یافت!
تحریر : احمد شاکرؔ
سنگلاخ
اور بے آب و گیاہ کوہساروں کی خاک چھانتا، اندھیروں سے لڑتا، ٹھوکریں کھاتا،
ڈگمگاتا،حال بے حال شخص یکا یک جنت سی وادی میں جاپہنچے تو اس کی حیرت کی انتہا بھی
کوئی انتہا ہوگی! ہزار ہا رنگوں اور ہزار ہا خوشبوؤں سے بنی اس جنت کی ہر ہر چیز
اسے جکڑ لینے ، گم کردینے اوراپنا اسیر بنا لینے کے لیے کافی
ہوگی۔کچھ ایسا ہی معاملہ توحید کا ہے۔
کوئی
فلسفوں، رواجوں، رسموں اور روایتوں کے بے رحم سلسلےعبور کرتے اس کی جنت میں جا
پہنچے جس کی مٹی اس کی آبلہ پائی کی شفا
ہو، جس کے منظراس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں، جس کا پانی اس کی سلگتی ذات کے لیے آبِ حیات ہو تو اس کی خوشی ناقابلِ
بیان نہ ہو تو اور کیا ہو!
اس باغِ
اِرم کے پھولوں میں ہزار رنگ ہوں اور ایک رنگ میں ہزار اور رنگ ہوں تو کیا وہ ایک
پتی ہی کو پکڑے دیکھتا نہ
رہ جائے گا! ایک کے بعد ایک رنگ کو دیکھ لینا، ایک کے بعد ایک خوشبو کو
پالینا ، ایک کے بعد ایک روشنی کو دیکھ لینااس کے لیے کتنا حیرت انگیز ہوگا... دور
بیٹھے اس کا صرف تصوّر ہی ممکن ہے!
اس وادی
میں عرصے سے بسنے والا کوئی شخص نووارد کا ایک نئی روشنی دیکھ لینے،ایک نیا رنگ
دریافت کرلینے ، ایک نئی خوشبو پالینے پر
وفورِ حیرت سے بے قابو ہونے پر ضرور مسکرائے
گااور شائد اپنے جی میں کہے گا کہ ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے کہ ایک اکیلے
پتے پر ہی جان ہار دی...! ابھی تو مقام ہائے حیرت
بہت باقی ہیں...!
ہاں!اس
جنت میں سیر کے لیے ہمت چاہیے، حوصلہ چاہیے، ایسی نظریں چاہییں جو ایک نگاہ میں
ہزار رنگوں کو بسا سکیں۔ ایسے پُر شوق قدم
چاہییں جو ہر کوچے کی سمت بےدھڑک اٹھ سکیں۔ سچے، خالص، بے کھوٹ، کھرے اور سیدھے
دِل چاہییں۔ایسے زرخیز دِل ، جو آسمان سے
برستی بارش کو جذب کرلیں اور پھر اس سے طرح طرح کی جنتیں اگ آئیں!
أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ
بِقَدَرِهَا (الرعد:۱۷)
"اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا تو
ہر ندی نالہ اپنی اپنی گنجائش کے مطابق اسے لے کر چل نکلا"
دلوں
میں دل!
گڑھے والوں کے دِل ، بیعت والوں کے دِل،کھیت
کھلیانوں سے دِل!
بچھڑے والوں کے دِل، چٹیل میدانوں سے دِل، اوندھے پیالوں سے دِل !
...اور ایک یہ دِل!