عالم اسلام کی حکومتوں میں رافضہ کی ’ظاہری شرکت‘
ایک باقاعدہ عقیدہ؟!
تحریر : ڈاکٹر ناصر بن عبد اللہ
القفاری
اردو قالب : عبد
اللہ آدم
بےشمار شواہد
خود ہمارے اِس دور میں موجود ہیں کہ اس گروہ کا ایک آدمی خواہ کسی قوم یا کسی ملک
یا کسی حکومت کا حصہ ہو، اس کی اصل وفاداری کہیں ’اور‘ ہوتی ہے۔ یہ یونہی نہیں؛
آئیے اس خطرہ کی کچھ عقائدی جڑیں دریافت کرتے ہیں۔ کوئی نادانی سے اپنا نقصان کرنے
پر ہی مصر ہو تو اور بات ہے۔ (ادارتی نوٹ)
"حکومتوں میں ظاہر
کی شرکت" کی اصطلاح موجودہ مملکت
خمینی کا تحفہ ہے۔ سیاست کی لغت میں اس کا مفہوم ولی فقیہ کی حکومت کے لیے جاسوسی
اورا یجنٹی کرنا ہے۔ صفوی ٹولے کے نزدیک
حقیقت میں ولی فقیہ کی حکومت کے علاوہ کسی
بھی حکومت میں داخلہ حرام ہے۔ کیونکہ باقی تمام حکومتیں خواہ کتنی بھی عدل و انصاف
کرنے والی ہوں اِن کے معیارات کے مطابق ظالم و جابر اور غیر شرعی ہیں۔
خمینی کا 'فرمان' ہے: "تقیہ کی رو سے اگرچہ حکومتوں میں شمولیت کا راستہ ہی لازم ٹھہرتا ہو
لیکن پھر بھی ان میں شامل ہونا جائز نہیں ہے، اگرچہ اس میں جان ہی کیوں نہ چلی
جائے۔ ہاں! اگر حکومت میں شامل ہونے
میں اسلام اور مسلمین(شیعہ اور اہل تشیع)
کی حقیقی نصرت و مدد نظر آ رہی ہو تو درست
ہے ، مثلاََجیسے علی بن یقطین اور نصیر
الدین طوسی نے شمولیت اختیار کی۔"[i] مزید لکھتا
ہے:" ظلم کی روک تھام یا اہل اقتدار
کے خلاف انقلاب کے مقصد کے تحت تو فطری
طور پر اسلام کے لیے ظالم حکومتوں میں
داخلہ روا ہونا چاہیے ۔"[ii] خمینی کا تجویز کردہ
" حکومتوں میں مشروط شرکت" کا نظریہ جسے وہ اپنے پیروکاروں کے لیے نمونہ کے طورپر پیش کرتا ہے،
درحقیقت مکر و فریب پر مبنی ابن علقمی اور نصیر الدین طوسی کا
'اسوہ حسنہ' ہے جس کے ذریعے انہوں
نے خلیفہ ِ بغداد کو دھوکا دیا اور امت
کو اس عظیم ذلت و رسوائی تک پہنچایا جس کی انتہا عباسی خلافت کے سقوط ،خلیفہ کے قتل اور ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام پر ہوئی۔
مختصر یہ کہ ابن علقمی آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کا
وزیر 'با تدبیر' تھا۔مستعصم اپنے آباء و اجداد کی طرح اگرچہ سنی تھا لیکن اس کے
ہاں بیدار مغزی اور اہل ِباطل کی ریشہ دوانیوں سے آگاہی مفقود
تھی۔ اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابن علقمی
رافضی نے خلافت کا قصہ تمام کرنے اور اہل
سنت کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرکے اپنے مذہب کی حکومت قائم کرنے کی منصوبہ
بندی کی اور اس مقصد کے لیے وزارت تک رسائی حاصل کی۔ خلیفہ اس کی سازشوں سے غافل
ہی رہا اور رفتہ رفتہ ابن علقمی اس کا
مقرب بن گیا۔ ابن علقمی کا منصوبہ تین مراحل پر مشتمل تھا:
پہلا مرحلہ: فوج کو کمزور کرنا اور عوام الناس کو اذیت میں مبتلا کرنا۔ ابن
کثیرؒ لکھتے ہیں:" وزیر ابن علقمی نے افواج کی طاقت کمزور کرنے کےلیے دفتر
ِحکومت سے سپاہیوں کے نام خارج کرنے شروع کر دیےا ور اس عمل کو برابر جاری رکھا ۔
آخر کارنوبت یہاں تک آئی کہ جس فوج کی
تعداد مستنصر کے دور میں ایک لاکھ ہوا
کرتی تھی ، گھٹ کر محض دس ہزار تک رہ
گئی!" [iii]
دوسرا مرحلہ: تاتاریوں سے خط و کتابت۔ " پھر اس
نے تاتاریوں کو لکھ کر شہروں پر حملے کے لیے اکسایا اوراس مقصد کے لیے آسانیاں پیدا کیں، وہ تاتاریوں کو مسلمانوں کے اندرونی حالات
اور کمزوریوں سے آگاہ کیا کرتا تھا۔"[iv]
تیسرا مرحلہ: تاتاریوں
سے قتال کر روکنا اور اہل اسلام اور خلیفہ کے حوصلے پست کرنا۔ ابن علقمی نے عامۃ
المسلمین کو بھی تاتاریوں سے لڑنے سے روکا[v] اور خلیفہ اور اس کے حواریوں کو الگ سے سبز باغ
دکھاتا رہا کہ تاتاری بادشاہ عراق کے نصف خراج کے عوض صلح کا خواہاں ہے۔ اس امید
پر خلیفہ سات سو سواروں کو لے کر تاتاریوں
کے پاس حاضر ہو گیا جس میں اہل قضاء، فقہاء اور امراء و معززین شامل تھے۔ دوسری
طرف انہی روافض اور دیگر منافقین نے ہلاکو خان کو خلیفہ سے مصالحت نہ کرنےپر قائل کیا۔
اس سلسلے میں ابن علقمی کا عذرِ گناہ بدتر از گناہ ملاحظہ ہو، اس نے کہا:" آج
تک نصف خراج پر کی گئی صلح دو سال سے
زیادنہیں چل پائی،اس کے بعد پھر پہلے جیسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔" پھر
خلیفہ کے قتل کو بڑا بنا سنوار کر پیش کیا تاکہ تاتاری اس نیک کام میں دیر نہ
کریں۔ تاریخ بیان کرتی ہے کہ یہ سب کارنامہ ابن علقمی اور طوسی ہی کے سر ہے[vi] اس طرح خلیفہ سمیت تمام قیادت
ادنیٰ مزاحمت کے بغیر موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔
پھر تاتاری شہر بغداد کی طرف بڑھے اور بلا تخصیص مرد، عورت،
بچہ ،بوڑھا جو ہاتھ لگا ذبح کردیا گیا۔ کوئی بچ پایا تو صرف یہودی عیسائی یا ابن
علقمی اور طوسی کے حضور التجائیں کر کر کے اپناآپ بچا لینے والے چند خوش نصیب! [vii] کم و بیش 90 ہزار مسلمان تہہ تیغ کر دیے گئے۔بنو ہاشم کا
قتل عام ہوا، عباسی اور غیر عباسی خواتین کی بے حرمتی کی گئی[viii]، خطباء اور ائمہ و قراء کسی کو معاف نہیں کیاگیا اور
مہینوں بغداد کی مساجد میں جمعہ جماعت نہ ہو سکی۔[ix] یہ تاریخ اسلام کا
بدترین سانحہ تھا۔
ابن علقمی کا ہدف سُنِّیت کا مکمل
خاتمہ کر کے رافضیت کا بول بالا کرنا تھا۔اس کے پیش نظر مساجد و مدارس کو ختم کر کے رافضیت کی تبلیغ کے
لیے ایک فقید المثال درسگاہ قائم کرنا تھا لیکن سقوط بغداد کے چند ماہ بعد ہی
اللہ نے اس کی عمر سلب کرلی اور اس کا
بیٹا بھی چل بسا۔[x]
اس ہولناک سانحے اور بدترین خیانت کے سارے قصے میں بعض اہل
سنت کا اپنے بدترین دشمن رافضیوں کے بارے میں حد درجہ غفلت و لاپرواہی کا رویہ اور دوسری طرف روافض کا شدید بغض اور
اہل سنت سے روا رکھا گیا مکر و فریب قابل غور ہے۔ نمک حرام ابن علقمی کوئی چودہ سال سے خلیفہ کا وزیر تھا اور اسے دیگر
وزراء کی نسبت بلند تر مقام حاصل تھا لیکن یہ مہربانیاں اور عنایات اس کے اہل سنت سے بغض و عناد کو کم کر سکیں نہ
اتنی شرم دلا سکیں کہ وہ مکر و فریب سے رُکا رہے۔
یہ ہے وہ عظیم المیہ جس پر خمینی خوشی
کے شادیانے بجاتا ہے، اسے اسلام اور مسلمانوں کی عظیم خدمت قرار دیتے نہیں تھکتا
اور اس کے ماسٹر مائنڈ ابن علقمی اور نصیر
الدین طوسی کے آج نہ ہونے پر حسرت بھری آہیں بھرتا نظر آتا ہے۔لکھتا ہے:" اہل
اسلام(شیعہ) کواسلام کے لیے جلیل القدر خدمات انجام دینے والے خواجہ نصیر الدین
طوسی اور ان جیسے دیگر حضرات کی غیر موجودگی سے ہونےوالے نقصان کا پوری طرح احساس
ہے۔"[xi]
یوں خلافت کا سقطوط ان کے نزدیک 'جلیل القدر
'خدمت ہے ۔ جبکہ صرف سنی ہی نہیں بلکہ
شیعہ، بنو ہاشم اور حتیٰ کہ اہل بیت
سمیت تمام مسلمانوں کا مجنونانہ قتل
عام کیاگیااورحتیٰ کہ اِن 'خدمات' کے نتیجے میں اُن بنو ہاشم اور اہل
بیت تک کا قتل اور
خواتین کی بے حرمتی کی گئی جن کے نام کی مالا جپتے یہ تھکتے نہیں ہیں... "کیا یہ ہیں
آل رسول سے محبت کرنے والے جو آل رسول
سمیت عام مسلمانوں پر قتل و ہرج مسلط کرنے
والے ہیں؟"[xii]
صفوی مملکت کے شیخ الخوانساری نے ان 'خدمات' کی نقاب کشائی
کی ہے جو یہ 'خادمین' آج بھی عالم اسلام
کے دارالحکومتوں میں انجام دینے کی سرتوڑ کوششیں فرما رہے ہیں۔ طوسی کا تعارف
کرواتے ہوئے خوانساری رقمطراز ہے:"اسی طرح مشہور و معروف ہے کہ طوسی نے صاحبِ
عزت سلطان ہلاکو خان کی وزارت اختیار کی جبکہ دوسری طرف وہ بغداد میں خلقِ خدا کی
ہدایت و ارشاد اور بادشاہِ بنو عباس کو اکھاڑ پھینکنے کی کمال استعداد بھی رکھتے تھے۔پھر خلیفہ کے رذیل
پیروکاروں کے خون کی ندیاں بہا دینے کا مطالبہ بھی طوسی ہی نے کیا جس کے نتیجے میں
دجلہ ان کے لہو سے سرخ ہو گیا اور تباہی کا گھر جہنم ان کا مقدر ٹھہرا"[xiii]
غور فرمائیں ! طوسی کے صفوی مداح اُس کے مکر و فریب اور اہل اسلام کے قتل عام کے لیے اس
کی 'عظیم خدمات' کو اس کو کیسے اس کے فضائل کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس طرح ان
کے نزدیک قتلِ عام کا نام'ملک و قوم کی اصلاح' ہے اور جو مسلمان
شہید کر دیے گئے 'جہنم ان کا مقدر ٹھہرا'۔پھر بت پرست ہلاکو خان 'سلطانِ محتشم'
اور مددگار جبکہ اس کی سپاہ جنت مکانی ٹھہرتی
ہےکہ اس نے روافض کے ابلتے ہوئے سینوں کو خون مسلم کے سمندر سے ٹھندک بخشی...!
یہ ہے ان کے غیض و مکر کی شدت کہ مسلمانوں کا قتل ان کی اولین ترجیح ہے اور امت
اسلام کے بجائے کفار ان کے قریبی ہیں۔
دوسرا شخص جس کی عظیم خدمات کو خمینی نے خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس کے گن
گائے ہیں ،وہ علی بن یقطین ہے۔ اس شخص نے ہارون الرشید کی حکومت میں شامل ہو کر اس
کا قرب حاصل کیا اور اس عہدے پر وزیر مقرر ہو گیا جسے آج ہم وزیر داخلہ کہتے ہیں۔
جیل خانو ں کا پہلا ذمہ دار یہی علی بن یقطین تھا۔ اس آستین کے سانپ نے اپنی قید
میں موجود پانچ سو سنی مسلمانوں کو ایک ہی رات میں اس طرح شہید کروا دیا کہ اسکا
سراغ لگانا مشکل تھا۔یہی وجہ ہے کہاکثر اہل سنت مؤرخین اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے
نظر نہیں آتے۔ دوسری طرف روافض میں اس کا یہ مکروہ جرم سینہ بسینہ منتقل ہوتا رہا
اور عامۃ الناس پر ظاہر نہ ہو سکا۔ یہاں تک
کہ صفوی رافضی حکومت (1501ء تا 1736ء)کے قیام کے بعد
نعمت اللہ الجزائری(عراق کے ایک علاقے الجزائر کی طرف منسوب) نامی رافضی عالم نے
اس ہولناک سانحے کو بڑے فخر و انبساط سے نقل کیا ۔ الجزائرئ لکھتا ہے:" علی
بن یقطین ہارون الرشید کا وزیر تھا۔ اس نے
اپنے مخالفین کی ایک جماعت کو قید میں ڈالا۔ پھر اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ قید
خانے کی چھت گرا دی جائے، اِس سے تمام قیدی ہلاک ہو گئے جن کی تعداد قریبا پانچ سو
تھی۔ اب اس نے ان لوگوں کے خون سے بری
ہونا چاہا تو امام موسیٰ کاظمؒ کو لکھوا
بھیجا ، جواب میں امام نے کہا کہ اگر تم اس قتل سے پہلے میرے سامنے پیش ہو جاتے تو
تمہاری گردن پر کوئی خون نہ ہوتا ،لیکن تم نے ایسا نہیں کیا اس لیے اب ان مقتولوں
کے بدلے بکریوں کا کفارہ دے دواگرچہ بکری بھی ان سے بہتر ہے۔[xiv]
ملاحظہ فرمائیں کہ کیسے ان کا امام یا
خفیہ تنظیم کا لیڈر پانچ سو مسلمانوں کے قتل کو صرف اس لیے
درست قرار دے رہا ہے کیونکہ وہ اس کے مذہب پر نہیں تھے، اس کے بعد بغیر اجازت قتل کرنے پر بکریوں کا کفارہ دینے کاحکم دے کر'شرعی تقاضا'
پورا کرتا ہے اور اگر امام کی اجازت سے قتل فرمایا جائے تو ان 'جانوروں' کی بکری جتنی اہمیت بھی نہیں
ہے!!!
ہم جناب ِموسیٰ کاظمؒ اور اہل بیت کو بے گناہوں کے خون سے
قطعاََ بَری سمجھتے ہیں، مذکورہ بالا حکایت ان پر باندھا گیا جھوٹ ہے جو باطنیہ کی
کارستانی کے سوا کچھ نہیں، یہ ایسی حققیت ہے جس کا خود انہوں نے بھی اعتراف کیا
ہے۔ ان کی کتابوں میں منقول ہے کہ حضرت
ِموسیٰ کاظمؒ پر اس افترا پردازی کا مُوجد
ہشام بن حکم ہے اور یہ موسیٰؒ کے قتل میں
بھی ملوث تھا۔اس کذاب نے ہی مشہور کیا کہ
امامت کے بارے میں جو کچھ یہ کہتا ہے وہی موسیٰؒ
کا موقف ہے۔اس کے کرتوت بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ خلیفہ مہدی کو اسے قید کرنا
پڑا۔ پھر ایک عرصے بعد موسیٰؒ اور ان کے خانوادے سے تعلق نہ رکھنے کا عہد لے کر
رہا کیا گیا جس پر اس کا کہنا تھا:" واللہ ! نہ ہی میں اس لائق ہوں اور نہ
اپنے بارے میں ایسی بات کرتا ہوں۔"[xv]
علی بن یقطین کے اس شنیع جرم تک بالآخر عدالت اور قانون کی رسائی
ہو گئی اور حقیقت کھل گئی، چنانچہ طبریؒ نے لکھا ہے کہ اسے زندقہ کے جرم میں قتل
کر دیا گیا۔[xvi]
دیکھیے کس طرح یہ صفوی رافضی اہل سنت کے مابین بود و باش
بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے عوام اور حکومت دونوں سے مکر و فریب کا ادنیٰ سا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، خود ان کے
اعترافات اس پر شاہدِ عادل اور شواہد درجہ ثبوت کو پہنچ چکے ہیں!
علی بن یقطین کا کارنامہ بیان کرنے کے بعد الجزائری 'دیۃ التیس' یعنی بکری کے بطور دِیّت دینے کے
حوالے سے یوں گویا ہوتا ہے:"اس عظیم
دیت(کفارے) کو تو دیکھو جو ان (سنیوں)کے چھوٹے بھائی شکاری کتے کے کفارے کے برابر
بھی نہیں ہے جس کی دِیّت 20 درہم ہے۔ ان
کے بڑے بھائیوں یہودیوں ، عیسائیوں اورمجوسیوں
کی دِیّت بھی 600 درہم ہے اور یہ
بھی ان
کی دِیّت سے کہیں زیادہ ہے جبکہ آخرت میں کہیں زیادہ سختی اور خستہ حالی ان
کے انتظار میں ہے۔"[xvii]
ان ہفوات کی حقیقت
حال واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ سطریں خود چیخ چیخ کر روافض کے اہل
اسلام کے خلاف عناد کی کہانی بیان کر رہی ہیں کہ کیسے وہ مجوسیوں سے بھی بڑے کافر
ہیں!
آج کی صورتحال میں
تو ویسے ہی سیاہ عمامہ اور سیاہ دل
صفوی پیشواؤں اور آسمانِ قم پر گردش کرتے
ولایت فقیہ کے چیلوں چانٹوں نے ہر مخالف
کی تکفیر اور قتل کے فتاویٰ صادر فرمارکھے ہیں۔چنانچہ روافض کو اس 'نیک کام' کے لیے کسی اجازت کی
ضرورت بھی باقی نہی رہی ہے۔
ان خونی فتووں، فریبی ماتموں اور جھوٹی حکایات کے جلو میں
چلنے والوں کے دل بغض و عناد سے بھرے پڑے
ہیں جس کے زیر اثر یہ امت کو اپنی وحشیانہ
اذیت پسندی کا نشانہ بنانے میں کسی عہد کا خیال کرتے ہیں نہ قرابت داری کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔ آج
عرق، یمن اور شام میں جو حادثات ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،یہ سب روافض کے "حکومتو ں میں مشروط شرکت"
ہی کے ثمرات ہیں جس کی نصیحت اور وصیت خمینی صفویوں کو کی گئی ہےتاکہ وہ طاقت کے
سرچشموں پر قبضہ جما کر امت محمد پر شمشیر زنی کی مشق کر سکیں!!!
اصل (عربی) مضمون:
الدخول الشكلي في الحكومات: http://albayan.co.uk/MGZArticle2.aspx?ID=4471
[i] الحكومة
الإسلامية مؤلفہ
خمینی: ص142.
[ii] الحكومة
الإسلامية: ص146.
[iii] البداية
والنهاية: 13/202.
[iv] البداية
والنهاية: 13/202.
[vi] ہلاکو نے جس وقت قلعہ آلموت (حسن
بن صباح کے پیروکار) اسماعیلیوں سے لیا، اُس وقت نصیر الدین طوسی ہلاکو کے پاس
تھا، ہلاکو نے اسے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔(ابن كثير/ البداية والنهاية 13/201).الحكومة الإسلامية:
ص142.
[vii] البداية
والنهاية: 13/201-202.
[ix] البداية
والنهاية: 13/203.
[x] البداية
والنهاية: 13/202-203.
[xi] الحكومة
الإسلامية: ص128.
[xii] منهاج
السنة النبوية: 5/155.
[xiii] روضات الجنات: 6/300-301، نصیر الدین طوسی کی تعریف و توصیف روافض کے ہاں
اور بھی مصادر میں مذکور ہے مثلا دیکھیے: مستدرك الوسائل للنوري الطبرسي: 3/483، الكنى والألقاب للقمي: 1/356.
[xiv] الأنوار
النعمانية: 2/308.
[xv] البداية
والنهاية: 10/183.
[xvi] انظر:
تاريخ الطبري: 8/190.
[xvii] الأنوار
النعمانية: 2/308.