فصل11
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
دارالاسلام
میں شعائرِکفر کا کھلے عام ہونا
چنانچہ حضرت عمر نے اتفاق فرمایا تھا،
جس میں عمرؓ اکیلے نہ تھے بلکہ سب مسلمان اُن کے ساتھ تھے، پھر اسی پر بعد کے جملہ
مسلمان علماء کا اتفاق رہا، نیز جن جن والیوں اور حکمرانوں کو خدا نے نیک توفیق
بخشی اُن کاعمل بھی اِسی پر رہا کہ: کہ ذمیوں کو اس بات سے روکا جائے گا کہ دار الاسلام
کے اندر وہ کسی ایسی شےء کو کھلے عام کریں جو اُن کے امتیازی امور میں آتی ہو۔ جس
سے اس بات کو آخری حد تک یقینی بنانا مقصود تھا کہ دارالاسلام میں مشرکین کے
امتیازات ظاہر وباہر نہ ہوں۔ تو پھر اس بارے میں کیا خیال ہے کہ مسلمان ہی ان
اشیاء کا ارتکاب بھی کریں اور ان کو ظاہر وباہر بھی کریں!
(کتاب کا صفحہ 330
)
جبکہ اہل کوفہ تو اِس معاملہ میں بہت
آگے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام ابوحنیفہ کے اصحاب نے ایسے شخص کے کافر ہوجانے کی
بابت گفتگو کی ہے جو کفار کے ساتھ اُن کے پہناوے یا اُن کے تہواروں کے معاملہ میں
مشابہت کا ارتکاب کرتا ہے۔
اور جبکہ امام
مالک کے بعض اصحاب اِس قول تک چلے گئے ہیں کہ: جو شخص کفار کے تہواروں پر کوئی
ایک تربوز
کاٹ دے وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کردیا ہے۔
جبکہ شافعی کے اصحاب نے بھی اِسی اصل
کا اپنے بے شمار مسائل کے اندر ذکر کیا ہے، اور جوکہ آثار و مرویات میں وارد ہوئے
ہیں۔ ایسی ہی بات دیگر علماء نے بھی بیان کی ہے۔ جیساکہ یہ علماء نبیﷺ کی یہ حدیث
ذکر کرتے ہوئے جس میں آپ ﷺ طلوعِ آفتاب یا غروبِ آفتاب کے وقت نماز سے ممانعت
فرماتے ہیں، یہ توجیہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہے جب مشرکین سورج کو سجدہ کرتے
ہیں، جیساکہ حدیث ہی میں ایک جگہ یہ صراحت ہوئی ہے۔ مراد یہ کہ کفار کی مشابہت
ایسی مکروہ چیز ہے کہ نماز تک کی بابت کہا گیا کہ اس گھڑی ٹھہر جاؤ۔
امام احمدؒ نے بھی کفار سے موافقت اور
مشابہت کو حرام ٹھہرانے کے معاملہ میں نہایت شدید کلام کیا ہے۔
(کتاب کا صفحہ
354 تا 356)