تحریکِ پاکستان کا مومنٹم اور اسلامی
سیکٹر کی بظاہر پسپائی
’’اسلامی
سیکٹر‘‘ سے ہماری مراد ہوتی ہے:
ملک و قوم کے خیرخواہ وہ تمام طبقے جو اسلام اور پاکستان کو لازم و ملزوم جانتے ہیں؛ اور
ملت کی فلاح صرف شریعتِ اسلام پر قائم رہنے کے اندر دیکھتے ہیں۔
نوّے کی دہائی کے تقریباً اختتام تک یہ حالت تھی کہ یہاں کی
حکومتیں اللہ کی شریعت کے نفاذ کے مسئلہ پر اچھےخاصے دباؤ میں تھیں۔ ٹھیک ٹھاک معذرت خواہ۔ بہانوں کی متلاشی۔
جائے فرار نہ پاتے ہوئے کچھ نہ کچھ شرمساری کا اظہار بھی۔
مگر اب آپ دیکھتے ہیں اس شرمساری کی
جگہ دیدہ دلیری آ گئی ہے۔ قرض خواہ کے آگے حیلے بہانے کرنے والا ایک شخص کم از کم
یہ تو مانتا ہے کہ وہ اس کا دیندار ہے۔ لیکن اب وہ نوبت کہ ’جاؤ نہیں دیتا، کون سا قرضہ‘؟ بلکہ یہ حالت کہ قرض خواہ کو اندر
کرو؛ یہ کیسی بیہودہ بات کرتا ہے!
’قرض خواہ‘ کو گویا اب لینے کے دینے پڑ
گئے! یہ اتنا بڑا فرق صرف ڈیڑھ عشرے کی مدت میں رونما ہوا ہے۔ حق بنتا ہے کہ اس کے
محرکات پر غور کیا جائے اور اس پر اپنے لائحۂ عمل کو ازسرنو مرتب کیا جائے۔
کئی ایک عوامل یہاں بیک وقت رونما
ہوئے۔ اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی اس میں نمایاں ترین ہے۔ اسلامی
سیکٹر کےلیے اس سے بڑا دھچکہ اور سیکولر سیکٹر کو آگے بڑھنے کی راہ دلانے کےلیے اس
سے بڑا مُمِد اِس ملک کی تاریخ میں شاید آج تک کوئی نہ پایا گیا ہو۔ یہ اور کچھ
دیگر تباہ کن عوامل اِس سلسلۂ مقالات میں اپنی ترتیب سے ہمارے زیرِ بحث آئیں گے۔
فی الوقت ہم اِن میں سے ایک عامل زیرِبحث لائیں گے، اور وہ ہے اسلامی سیکٹر کا
قیامِ پاکستان پر وقت گزرنے کو اہمیت اور توجہ نہ دے پانا:
قیامِ پاکستان کا مومنٹم اپنی پوری
قوت کے ساتھ دو تین عشرے تک ہی چل سکتا تھا۔ یعنی ساٹھ، بڑی حد ستّر کی دَہائی۔
یہ تو شکر کیجئے، کچھ اضافی توانائی اس کے بعد بھی اسے افغان جہاد کے دم سے
میسر آئی رہی جو نوّے کی دَہائی تک معاملہ اُسی رخ پر چلتا رہا بلکہ ضیاء الحق
ایسی اسلام پسند شخصیت کے دم سے کچھ مزید توانا نظر آیا۔ ورنہ یہ فرق قیامِ
پاکستان کے دو تین عشرے بعد ہی دیکھنے میں آسکتا تھا۔ اسلامی سیکٹر نے اس مومنٹم
سے کچھ بروقت فوائد اٹھائے بھی۔ مثلاً قراردادِمقاصد کی منظوری، 73 کے آئین میں
اسلامی اجزاء کی شمولیت، قادیانیوں کی تکفیر، توہینِ رسالت کی سزا اور کچھ دیگر
اسلامی امور کو ریاستی فورم سے پاس کروا لینا۔ وقت سنبھال لینے کا یہ ایک اچھا
ثبوت تھا۔ بلاشبہ یہ کام اُسی مومنٹم کے بل پر کر لینے کا تھا جب ’قرض خواہ‘ منہ میں زبان رکھتا تھا اور ’مقروض‘ اپنے آپ کو اس کا کچھ دَیندار
مانتا تھا۔ اُس بھلے دور میں ہی یہ چیزیں اگر پاس نہ کروا لی گئی ہوتیں تو آج جب ’قرض خواہ‘ حالات کے تیور دیکھتے ہوئے دبک
گیا ہے بلکہ اپنے ’قرض‘ کی بات اونچی آواز میں کرنے پر ’حوالات‘ کا خطرہ محسوس کرنے لگا ہے... اسلامی
سیکٹر آج نہ صرف اس پوزیشن میں نہیں کہ
قراردادِمقاصد یا قادیانیوں (ایسے ’معزز وبااثر
شہریوں‘) کی تکفیر یا
قانون ناموس رسالت وغیرہ
ایسی ’بھاری‘ اشیاء پاس کروا کر دکھا
دے، اور نہ دُوردُور تک ایسا زور پا لینے کی اس کے ہاں کوئی صورت نظر آتی ہے، بلکہ
ڈر یہ پیدا ہو گیا ہے کہ (خدانخواستہ)
ایک مسلسل لبرل تخم ریزی کے نتیجے میں کوئی شاطرانہ کوشش اب اگر کسی وقت ایسی ہوتی
ہے کہ ان اسلامی اقدامات کو ایک ایک کر کے ’ترمیمات‘ کی نیند سلا دیا جائے تو اس کے
آڑے آنے کےلیے مطلوب دم خم بھی شاید ہمارے اسلامی سیکٹر کے اندر موجود نہیں۔ یعنی
وہ چیزیں جو اُن بھلے وقتوں میں پاس کروا لی گئی تھیں آج ان کو بچا رکھنا
ہی تقریباً ایک چیلنج ہے۔
یہ تھا تحریکِ پاکستان کا مومنٹم۔
چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لہٰذا اس ملک کی قیادتیں ایک عرصے تک اپنے
آپ کو اسلام کا زیربار سمجھتی رہی ہیں۔ یہ ایک اچھی چیز تھی مگر کافی اُس وقت بھی
نہیں تھی۔ نیز یہ اپنی اُس فائدہ دہی کے اعتبار سے وقتی ہی ہو سکتی تھی۔ پس یا تو
عین اُسی ہلے میں ملک کو اسلام کی پٹڑی پر چڑھا لیا گیا ہوتا؛ اور پھر ملک کا اپنا
دستور اور نظام ہی ایک ایسا تسلسل بن جاتا کہ ہر نئے آنے والے کو اسلام کا پابند
ہی ہو کر رہنا پڑے (جیساکہ ہماری اسلامی تاریخ میں بڑی صدیوں تک رہا کہ جو بھی
آئے، خواہ جائز طریقے سے خواہ ناجائز طریقے سے، نظامِ مملکت اسلام ہی ہو)۔ یہ
بہرحال کوئی آسان کام نہ تھا۔ تاہم جب ایسا نہیں ہوا تو کیا یہ ممکن ہے کہ ملکی
قیادتوں کو ’’نفاذِ اسلام‘‘ کے حوالے سے آپ قیامت تک اُس
ایک نعرے کا قرض یاد دلاتے چلے جائیں جو ملک کے قیام کے وقت یہاں کی قیادتوں نے
ایک بار لگا لیا تھا؟
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ حکمرانوں
کو آپ ان کا وہ اسلامی نعرہ یاد نہ دلائیں جو انہوں نے قیامِ پاکستان کے وقت زور و
شور کے ساتھ بلند فرمایا تھا۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟‘‘ پر ضرور ان کو جھنجھوڑیں۔ حسبِ
مقدور ان کا گھیراؤ کریں۔ اُن لاکھوں شہیدوں کی جانب سے ان کا گریبان پکڑیں جنہوں
نے محض اسلام کی خاطر یہ اتنا سارا خون دیا تھا نہ کہ اِن کے اللوں تللوں اور اِن
کی الیکشن باریوں کےلیے۔ مگر یہ وہ قرض ہے جس کی سند تک غائب کرائی جارہی ہےاور اس کےلیے ایک نئی انتھروپالوجی پڑھانے
والے چینل وجود میں لائے جاچکے ہیں... جو یہ سوال اٹھانے لگے کہ قیامِ
پاکستان کا محرک اسلام کب تھا! جنہیں خوب معلوم ہے کہ ان کے سامنے اب وہ نسل نہیں
جس نے پاکستان بنایا یا بنتے دیکھا تھا؛ بلکہ یہاں اُس کی پوتا یا پڑپوتا نسلیں
ہیں جن کا حافظہ (memory) ہی تعلیم اور ابلاغ کے کمپیوٹر
میں کہیں اُڑ گیا ہے۔ یہ ایک کمال ’سافٹ ویئر‘ انجینئرنگ ہے؛ جبکہ تعلیمی
اور ابلاغی ساہوکار کی سب ٹریننگ اسی میدان میں رہی ہے؛ اور اب اپنی اس محنت
پر اس کو ناز بھی ہے۔ پس ایک ایسا قرض جو لگ بھگ ایک صدی پرانا ہو اور جس کی سند
بھی ڈھنگ سے لکھی گئی اب نہ ملتی ہو، بلکہ باقاعدہ ایسی ’اَسناد‘ اس کے مقابلے پر تیار کرا لی
گئی ہوں جو ایسے کسی قرض کو ہی ناثابت کر ڈالیں... غرض سو سال پرانا ایک قرض جس کی
سب حیثیت اب زبانی کلامی رہ گئی ہو اور جسے ’مُلا کا وہم‘ یا شاید ’مُلا کی دھونس‘ قرار دیا جانے لگا ہو، اور جس
کو منوانے کےلیے اب نہ کوئی مضبوط وکیل ہمارے پاس رہ گیا ہو اور نہ کوئی ڈھنگ کا
چینل یا فورَم یہاں پایا جاتا ہو، ایک ایسا قرض آخر کب تک کسی کو زیربار رکھنے میں
کامیاب رہ سکتا ہے؟ لازماً اس میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب دَیندار قرض خواہ کو اُلٹا آنکھیں دکھانا شروع کر دے؛ اور شاید
یہ وقت ہماری قومی زندگی میں آچکا ہے۔
اسلامی سیکٹر کو لازماً سماجی قوت کے
کچھ اضافی امکانات کا بندوبست کرنا ہوگا؛ حکمرانوں کو محض 47ء والے ’قرض‘ کی یاددہانی اب کافی نہیں۔ بےشک
اِس یاددہانی میں بھی سستی نہ ہونی چاہئے۔ یہاں؛ وہ سبھی ساز اور سُر ضرور ازسرنو
چھیڑے جائیں جو تیس اور چالیس کے عشروں میں اسلامیانِ برعظیم ہند کو نئی منزلوں کی
جانب گام زن کرنے کےلیے اقبال ودیگر عمائدینِ ملت نے قوم کے وجود میں چھیڑ ڈالے
تھے۔ مگر اِس ادراک کے ساتھ کہ اِس عمل کی نتیجہ خیزی اب ایک حد تک ہی ہو گی۔
سماجی طاقت کے کچھ ٹھوس عوامل[1] کا آپ کی پشت پر ہونا ناگزیر رہے گا؛
اور اصل اُمید ان ٹھوس عوامل کے ساتھ
ہی رکھنا ہو گی۔ گو اندیشہ یہ ہے کہ اسلامی سیکٹر اپنی حالیہ ناتوانی کے سبب ، اور
ایک خرانٹ دین بیزار میڈیا کے ہوتے ہوئے، تحریکِ پاکستان کے وہ اسلامی سُر
بھی شاید ہی یہاں چھیڑ پائے۔ ہمارا یہ اسلامی سیکٹر تو میڈیا کے حربوں کو سمجھنے
میں فی الحال ناکام جا رہا ہے؛ اسے مات دینے کی توقع اس سے کیونکر رکھی جائے؟
یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کہ زمانی طور
پر ہم جیسےجیسے قیام پاکستان والی دَہائی سے دور ہوتے جائیں گے ویسےویسے ہم اپنی
پشت پر موجود اُس مومنٹم کی طاقت کھوتے چلے جائیں گے جو گزشتہ صدی کے وسط میں اِس
قوم کو ’’سوئےحرم‘‘ لے چلا تھا۔ تاثیر کے کچھ
اضافی اسباب ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ تیار رہنا چاہئے، وقت گز رنے کے ساتھ ساتھ
حالات ہمارے حق میں پہلے سے زیادہ بےرحم ہو سکتے ہیں۔
البتہ ایک چیز پڑی ہے اور وہ
اپنے سبات hibernation سے نکل کر کسی بھی وقت عمل کار active ہو سکتی ہے۔ یہ ہے قیامِ پاکستان کا
ناتمام ایجنڈا: کشمیر۔ اسلامی نغمے چھڑنے کی بہت سی گنجائش (ان شاء اللہ)
ہمارے پاس اِس جہت سے اب بھی ہے۔ (اِس بار کے ’’چھ ستمبر‘‘ میں اس کی ایک ہلکی سی جھلک آ
بھی گئی تھی)۔ یقیناً خدا کے ہر کام میں حکمت ہے خواہ وہ ہمیں معلوم ہو یا کسی وقت
ہم سے اوجھل رہے: کشمیر، جو ہمارے اِس ملک کی شاہ رگ ہے، چالیس کی دَہائی میں ہمیں
مل جاتا تو ایک ’لادین خوشحالی‘ کے نعرے لگانا اور قوم کو خدا
سے یکسر غافل کرانا کچھ طبقے آج شاید کہیں زیادہ آسان پاتے۔ لیکن کشمیر کے بغیر یہ
ملک بنجر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ کشمیر لینا کم از کم بھی 47ء والی فضائیں پیدا
کیے بغیر ’خیال است و محال است و جنوں‘![2] یہاں سے؛ اسلامی سیکٹر کے پاس قومی
فضا میں مزید ’سرمایہ کاری‘ کے کچھ غیرمعمولی مواقع اب بھی
آ جاتے ہیں، جس کےلیے صرف ہمت اور مہارت سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن خطے میں
امریکی موجودگی کے باعث اس پر کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ بعید نہیں اللہ اسلامی سیکٹر کو
تیاری کےلیے کچھ وقت دے رہا ہو۔ کچھ اچھی تیاری کے ساتھ آگے بڑھا جائے، خصوصاً
سماجی عمل میں کچھ پیش رفت کر لی جائے، تو بعید نہیں ایک بار پھر وہ وقت آئے کہ جس
طرح روسی جارحیت کے خلاف افغانستان میں اٹھنے والے جہاد کی گرد میں یہاں کے
کمیونسٹ ’سرخے‘ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے روپوش ہو گئے تھے، عین اسی طرح بھارتی جارحیت کے
خلاف کشمیر میں اٹھنے والے جہاد کی گرد میں یہاں کے لبرل ’پیراسائٹ‘ ہمیشہ ہمیشہ
کےلیے روپوش ہو جائیں اور میدان صالحین کی پیش قدمی کےلیے صاف ہو کر رہ جائیں
بشرطیکہ وہ اس میں پورا اترنے کےلیے درکار صلاحیت بہم پہنچائیں۔
اسلامی سیکٹر مار کھائے گا تو زمانے
کے ساتھ پورا اترنے کےلیے درکار صلاحیت نہ لاپانے کے باعث۔ برعظیم میں
اس کے سوا کوئی کمی ہمیں درپیش ہے اور نہ اس کے سوا ہمارا کوئی بحران۔
[1] اسلامی سیکٹر کن ذریعوں سے طاقت کے
کچھ موثر عوامل تک رسائی پا سکتا ہے، ا س پر ہم نے اپنے جولائی کے اداریہ میں کچھ
روشنی ڈالی ہے، بہ عنوان ’’فاعلیت کا فقدان‘‘۔
ttp://eeqaz.co/201507_fayiliatka_fuqdan/
[2] یہ وجہ ہے کہ ملک کو سیکولرزم
کی راہ پر یکسو کرانے کےلیے پریشان طبقے راگ الاپ رہے ہیں کہ کشمیر لینے کی ضد
چھوڑیں اور بقیہ زمانہ اب اِسی پاکستان پر گزارہ کریں! اصل بھید اِن کو اچھی طرح
معلوم ہے: کشمیر لینا مگرمچھ کے جبڑوں سے اس کا شکار چھین لانے کے مترادف ہے؛ اس
کےلیے جس غیرمعمولی قوت، دلیری، قربانی اور یکسوئی کی ضرورت ہے وہ اِس قوم کو
ہمیشہ اسلام ہی فراہم کرتا ہے (ہر کڑے وقت میں اسلام ہی اس کے کام آتا ہے)۔ وہ دین
بیزار طبقے جو پاکستان لینے کو دبے لفظوں میں ’غلطی‘ کہتے ہوں، کیونکہ اس سے یہ قوم
اسلام کی رہینِ منت ٹھہرتی ہے، وہ کشمیر لینے کی گنجائش کہاں چھوڑیں گے! ہم
سمجھتے ہیں، اسلامی سیکٹر اگر مشاقی سے کام لے تو اِس ایک پوائنٹ (کشمیر) پر ہی نہ
صرف 47ء والی فضائیں بحال کروانے کی سمت بڑھا جا سکتا ہے، بلکہ کشمیر پر ’مٹی ڈالنے‘ کے خواہاں لادین ایجنڈا فروشوں
کا اصل چہرہ بھی قوم کے سامنے لایا جا سکتا ہے؛ کہ اِس (سیکولر) مافیا کو کشمیر
لینے کے سوال سے اصل تکلیف ہے کیا؟