السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم قارئین، حال ہی ہونے والے پیرس
حملوں کے بعد منظر عام پر آنے والا عالمی رد عمل بیشتر جہتوں سے ہمارے لیے خواب
غفلت سے جاگنے کا موجب ہونا چاہئے۔ یک لخت اقوام عالم کا ضمیر شہری آبادی پر ہلاکت
کے خلاف سراپا احتجاج نظر آنے لگا ہے۔ حملہ آور دہشت گرد بعد میں اور مسلمان پہلے
گردانے گئے ۔اسلام دشمنی کے حوالے سے کفار
کا یہ ایکا کچھ ایسا باعث تعجب نہیں ۔ البتہ سوشل میڈیا پر پروفائل پکچرز تبدیل کر
کے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت
کرنے میں ہمارے مسلمان بہن بھائی خاصے حریص نظر آئے۔
ایمان کی رتی برابر رمق رکھنے والا دل
یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہی جذبۂ انسانیت شام، فلسطین، برما، وسطی
افریقہ میں مسلم نسل کشی کے دوران کہاں مفقود ہو جاتا ہے ؟ فرانس اگلے روز ہی شام
میں نہتے مسلمانوں پر بمباری شروع کرتا ہے تب انسانیت کے علمبردار کہاں فرار ہو
جاتے ہیں؟ عالم مغرب میں اسلاموفوبیا کی یلغار پر یہ درد مند لبرلز اپنے دلائل
سمیت کہاں پائے جاتے ہیں؟ہر ذی شعور مسلمان کو خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ کیا
وجہ ہے کہ مسلم خون ہر جگہ ارزاں ہے مگر جب ضرب اپنوں پر پڑتی ہے تو درد کی ٹیسوں
سے پورا مغرب کراہنے لگتا ہے اور توپوں کا رخ بلا تحقیق امت مسلمہ کی جانب موڑ دیا
جاتا ہے؟
ان حالات میں جبکہ مسلمانوں
پر ہر طرف سے زمین تنگ کی جا رہی ہے ، ترکی میں اردغان کی فتح عالم اسلام
کیلئے بشارت عظمی ہے ۔اردغان کے اپنے
الفاظ میں یہ صرف ترکی کے اسلام پرستوں کی نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی فتح ہے
جبکہ عالم کفر کی نظریں ترک انتخابات پر اس امید سے لگی تھیں کہ لبرلسٹ جماعت
کامیابی سے ہمکنار ہو اور یوں ترکی میں اسلامسٹ لہر اپنے انجام کو پہنچے اور عالم
اسلام کی فی الوقت آخری امید کا چراغ بھی گل ہو جائے مگر مشیت ایزدی یہی تھی کہ حق
کے نام لیوا وں کا مقدر فتح مبین ٹھہرے اور انقلاب اسلامی کی حامل جماعت کے سرفروشان کفار کےسینوں پر مونگ دلتے
رہیں!
اپنے اِس خطے کی طرف آئیے تو یہ تلخ حقیقت کلیجے کو آتی ہے کہ
مسلم برِ عظیم میں "مسلمان" کی
بےبسی آج عروج کو جا پہنچی ہے:
v اُدھر گائے
قربان نہیں کر سکتے اور حق تو یہ ہے کہ "مسلمان" کی حیثیت میں سانس نہیں
لے سکتے۔
v اُدھر سن 71
میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو پھانسیاں؛ جس پر کوئی انہیں پوچھنے والا اور
روک ٹوک کرنے والا بھی نہیں۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان جس کی محبت میں وہ قربان ہوئے،
اس ظلم پر ڈھنگ سے آواز اٹھانے تک کا روادار نہیں۔
v اِدھر
پاکستان کو اس کی قربانیوں سمیت لبرلزم کی بھینٹ دینے کی کوششیں۔
خداوندا... برعظیم میں تیرے یہ نصف ارب مسلمان بندے کہاں
جائیں!
امت کے اس مدو جزر کے دور میں راوی جب فرزندان
توحید کی قربانیوں کی تاریخ رقم کرے گا تو اس میں جلی حروف میں سرزمین بنگال کے ان
شہداء کا نام ہو گا جو امت کی بےحسی کی نذر ہوئے۔ جن کا جرم محض جابر حکمران کے
سامنے سر خم کرنے سے انکار کرنا تھا۔جو رکے تو کوہ گراں تھے، جو چلے تو جاں سے گزر
گئے۔پروفیسر غلام اعظم، عبدالقادر ملا، علی احسن مجاہد، صلاح الدین چوہدری رحمہم
اللہ رحمۃ واسعۃ اپنے خون سے شجاعت و
عزیمت کی ایک سوانح رقم کر گئے ہیں ۔ قرائن ثابت کر رہے ہیں کہ ظلم کی رات بہت
طویل ہو چکی ، اہل ٍصدق و صفاکی قربانیاں رائیگاں جانے والی نہیں اور وہ وقت دور
نہیں جب ظالموں کی رسی دراز ہونے والی ہے
،سنت خداوندی غالب آنے والی ہے اور انصاف کا کٹہرا سجنے والا ہے جہاں باطل
کو منہ کی کھانی پڑے گی اور آخری فتح حق کی ہو گی ..ان شاءالله ..
سنة الله، ولن تجد لسنة الله
تبديلا ...
تحریر: عائشہ جاوید