنَا اللهَ تَعَالَى لِلنَّجَاشِيِّ
بِالظُّهُورِ عَلَى عَدُوِّهِ وَالتَّمْكِينِ لَهُ فِي بِلَادِهِ، وَاسْتَوْسَقَ
عَلَيْهِ أَمْرُ الْحَبَشَةِ، فَكُنَّا عِنْدَهُ فِي خَيْرِ مَنْزِلٍ۔
(مسند أحمد رقم 1740۔ ویب لنک: http://goo.gl/fsglHg)
بخدا ہم
اسی حال میں تھے کہ نجاشی سے بادشاہی چھیننے کےلیے ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ام
المؤمنین کہتی ہیں: تو بخدا اس سے زیادہ سخت پریشانی ہم نے کبھی نہ دیکھی ہو گی جو
اس وقت دیکھی۔ اندیشہ یہ کہ وہ شخص اگر نجاشی پر غالب آگیا تو یہاں ایک ایسا آدمی
برسراقتدار ہو گا جو ہمارا وہ حق ہی نہیں جانتا مانتا جو نجاشی کے ہاں مانا جاتا
تھا۔ فرماتی ہیں: نجاشی لشکر کشی کرتا ہوا دریائے نیل کے پار چلا گیا۔ تب رسول
اللہﷺ کے ساتھی آپس میں کہنے لگے: کون آدمی ہے جو جاکر ان لوگوں کا معرکہ دیکھ کر
آئے اور ہمیں خبر کرے؟ کہتی ہیں: تب زبیر بن العوام بولے: میں (جاتا ہوں)۔ فرماتی
ہیں: یہ پوری جماعت میں سب سے کم سن تھے۔ فرماتی ہیں: تب صحابیوں نے ایک مشکیزے
میں پھونک بھر دی۔ زبیر نے وہ مشکیزہ سینے کے ساتھ لگا لیا اور اس پر تیرتے چلے
گئے یہاں تک کہ نیل کے اس پار جا پہنچے جہاں اُن لوگوں کی مڈبھیڑ ہو رہی تھی۔ پھر
وہاں سے نکل پیدل اُس جگہ تک پہنچے۔ فرماتی ہیں (اس دوران) ہم نجاشی کےلیے دعائیں
کرتے رہے کہ وہ اپنے دشمن پر غالب آئے اور اپنے ملک میں تمکین پائے۔ آخر حبشہ کا
اقتدار اس کےحق میں استوار ہو گیا، اور ہم اُس کے یہاں خوب آرام میں رہے‘‘۔
*****
اگر آپ علم اور علماء سے
منسلک ہیں... تو ’معروضی‘ صورتحال کا نظر میں رہنا ان سب مباحث میں جانے کےلیے ایک کلید کی حیثیت
رکھتا ہے۔بہت کچھ ایک ’دی ہوئی‘ صورتحال میں ناجائز ہو گا تو ایک دوسری ’دی ہوئی‘
صورتحال میں جائز اور شاید واجب بھی ٹھہرے۔ پس یہ ہرگز ضروری نہیں کہ رجب
اردگان کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے والے علماء اور داعی اپنے اِس عمل سے ایک
نظام کو درست ہونے کا بھی سرٹیفکیٹ دے رہے ہوں۔ البتہ اگر آپ ایسے آزاد مرد
علماء اور داعیوں کی بابت جاننا چاہیں جو ترکی میں اسلامی سیکٹر کی حالیہ پیش قدمی
پر نہایت کھل کر اظہارِ مسرت کرتے ہیں اور یہاں اس کی کامیابی کےلیے خوب خوب دعاگو
ہیں... تو میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ ایسے علماء اور داعیانِ عقیدہ کی تعداد
عالم اسلام میں شمار سے باہر ہے۔
پس کسی جگہ یا زمانے کی
’معروضی‘ صورتحال وہاں کے تحریکی مباحث کو طے کرنے میں ایک مرکزی حیثیت رکھنے والا
سوال ہے۔
یہاں ایک عرب اسلام پسند
کا ٹویٹ قابل ذکر ہے جو ایک چلبلے لبرل کے جواب میں آیا۔ سعودی لبرل نے اپنے ملک
کے اسلام پسندوں کو خوش ہوتا دیکھ کر سوال اٹھایا تھا:
کیا تم اپنے ملک کےلیے پسند کرو گے کہ اردگان ایسا ایک شخص
یہاں سیکولر دستور چلائے اور ترکی ایسی سیکولر آزادیوں اور ویسے ہی مغربی مظاہر کا
اجراء کر ڈالے؟
اسی لبرل کا ایک دوسرا
ٹویٹ تھا:
سعودی
عرب میں اسلام اسلام کرنے والے، آج ایک ایسے حکمران کےلیے خوشیاں کر رہے ہیں جو
ایک سیکولر نظام چلاتا اور اس میں ویسی قانون سازی کرواتا ہے، جس کو خود یہ اپنے
ملک کےلیے مسترد کرتے ہیں۔
اس پر ہمارے اس عرب اسلام
پسند کا جواب تھا: (https://goo.gl/mF6Mui)
بیٹا! فرق
ہے ایک مسلمان جو سیکولر ماحول میں پیدا ہوا اور وہ اسے وہاں درست کرنے کی کوشش
میں ہے، بنسبت اس مسلمان کے جو ایک مسلم ماحول میں سیکولرزم کا مطالبہ کرنے لگتا
ہے۔ سمجھے یا بلیک بورڈ لاؤں؟