فصل4
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
امت میں یہود و نصاریٰ کی پیروی ہو کر رہنی ہے
تاہم... باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ
نے ہمیں یہود و نصاریٰ کا راستہ اختیار کرنے سے متنبہ فرما رکھا ہے، اُس کی قضاء
کو بہرحال پورا ہونا تھا۔ یعنی خدا کی وہ قضاء جو اُس کے ازلی علم میں تھی اور جس
کی پیشگی خبر ہمیں رسول اللہﷺ کی حدیث کے
ذریعے باقاعدہ مل چکی ہے۔ یہ صحیحین کی حدیث ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ،
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَتَتْبَعُنَّ
سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ
دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ» ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ،
اليَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: «فَمَنْ»
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
ضرور بضرور تم اپنوں سے پہلوں کی سنتوں پر چلو گے، بالشت بالشت، گز گز (فرق
نہ ہوگا)۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی سانڈے کے بِل میں گھسے ہوں گے تو (وہاں بھی) تم
ان کے پیچھے جاؤ گے۔
ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟
فرمایا:
تو اور کون؟
جبکہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں
روایت کیا:
عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَأْخُذَ أُمَّتِي بِأَخْذِ
القُرُونِ قَبْلَهَا، شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ»، فَقِيلَ: يَا
رَسُولَ اللَّهِ، كَفَارِسَ وَالرُّومِ؟ فَقَالَ: «وَمَنِ النَّاسُ إِلَّا
أُولَئِكَ»
حضرت ابوہریرہ سے، روایت نبیﷺ سے، فرمایا:
قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت اپنے سے پہلی قوموں کے راستے پر نہ چل
پڑے، بالشت بہ بالشت اور گز بہ گز۔
عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا فارس اور روم کی طرح؟
فرمایا:
تو لوگ کون ہیں ان کے علاوہ؟
چنانچہ ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھیں
تو آپﷺ نے اپنی امت کی بابت ایک نہیں تو دو باتوں کی پیشین گوئی فرمائی:
1)
یہاں یہود و
نصاریٰ کی رِیس ہونے لگے گی، یعنی اہل کتاب۔
2)
یہاں فارس اور
روم کی رِیس ہونے لگے گی، یعنی اعاجم۔
جبکہ رسول اللہﷺ اُن کی رِیس کرنے سے
بھی منع فرماتے اور اِن کی رِیس کرنے سے بھی۔
(کتاب کا صفحہ 68، 69)