مرتد کی سزا، سیدنا عمرؓ و امام نخعیؒ کا موقف اور عمار خان ناصر کا شوقِ
تحقیق
تحریر: وقار اکبر چیمہ
آدمی کو
ایک چیز کی desperate ’تلاش‘ ہو،
اسے المورد کے حضرات اغلباً تحقیق research کہتے ہیں۔ چلیے ہماری ضرورت کےلیے سہی، جب یہ
حضرات صحابہؓ و تابعینؒ کے ہاں کچھ ’تلاش‘ کرتے ہیں تو ہمیں اس پر خوشی ضرور ہوتی
ہے! (ادارتی
نوٹ)
عمار خان ناصر صاحب کی
کتاب "حدود و تعزیرات: چند مباحث" (جس کا المورد سے شایع ہونا ہی اس کے
نفس مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کافی ہے) میں دیگر حدود و تعزیرات کی طرح قتلِ
مرتد کے متفقہ مسئلہ کو بھی ایک طرح سے مختلف فیہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عمار صاحب لکھتے ہیں؛
خود
مرتد کےلیے سزائے موت کے لازم ہونے کے بجائے کسی متبادل سزا کا امکان تسلیم کرنے کا رجحان، بہت محدود دائرے میں سہی، صدر
اول کے اہل علم کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ چناچہ
کتب فقہ میں ایک گروہ کی، جن میں ابراہیم نخعی شامل ہیں، یہ رائے نقل ہوئی
ہے کہ مرتد کو کسی مخصوص مدت تک نہیں، بلکہ مدت العمر توبہ موقع دیا جائے جس کا
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔ ابراہیم نخعی کی اس رائے کو غالبا ً مخالف رائے کے عمومی شیوع کے تناظر
میں محض ان کا تفرد قرار دے کر زیادہ غور و فکر کا مستحق نہیں سمجھا گیا اور اسی
وجہ سے فقہی لٹریچر میں اس موقف کی بحث و تمحیص کے حوالے سے زیادہ علمی
مواد نہیں پایا جاتا، تاہم ہمارے خیال میں یہ راے محض ابراہیم نخعی کا تفرد نہیں
ہے، بلکہ سیدنا عمر رضی الله عنہ جیسے بلند مرتبت فقیہ کے ہاں بھی یہ رجحان دکھائی
دیتا ہے اور کم از کم ان جیسی شخصیت کی طرف نسبت کے ناتے سے یہ رائے ہر لحاظ سے
توجہ اور اعتنا کی مستحق ہے۔
اس مضمون میں ہمیں سیدنا
عمرؓ اور
امام نخعیؒ کے موقف
کے حوالے سے عمار صاحب کی تحقیقات کا جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔ اہمیت کے اعتبار سے
ہم پہلے سیدنا عمرؓ کے موقف کی تفصیل جانتے ہیں اور پھر امام نخعیؒ سے منسوب قول کی حقیقت۔
قتل مرتد کے بارے میں سیدنا عمرؓ کا
موقف:
مرتد کے
لئے موت کی بجائے کسی متبادل سزا کے مزعومہ امکان کی دلیل کے طور
پر عمار صاحب نے مصنَّف عبد الرزّاق اور بیہقیؒ کی السنن الكبرى کی ایک روایت سے استدلال کیا ہے۔ روایت کے الفاظ یہ
ہیں:
عن أنس رضي الله عنه , قال:
بعثني أبو موسى بفتح تستر إلى عمر رضي الله عنه , فسألني عمر - وكان ستة نفر من
بني بكر بن وائل قد ارتدوا عن الإسلام , ولحقوا بالمشركين - , فقال: «ما فعل النفر
من بكر بن وائل؟» قال: فأخذت في حديث آخر لأشغله عنهم , فقال: «ما فعل النفر من
بكر بن وائل؟» قلت: يا أمير المؤمنين , قوم ارتدوا عن الإسلام , ولحقوا بالمشركين
, ما سبيلهم إلا القتل , فقال عمر: «لأن أكون أخذتهم سلما , أحب إلي مما طلعت عليه
الشمس من صفراء أو بيضاء» , قال: قلت: يا أمير المؤمنين , وما كنت صانعا بهم لو
أخذتهم؟ قال: «كنت عارضا عليهم الباب الذي خرجوا منه , أن يدخلوا فيه , فإن فعلوا
ذلك , قبلت منهم, وإلا استودعتهم السجن»
انسؓ فرماتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعریؓ نے مجھے فتحِ تُستر
کی خوش خبری سنانے کے لئے عمرؓ کی طرف بھیجا تو انہوں نے قبیلہ بکر بن وائل کے جو چھ آدمی
مرتد ہو کر مشرکین سے جا ملے تھے ان کے
بارے میں پوچھا۔ میں نے مسئلہ سے توجہ
ہٹانے کے لئے کوئی اور بات چھیڑ دی ۔ عمرؓ نے پھر پوچھا بنی بکر بن وائل کے گروہ
کا کیا بنا؟ میں نے کہا اے امیر المومنین
وہ لوگ مرتد ہو کر مشرکین سے جا ملے تھے، ان کا بارے میں قتل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا
۔ عمر ؓ نے فرمایا ، وہ لوگ صحیح سلامت میرے ہاتھ آ جاتے تو یہ مجھے ساری دنیا کے
سونے چاندی سے زیادہ پسند ہوتا ۔ میں نے کہا
اے امیر المومنین، اگر وہ آپ کے ہاتھ آ جاتے تو آپ ان کا ساتھ کیا معاملہ
کرتے؟ عمرؓ نے جواب دیا: اسلام کے جس
دروازے سے وہ باہر نکل گئے تھے میں انھیں
اسی دروازے سے واپس آنے کی دعوت دیتا۔ پس اگر وہ لوٹ آتے تو میں ان کے اسلام لانے کو قبول کر لیتا ورنہ ان کو قید میں ڈال دیتا۔"
چونکہ اس روایت کے مطابق
سیدنا عمر ؓ نے ان کو صرف قید کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، عمار صاحب نے جَھٹ سے
اس سے استدلال فرما کر ایک نئے موقف کی گنجائش نکال لی۔
اس
روایت میں نہ تو یہ تصریح ہے کہ سیدنا عمرؓ ایسے لوگوں کو کتنا عرصہ قید میں رکھنا
چاہتے تھے اور نہ ہی یہ کہ اگر وہ لوگ
اسلام قبول نہ کرتے تو بالآخر ان کا انجام
کیا ہوتا، آیا وہ ہمیشہ قید میں ہی رہتے یا ان کے ساتھ کوئی اور معاملہ کیا جاتا؟ ان امور کی وضاحت فتحِ تُستر کے حوالے سے ہی
ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے:
عن عبد الرحمن بن محمد بن عبد
الله بن عبد القاري، عن أبيه، أنه قال: قدم على عمر بن الخطاب رجل من قبل أبي موسى
الأشعري. فسأله عن الناس، فأخبره. ثم قال له عمر: هل كان فيكم من مغربة خبر؟ فقال:
نعم، رجل كفر بعد إسلامه، قال: فما فعلتم به؟ قال: قربناه فضربنا عنقه، فقال عمر:
«أفلا حبستموه ثلاثا، وأطعمتموه كل يوم رغيفا، واستتبتموه لعله يتوب، ويراجع أمر
الله» ؟ ثم قال عمر: «اللهم إني لم أحضر، ولم آمر، ولم أرض إذ بلغني»
عبدالرحمن بن محمد بن عبدللہ بن عبدالقاری اپنے والد
سے روایت کرتے ہیں ابو موسی اشعریؓ کی طرف سے
ایک آدمی سیدنا عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس سے لوگوں کے حالات کے
بارے میں پوچھا اور اس نے آپ کو لوگوں کی خبر دی۔
عمر ؓ نے مزید پوچھا ؛ کیا لوگوں کے درمیان کوئی عجیب معاملہ پیش آیا؟ اس نے کہا؛
جی ہاں، ایک شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گیا۔ آپ نے پوچھا: تم نے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟ اس نے کہا :
ہم نے اس مرتد شخص کو بلا کر اس کی گردن اڑا دی۔ عمرؓ نے کہا: تم لوگوں نے
اسے ایسا کیوں نہ کیا کہ اسے تین دن قید میں رکھتے، اور ہر روز اسے کھانا
دیتے اور اسے توبہ کی دعوت دیتے تا کہ وہ
توبہ کر لیتا اور اللہ کے دین میں لوٹ
آتا؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ میں وہاں موجود تھا، اور نہ ہی میں نے اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس کی خبر ملنے پر میں راضی ہوا۔
اس
روایت سے واضح ہو گیا کہ سیدنا عمرؓ ایسے لوگوں کو مدت العمر نہیں بلکہ صرف تین دن تک قید کر کے دین میں واپسی کی دعوت دینا چاہتے
تھے۔ تین دین کے بعد کیا کرنے کا ارادہ تھا، اس کی وضاحت اسی حوالے سے مصنَّف
ابن ابی شیبة کی ایک روایت سے ہو جاتی ہے:
حدثنا ابن عيينة ، عن محمد بن عبد الرحمن ، عن أبيه ، قال :
لما قدم على عمر فتح تستر ، وتستر من أرض البصرة ، سألهم : هل من مغربة ؟ قالوا :
رجل من المسلمين لحق بالمشركين فأخذناه ، قال : فما صنعتم به ؟ قالوا : قتلناه ،
قال : أفلا أدخلتموه بيتا ، وأغلقتم عليه بابا ، وأطعمتموه كل يوم رغيفا ، ثم
استتبتموه ثلاثا ، فإن تاب ، وإلا قتلتموه ، ثم قال : اللهم لم أشهد ، ولم آمر ،
ولم أرض إذ بلغني ، أو قال : حين بلغني.
ابن عیینہ
محمد بن عبدالرحمن سے اور وہ اپنے
والد (عبدالرحمن بن عبد القاری) سے روایت کرتے ہیں کہ جب عمرؓ کے پاس تُستر ، جو کہ بصرہ
کے علاقے میں ہے، کی فتح کی خبر پہنچی
تو آپ نے
دریافت کیا ، "کیا کوئی عجیب معاملہ پیش آیا؟" بتایا گیا، "مسلمانوں میں سے ایک شخص مشرکین سے
جا ملا اور ہم نے اسے پکڑ لیا۔"
پوچھا ، "تو تم نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟" انہوں نے کہا، "ہم نے اسے قتل کر دیا" حضرت عمر ؓنے
فرمایا، "تم نے اسے ایک مکان میں قید کیوں نہیں کر دیا کہ تم اس کھانا کھلاتے ، پھر تین
مرتبہ اسے توبہ کرنے کا کہتے کہ توبہ کر لیتا ، بصورت دیگر اسے
قتل کر دیتے۔" پھر کہنے لگے،
"اے الله نہ تو میں وہاں حاضر تھا،
نہ میں نے اس کا حکم دیا اور نہ ہی
میں اس خبر ملنے پر راضی
ہوا۔"
اس
روایت کی سنَدکو حافظ ابن کثیرؒ نے مسند الفاروق میں جیّد
کہا ہے اور اسی طرح
ابن الترکمانی حنفیؒ نے اپنی
کتاب الجوهر النقي میں اس
اس کی صحت ثابت کی ہے ۔
اس
روایت سے واضح ہو رہا ہے کہ سیدنا عمرؓ کا
مقصد یہ تھا کہ توبہ کی مہلت اور مطالبہ کے بغیر مرتدین کو قتل نہیں کرنا چاہیے
بلکہ تین دن تک قید میں رکھ کر ان سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہیے، اگر وہ توبہ کر
لیں تو خوب وگرنہ ان کو قتل کر دیا جائے۔
معمولی
فہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ تینوں
روایات ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تینوں میں مختلف درجہ کی
تفصیل ہے۔ مختصر و ناقص روایات کو بنیاد
بنا کر تغیر کا دعوی کرنا کسی طور بھی درست نہیں۔ عمار صاحب کے
طرزِ استدلال پر یہ کہنا پڑے گا کہ تُستر
کی فتح کی خوش خبری دینے والوں نے جن مرتدین کو قتل کرنے کے بارے میں خبر دی حضرت عمرؓ کا موقف تھا کہ ان میں سے
بعض کو توبہ کی مدت العمر مہلت دی جائے ، بعض کو آپ صرف تین دن تک قید رکھ کر توبہ کی دعوت دینا چاہتے تھے، اور بعض کو تین دن بعد
قتل کرنا چاہتے تھے۔ اگر کوئی خاص
نتیجہ نکال لینے کا تہیہ نہ کر لیا
گیا ہو تو اس طرزِ استدلال کا مضحکہ خیز ہونا واضح ہے۔
فقہاء کے ہاں صرف مرتد سے
توبہ طلب کرنے کے مسئلہ کے حوالے سے ہی ان روایات پر بحث ملتی ہے۔ اس
لئے امام مالکؒ کی سند سے موطأ کی روایت
بیان کرنے کے بعد امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد امام محمد بن حسن الشیبانیؒ
لکھتے ہیں؛
إن شاء الإمام أخر المرتد
ثلاثا إن طمع في توبته أو سأله عن ذلك المرتد، وإن لم يطمع في ذلك ولم يسأله
المرتد، فقتله، فلا بأس بذلك
امام چاہے تو مرتد کو تین دین کی مہلت دے سکتا
ہے اگر
مرتد کے توبہ کرنے کی امید ہو یا اس سلسلہ میں مرتد خود اس سے مہلت طلب کرے۔ اور اگر توبہ کی امید نہ ہو اور
مرتد خود بھی مہلت کا سوال نہ کرے اور
امام اسے قتل کر دے تو اس میں کوئی حرج
نہیں۔
اسی طرح
عمار صاحب کی نقل کردہ روایت کو ذکر کرنے کے بعد حافظ ابن عبد البرؒ سیدنا عمر ؓکے
الفاظ کی وضاحت میں فرماتے ہیں؛
يعني استودعتهم السجن حتى
يتوبوا فإن لم يتوبوا قتلوا هذا لا يجوز غيره لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم
(من بدل دينه فاضربوا عنقه)
یعنی ان کو
قید میں ڈال دیتا یہاں تک کہ وہ توبہ کر لیتے،
اور اگر توبہ نہ کرتے تو انہیں قتل کر دیتا کیونکہ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے
فرمان "جو اپنا دین بدل لے اس کی گردن
مار دو" کی روشنی میں اس کے
علاوہ کوئی معاملہ جائز ہی نہیں ۔
مزید
دیکھئے عبد الكريم الرافعيؒ کی شرح مسند الشافعي۔ غرض کسی بھی مجتہد و فقیہ نے اس واقعہ سے مرتد
کے لئے قتل کے علاوہ کسی اور سزا کی تجویز
و امکان پر استدلال نہیں کیا کیونکہ اس کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں۔
عمار
صاحب حافظ ابن عبد البر ؒکی ذکر کی گئی توجیہ سے واقف ہیں۔ لکھتے ہیں؛
ابن عبد البر
نے سیدنا عمر کی اس رائے کو جمہور فقہا کے موقف پر محمول کرتے ہوئے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے
کہ اگر وہ قید میں ڈالنے کے بعد بھی اسلام قبول نہ کرتے تو سیدنا عمر انہیں قتل کر دیتے، تاہم
اس کے لئے انہوں نے کلام سے کوئی داخلی قرینہ پیش نہیں کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ چونکہ نبی صلی
الله علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ، اس لئے سیدنا عمر اس سے مختلف
کوئی بات نہیں کہہ سکتے، حالانکہ از روئے
علت سیدنا عمر کی یہ رائے ارشاد نبوی کے خلاف نہیں۔ اگرچہ روایت میں ان کی
اس رائے کا استدلال نقل نہیں ہوا، لیکن یہ قیاس کرنا غالبا غلط نہیں ہو گا کہ وہ مرتد کے دل میں اسلام کی حقانیت کے حوالے سے واقعی
شکوک و شبہات کا امکان تسلیم کرتے ہوئے اتمام حجت کے پہلو سے اس کو قتل کی سزا
دینے میں تردد محسوس کرتے اور اس کی بجائے اسے مدت العمر
توبہ کا موقع دینے کو شریعت کے منشا کے زیادہ قریب تصور کرتے ہیں۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ حافظ
ابن عبد البرؒ نے اس خاص واقعہ سے متعلق
عمار صاحب کی نقل کردہ غیر مکمل و
مجمل روایت کی جو توجیہ کی ہے اس کی تائید خود اسی واقعہ سے متعلق دوسری روایات سے بھی ہو رہی ہے، لہذا اس مسئلہ
میں عِلّت اور اتمامِ حجّت کی بحث ہے ہی لا یعنی۔ کامل اور مفصل روایت ناقص و مجمل روایات کی
وضاحت کر رہی ہے۔ سیدنا عمرؓ مرتد کے لئے
مدت العمر نہیں صرف تین دن کی مہلت اور اس کے
بعد اس کو قتل کرنے کا موقف رکھتے
تھے۔ اس بات کا ثبوت خاص اسی واقعہ سے متعلق روایات میں ہے نہ کہ معتبر روایات سے
اعراض اور سبیل المومنین سے ہٹے ہوئے عمار
صاحب کے مزعومہ قیاس بلکہ محض امکانِ قیاس
میں ۔
واقعہ
سے متعلق دیگر روایات ، شارحینِ حدیث
اور فقہاء کے اقوال کے علاوہ سیدنا عمرؓ کے بعد سیدنا عثمانؓ و سیدنا علیؓ
اور تمام امّت کا تعامل بھی عمار صاحب کے استدلال
کے ابطال پر دلالت کرتا ہے۔
امام نخعیؒ اور مرتد کی سزا:
امام ابراہیم نخعیؒ کے جس قول سے عمار صاحب نے مرتد کے لئے
مدت العمر مہلت اور نتیجتاً اسے قتل نہ کرنے کا موقف اخذ کیا ہے وہ مصنَّف
عبد الرزّاق میں یوں نقل ہوا ہے:
عن الثوري , عن عمرو بن قيس ,
عن إبراهيم , قال في المرتد: «يستتاب أبدا»
امام
ثوری عمرو بن قیس سے، اور عمرو بن قیس ابراہیم نخعی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں
نے مرتد کے متعلق فرمایا: "اس سے ہمیشہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔"
اس قول
کو نقل کر کے ابن قدامہ المقدسیؒ لکھتے ہیں؛
وهذا يفضي إلى أن لا يقتل
أبدا، وهو مخالف للسنة والإجماع
اس قول کا مطلب ہے کہ مرتد کو کبھی بھی قتل نہ کیا
جائے۔ اور یہ سنّت و اجماع کے خلاف بات ہے۔
لیکن اس مسئلہ میں روایات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے
کہ امام نخعیؒ کے قول کی یہ توجیہ درست نہیں۔ موطأ ابن وهب میں یہی
روایت مصنَّف عبد الرزّاق والی
سند کے ساتھ ان الفاظ میں وارد ہوئی ہے:
المرتد يستتاب أبدا كلما رجع
مرتد سے
ہمیشہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا ، جب بھی وہ (کفر کی طرف) لوٹے ۔
مصنَّف
ابن ابی شیبة کی ایک روایت میں امام نخعیؒ کا قول ان الفاظ میں نقل ہوا ہے:
«يستتاب المرتد كلما ارتد»
ابراہیم نخعی نے فرمایا:
مرتد سے ہمیشہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا،
جب بھی وه ارتداد کا مرتکب ہو۔
بعینہ
انہی الفاظ میں یہ روایت امام طبریؒ نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہے۔ اسی طرح امام بیہقیؒ نے
بھی یہ روایت نقل کی ہے ۔
ابن وھبؒ ، ابن ابی شیبہؒ،
طبریؒ اور بیہقی ؒ کی یہ روایات عبد
الرزاقؒ کی روایت کی وضاحت کر رہی ہیں۔ ان
کا تعلق در اصل اس مسئلہ سے ہے کہ ایک شخص
بار بار ارتداد کا مرتکب ہو کر توبہ کرتا رہے
تو کیا ہر مرتبہ اس کو توبہ کی
مہلت دی جائے گی ۔ امام طبریؒ نے سورہ النساء آیت ١٣٧ کے ذیل میں اسی سیاق میں یہ
روایت نقل کی ہے۔ اسی طرح حافظ ابن حجرؒؒ میں فتح الباري لکھتے ہیں؛
عن النخعي: يستتاب أبدا، كذا
نقل عنه مطلقا، والتحقيق أنه فيمن تكررت منه الردة.
امام نخعی کا قول
"مرتد کو ہمیشہ توبہ کی مہلت دی جائے گی" اسی طرح مطلق نقل کیا گیا ہے، اور تحقیق یہ ہے
کہ یہ قول اس شخص کے متعلق ہے جو بار بار ارتداد کا مرتکب ہو۔
توضیحی
روایت کے مطابق قول امام نخعیؒ کے شاگرد الحکم
بن عتیبہؒ سے بھی منقول ہے۔ ابن وھبؒ نے یہی قول امام مالکؒ سے نقل کیا ہے۔ قاضی عیاضؒ نے اسے امام شافعیؒ اور امام احمدؒ سے بھی منسوب کیا ہے۔ اور ملا علی القاریؒ نے ذکر کیا ہے کہ ابن ہمامؒ نے
اسے "قول أصحابنا جميعا"
قرار دیا ہے۔ اور
الماوردیؒ نے تو اسے جمہور کا قول قرار دیا ہے۔
اس تمام تفصیل سے واضح ہوا ہے کہ امام ابراہیم نخعیؒ کے قول سے وہ نتیجہ
نکالنا درست نہیں جو حافظ ابن قدامہؒ اور
بعض دیگر اہل علم نے نکالا ہے۔ غالباً اس کی وجہ
یہ ہے کہ ان حضرات نے اس قول کی
تفصیلی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس
معنی میں مذکورہ قول ثابت ہو بھی تو اس کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ جیسا
کہ حافظ ابن قدامہؒ نے فرمایا اس معنی میں
مذکورہ قول سنّت و اجماع کا مخالف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ بہرحال
اوپر نقل کی گئی روایات اور
اقوال کی روشنی میں واضح ہے کہ
حقیقت میں امام نخعیؒ کے قول کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مرتد کو مدت العمر
مہلت دی جائے بلکہ اس کا صحیح اطلاق یہ ہے
کہ کوئی شخص بار بار بھی ارتداد کا مرتکب ہو تو
بھی ہر مرتبہ اس سے توبہ کا
مطالبہ کیا جائے گا۔ اس قول کو بہتر سمجھنے کے لئے
یہ جاننا ضروری ہے کہ بعض فقہاء مثلاً
اسحاق بن راھویہؒ کا موقف تھا کہ
کوئی شخص بار بار ارتداد کا مرتکب ہو تو چوتھی مرتبہ اسے بغیر مہلت و مطالبہ توبہ
کے قتل کر دیا جائے گا۔
بہرحال
ہم دیکھ چکے ہیں کہ امام نخعیؒ کے
موافق قول ان کے شاگرد الحکم بن عتیبہؒ
اور فقہاء مذاہب اربعہ کے ہاں
بھی پایا جاتا ہے اور ظاہر ہے ان حضرات کے ہاں مدت العمر مہلت کا قول ہر گز نہیں جس کا اعتراف (اور شکوہ
)خود عمار خان ناصر صاحب کو بھی ہے۔
مزید یہ
کہ خود امام نخعیؒ سے قتلِ مرتد کا قول ثابت ہے۔
عن مغيرة، عن إبراهيم، في
المرتد يستتاب، فإن تاب ترك وإن أبى قتل
مغیرہ بن مقسم ابراہیم
نخعیؒ سے مرتد کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ اس سے
توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا، اگر توبہ کر لے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا ، اگر
نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔
یہی
نہیں کہ امام نخعیؒ مرتد کے قتل کرنے کا
موقف رکھتے تھے بلکہ اہل کوفہ کے مشہور
قول کے برخلاف آپ مرتدہ (یعنی مرتد عورت) کے قتل کے بھی قائل تھے۔
عن إبراهيم ؛ في المرأة ترتد
عن الإسلام ، قال : تستتاب ، فإن تابت ، وإلا قتلت
ابراہیم
نخعی نے مرتد ہو جانے والے عورت کے متعلق فرمایا؛
اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا ، اگر توبہ کر لے تو فبہا ورنہ اسے قتل
کر دیا جائے گا۔
مصنَّف ابن ابی شیبة کے محقَّق شیخ محمد
عوّامہ نے وضاحت کی ہے کہ اس روایت کی سند کے
راوی ابو معشر ، نجیح السندی نہیں جو ضعیف ہیں بلکہ زیاد بن کلیب ہیں اور وہ ثقہ ہیں۔
اسی طرح كتاب الآثار میں
امام ابو یوسفؒ نے "عن أبي
حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم" کی سند سے امام نخعیؒ
سے مرتد عورت کے قتل کا قول نقل کیا ہے۔
صرف
ایک روایت ہے جس میں "حفص عن عبيدة عن إبراهيم" کی سند سے امام موصوف سے
مرتد عورت کو قتل نہ کرنے کا قول نقل ہوا ہے لیکن
نہ صرف یہ کہ اس کی سند راوی عبیدہ
کی وجہ سے ضعیف ہے، بلکہ بعینہ
اسی سند سے مرتدہ کے قتل کا قول
بھی امام صاحب سے نقل ہوا ہے، چناچہ مضطرب بھی ہے۔ اور حافظ ابن حجرؒ نے سعید بن منصورؒ کے حوالے سے "عن هشيم عن عبيدة بن
مغيث عن إبراهيم" کی سند سے بھی مرتد مرد اور عورت دونوں کو توبہ
نہ کرنے کی صورت میں قتل کرنے کا قول نقل کیا ہے۔ انہی تمام تر روایات کی
روشنی میں اہل علم جیسے ابن قدامہ مقدسیؒ نے مرتد عورت کے قتل کے
قائلین میں امام نخعیؒ کو بھی شمار کیا
ہے۔ شیخ محمد عوّامہ نے بھی مصنَّف ابن ابی شیبة کی
تحقیق میں اس امر کی وضاحت کی
ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ اگر امام نخعیؒ کی ایک مجمل روایت
سے اشکال پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے
اجماع کے خلاف موقف اختیار کیا تو دوسری
روایت سے وہ اشکال رفع بھی ہو جاتا ہے اور
مرتد مرد اور عورت کے حوالے سے امام موصوف کی دیگر روایات بھی اشکال کا مکمل رد
کرتی ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ امام صاحب جمہور امّت کے برخلاف اور عمار صاحب کے زعم
کے مطابق مرتد کے لئے قتل کی سزا کے قائل نہ تھے اور اسے مدت العمر مہلت دینے کا
موقف رکھتے تھے ہر گز درست نہیں۔
عمار صاحب نے سیدنا عمرؓ
اور امام نخعیؒ سے غلط موقف منسوب کر کے ان
دونوں کے موقف کا تعلق ظاہر کیا ہے۔ ہم دیکھ چکے کہ عمار صاحب نے ان دونوں بزرگوں سے جو منسوب کیا وہ درست نہیں
لیکن امام نخعیؒ کے صحیح موقف کی اصل بھی سیدنا عمرؓ سے منسوب ایک روایت میں ملتی
ہے۔
كتب عمرو بن العاص رضي الله عنه إلى عمر رضي الله عنه يسأله
عن رجل أسلم ثم كفر ثم أسلم ثم كفر بعد ذلك مرارا أيقبل منه الإسلام فكتب إليه عمر
رضي الله عنه اقبل ما قبل الله منهم اعرض عليه الإسلام فإن قبل وإلا اضرب عنقه
حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت عمرؓ کو سوال لکھا کہ
ایک شخص اسلام میں داخل ہونے کے بعد کفر
کا مرتکب ہوا، پھر اسلام قبول کر کے دوبارہ کفر کا مرتکب ہوا، یہاں تک کہ
ان نے یہ حرکت کئی مرتبہ کی، تو کیا اب اس کا اسلام لانا قبول کیا جائے یا نہیں؟
حضرت عمرؓ نے ان کو لکھا کہ جب تک اللہ اس سے اسلام قبول فرماتا ہے تم بھی قبول
کرتے رہو، یعنی ہر بار اس کا اسلام لانا قبول
کرو۔ اور اب اس کو اسلام پیش کرو، اگر وہ قبول کرتا ہے تو اسے چھوڑ دو ورنہ
اس کی گردن اڑا دو۔
امام سفیان ثوریؒ کا موقف:
امام
سفیان ثوریؒ سے مدت العمر مہلت کے قول کی نسبت کی وجہ یہ ہے کہ مصنَّف عبدالرزّاق کی مجمل روایت میں امام نخعیؒ کے قول کے بعد
لکها ہے، "قال سفيان هذا الذي نأخذ به" یعنی " سفیان نے کہا یہی وہ قول ہے جسے
ہم نے اختیار کیا ہے۔" امام
نخعی ؒکے قول کا صحیح مفہوم اور اطلاق جاننے کے بعد امام ثوریؒ کے موقف سے متعلق بحث و تحقیق کی
حاجت باقی نہیں رہی۔
خلاصہ
بحث:
مذکورہ
بالا تفصیلات سے واضح ہوا کہ عمار صاحب نے اپنے استاد غامدی صاحب کے نظریہ اتمامِ
حجّت کی روشنی میں مرتد کی سزا کے حوالے سے جو موقف اختراع کیا ہے اس کی امّت کے
علمی سرمایہ میں کوئی اصل نہیں اور سیدنا عمرؓ اور امام نخعیؒ سمیت جن بزرگوں سے
انہوں نے اپنا موقف منسوب کیا ہے وہ اس سے یکسر بَری ہیں۔