محرم الحرام كى فضيلت
جمع و ترتيب : محمد
زكرياخان
اسلامى سال كا آغاز ماہ
محرم سے ہوتا ہے۔ سنہ 16 ھجرى ميں امير المومنين حضرت عمر كى سرپرستى ميں صحابہ
كرام كا اس بات پر اجماع ہوا كہ محرم الحرام اسلامى تقويم كا پہلا مہينہ ہو گا۔
تاريخ انسانى ميں بہت سے كلنڈر استعمال ہوتے
رہے ہيں۔ عرب چاند كو ديكھ كر مہينوں كا حساب كرتے تھے اور روم (اہل مغرب) ميں
سورج كى بنياد پر مہينوں كا شمار ہوتا تھا۔ يہودى سورج كى گردش اور چاند كا گھٹنا
بڑھنا دونوں كو ہم آہنگ كر كے اپنا كلنڈر بناتے ہيں۔ قديم مصر ميں ميں بھى قمرى
اور شمسى دونوں تقويم ايك ساتھ نہايت دقيق حسابى قاعدے سے مربوط كر كے تشكيل پاتى
تھيں۔ اب ايك عرصے سے بين الاقوامى طور پر جولين كلنڈر كو تسليم كر ليا گيا ہے جو
كہ شمسى كلنڈر ہے۔
عالم اسلام كے بيشتر ممالك ميں جولين كلنڈر
جسے اردو ميں عيسوى كلنڈر بھى كہتے ہيں مستعمل ہے۔ جولين كلينڈر در اصل برطانوى
استعمار كى باقيات ميں سے ہے۔ يہ سركارى مجبورى تو ہے ہى ليكن روزمرہ زندگى ميں
بھى عوام مسلمان اسى جولين كلنڈر كے مطابق دنوں كا شمار كرتے ہيں۔ اس سارى دھونس
كے باوجود اسلامى مہينے ہمارى مذہبى زندگى سے بے دخل نہيں ہو سكے۔ يہ سب اللہ
تعالى كى مشيئت ہے كہ مسلمانوں كو پورى طرح اسلامى ثقافت سے جاہل نہيں ركھا جا
سكا۔ ہمارى عيديں ہمارے روزے اور كچھ تاريخى واقعات ايسے ہيں كہ ہر مسلمان چاہے
جتنا بھى دين كى ابجد سے اجڈ ہو رمضان مبارك محرم ربيع الاول اور ذو الحج جيسے
مہينوں سے شناسائى ركھتا ہے۔
كرہ ارض پر اب واحد يہ مسلمانوں كى امت ہے جو
زمين كى تخليق سے لے كر آج تك صحيح ترين اور واضح تقويم ركھتى ہے۔ سورہ توبہ آيت
36 ميں اللہ تعالى فرماتا ہے كہ : حقيقت يہ ہے كہ مہينوں كى تعداد جب سے اللہ نے
آسمان و زمين كو پيدا كيا ہے اللہ كے نوشتے ميں بارہ ہى ہے اور ان ميں چار مہينے
حرام ہيں۔ يہى ٹھيك ضابطہ ہے۔
رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم نے حج وداع كے
موقع پر سارى امت كو گواہ بنا كر فرمايا كہ (إنَّ الزَّمَانَ قَدْ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ
خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ) ’’جان ليں كہ زمانہ
گھوم پھر كر ٹھيك اس پوزيشن ميں آ گيا ہے جس دن خدا نے زمين و آسمان
كى تخليق كى تھى‘‘۔ (صحيح
بخارى و مسلم )
دنيا ميں كہيں تو موسم كے لحاظ سے مہينوں كا
شمار ہوتا رہا ہے۔ كہيں زرعى فصلوں كے لحاظ سے كہيں ارضى آفات سے جيسے مصر ميں
دريا نيل كے سيلاب سے تقويم كا حساب ہوتا تھا۔ كوئى بھى ايسى قوم نہيں پائى جاتى
جو پورے سال كو كسى مقدس ہستى سے منزل شدہ سمجھتى ہو۔ صرف مسلمان ايسى قوم ہيں جو
ايك مقدس زمان (ماہ و سال) ركھتے ہيں۔ اور يہ كہ مسلمانوں كا كلنڈر قمرى ہے۔ اور
يہ كہ رسول اللہ كے فرمان كے مطابق سال كے كل بارہ مہينے ہيں۔ مہينہ يا انتيس دن
كا ہو گا يا پورے تيس دن كا۔ اور يہى ازلى تقويم ہے۔ اور حج وداع كے دن سے زمان
اپنى فطرى ہيئت پر آ گيا ہے۔ عربوں نے مہينے آگے پیچھے كر ركھے تھے مگر حج وداع پر
تمام دن اور مہينے ٹھيك مقام پر آ گئے تھے۔
ماہ محرم سے اسلامى كلنڈر كا آغاز صحابہ كرامؓ
كے اجماع سے منضبط ہوا ہے۔ سالوں كا اعتبار رسول اللہﷺ كى يثرب (مدينہ منورہ) ميں
ہجرت سے ركھا گيا ہے۔ يہ بھى صحابہ كرام
كے اجماع سے منضبط ہوا ہے۔ گو يہ ايك انتظامى بندوبست تھا ليكن اب كسى مسلمان كےليے جائز نہيں كہ وہ سال كا آغاز كسى اور اسلامى
مہينے سے كرے مثلاً ربيع الاول سے اس دليل
كى بنياد پر كہ آپ عليہ السلام يثرب ميں ربيع الاول كے مہينے ميں تشريف لائے تھے۔ تمام
مسلمانوں كے نزديك اجماع صحابہ دين كے بنيادى ترين ماخذ ميں سے ايك ہے۔ ثبوت كے
لحاظ سے اور عمل كے لحاظ سے اجماع صحابہ سے بڑھ كر كوئى دليل نہيں ہوتى۔
ماہ محرم كى فضيلت
(الف)
محرم الحرام اسلامى تقويم كا پہلا مہينہ ہے۔ اس كى تفصيل اوپر بيان ہو چكى ہے۔
(ب) محرم الحرام حرمت والے مہينوں ميں سے ايك
ہے۔ حرمت والے مہينے چار ہيں۔ ذو القعدہ، ذو
الحجة، محرم اور رجب۔ عرب ان حرمت والے مہينوں ميں جنگ و جدال كو بہت بڑا
پاپ سمجھتے تھے۔ ان چار مہينوں كا احترام ابراہيم عليہ السلام كے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ امام ابن كثير نے ان مہينوں كے احترام كى
وجہ نسك يعنى حج اور عمرہ بتلائى ہے۔ تين مہينے متواتر ہيں ذو القعدہ ذو
الحجة اور محرم يہ اس ليے كہ ان مہينوں ميں حج ہوتا ہے اور مسافروں كو مكہ آنے اور
پھر اپنے ااپنے ملكوں كو واپس جانے ميں تين ماہ لگ ہى جاتے ہيں۔ خيال رہے كہ يہ تين مہينے پيدل يا اونٹ پر سوار
مسافروں كو سامنے ركھ كر ابراہيم عليہ السلام نے خدا كے حكم سے مقرر كيے تھے۔ حج محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى بعثت سے
پہلے ہميشہ برابر ہوتا رہا ہے۔ دنيا بھر ميں پائے جانے والے دين ابراہيمى
كے پيرو كار سب اس امر سے واقف تھے كہ حج كے
سفر ميں انہيں كہيں ايذا نہيں پہنچائى جائے گى اس ليے كہ ان تين مہينوں ميں علاقے
كو پر امن ركھنے كا ذمہ سب عربوں كا مذہبى اور اخلاقى فريضہ تھا۔ جہاں تك ماہ رجب
كے محترم ہونے كا تعلق ہے تو اس كى وجہ عمرے كى ادائگى كو پر امن اور يقينى بنانا
تھا۔
حرمت والے مہينوں ميں جنگ و جدال سے باز رہنا
اگرچہ عربوں كا دستور اور مذہبى فريضہ رہا ہے ليكن سورہ توبہ كے نزول كے بعد
مسلمان اہل علم مختلف نتائج پر پہنچے ہيں۔ ان ميں سے دو باتوں پر مسلمانوں كے ہاں
اتفاق پايا گيا ہے۔ ايك يہ كہ اسلام كے پہلے دور ميں مسلمانوں پر بھى حرمت والے
مہينوں ميں جنگ كرنا حرام تھا۔ دوسرا اہل علم كا اس پر بھى اتفاق ہے كہ دفاعى جہاد
حرمت والے مہينوں ميں بھى كيا جائے گا۔ اسلامى اصطلاح ميں اسے جہاد دفع كہا جاتا
ہے۔ جب مسلمانوں كے علاقوں پر كفار كى طرف سے حملہ ہو تو مسلمان اپنا دفاع كريں
گے۔ اسے جہاد دفع كہتے ہيں اور يہ سب جنگ كے اہل جوانوں پر شريعت نے واجب كيا ہے۔
يوں بين الاقوامى قوانين بھى سب ممالك كو يہ حق ديتے ہيں كہ وہ حملہ ہونے كى صورت
ميں اپنے بچاؤكى ہر ممكن تدبير كريں گے۔ يہ بھى تصور كيا جا سكتا ہے كہ جب ہمارے
دشمنوں كو يہ يقين ہو جائے كہ حرمت والے مہينوں ميں مسلمان اپنا دفاع تك نہيں كريں
گے تو پھر وہ انہيں مہينوں ميں حملہ كرنے ميں ذرا بھى تامل نہيں كريں گے۔ اسى ليے
اہل علم نے دفاعى جہاد كو ہر مہينے ميں واجب قرار ديا ہے۔
اقدامى جہاد كو اسلامى اصطلاح ميں جہاد طلب
كہتے ہيں۔ جہاد طلب يہ ہے كہ اسلامى قيادت كسى سبب سے اپنے دشمن پر از خود حملہ
كرے۔ حرمت والے چار مہينوں ميں جہاد طلب كيا جا سكتا ہے يا نہيں اہل علم كے ہاں
يہاں تفصيلات پائى گئى ہيں۔ بعض اہل علم اس نتيجے پر پہنچے ہيں كہ سورہ توبہ ميں
ايك آيت ہے جسے آيت سيف كہتے ہيں۔ وہ فرماتے ہيں كہ آيت سيف كے بعد حرمت والے
مہينوں ميں جنگ كا اقدام جائز ہے اور پہلا دستور جس كى رو سے حرمت والے مہينوں ميں
لڑائى حرام ٹھرائى گئى تھى آيت سيف نے اس حكم كو منسوخ كر ديا ہے۔
سو ايك رائے تو يہ ہے كہ پہلا حكم منسوخ ہےاور
اقدامى جہاد بھى جائز ہے۔
دوسرى رائے يہ ہے كہ جہاد ميں پہل كرنا حرام
ہے۔
(ج) محرم الحرام كى فضيلت ايك تو اس ليے ہے كہ يہ
حرمت والا مہينہ بھى ہے اور دوسرى اس وجہ سے بھى كہ محرم كو آپ صلى اللہ عليہ وسلم
نے شہر اللہ المحرم كہا ہے۔ محرم كے ساتھ لفظ جلالہ (اللہ) كا اضافہ محرم كو ايك
اور فضيلت ديتا ہے۔
يوں محرم كا احترام قديم عربوں ميں باقى حرمت
والے مہينوں سے زيادہ تھا۔ اسى وجہ سے اس ماہ كو نام ہى عربوں نے "محرم"
كا ديا ہے يعنى قابل صد احترام مہينہ۔ محرم كو عرب "شہر الأصم" بھى كہتے
تھے۔ يہ بھى اس ماہ ميں جنگ و جدال كى حتمى ممانعت كى وجہ سے نام ديا گيا تھا۔
سال نو پر تہنيت (greeting) سال نو پر تہنيت اور مبارك باد كہنے ميں اہل علم كے ہاں دو نقطہ نظر پائے
گئے ہيں۔ سعودى عرب كے معاصر عالم دين علامہ سلمان عودہ فرماتے ہيں كہ سال نو پر
خوشى كا اظہار اور تہنيت كے تبادلے كا تعلق لوگوں كے عرف اور رسم و رواج سے ہے۔
اگر كہيں اسلامى سال نو پر لوگوں كے ہاں ايك دوسرے كو مبارك باد دينے كى رسم چلى
آتى ہے تو شريعت ميں ايسے امور كو عرف پر چھوڑا جاتا ہے۔ يہ معاملہ سماجى رويے سے
ہے اور ايسے امور ممانعت ميں سے نہيں ہوتے ہيں۔
دوسرا نقطہ نظر يہ ہے كہ سال نو پر تہنيت كى
پہل نہيں كرنا چاہيے ہاں اگر كوئى مبارك باد كہے تو اس كے جواب ميں بارك
اللہ فيك يا ايسا كوئى
اچھا جواب دينے ميں مضائقہ نہيں۔ امام احمد بن حنبل اور سعودى عرب كے بلند پايہ
اسكالر شيخ صالح عثيمين اس رائے كو پسند كرتے ہيں۔
(د) روزے كى وجہ سے فضيلت: آپ صلى اللہ عليہ
وسلم نے ماہ محرم ميں روزوں كى ترغيب دلائى ہے۔ رمضان مبارك كے بعد محرم كے روزے
بہت فضيلت والے ہيں۔(صحيح مسلم) حنبلى اسكول آف تھاٹ حرمت والے مہينوں ميں سے صرف
ماہ محرم كے روزوں كو مستحب كہتے ہيں۔
(ھ) عاشوراء كا دن۔
شريعت كى اصطلاح ميں عاشوراء محرم كى
دسويں تاريخ كو كہتے ہيں۔ بعض سلف صالحين نويں محرم كو عاشوراء كہتے ہيں ليكن اہل
علم نے پہلى رائے كو ہى اختيار كيا ہے۔ جب نبى عليہ السلام مدينہ منورہ ميں قيام
پزير ہوئے تو يہوديوں كو ديكھا كہ وہ محرم كى دسويں كا روزہ ركھتے ہيں۔ بتلايا گيا
كہ اس روز بنى اسرائيل كو فرعون سے نجات ملى تھى۔ بنى اسرائيل معجزانہ طور پر
سمندر پار ہوئے تھے اور فرعون اپنے لشكر سميت غرق ہوا تھا۔ آپ صلى اللہ عليہ وسلم
نے فرمايا كہ تمہارى نسبت ہمارى موسى عليہ السلام سے زيادہ تعلق دارى ہے۔ پس آپ نے
عاشوراء كے روزے كا حكم صادر فرمايا۔ (صحيح
بخارى و صحيح مسلم)
واقعہ يہ ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم مكہ ميں
بھى عاشوراء محرم كا روزہ ركھتے تھے۔ قريش كے نزديك بھى عاشوراء
محترم دن تھا اور وہ بھى عاشوراء كا روزہ ركھتے تھے۔ پھر جب آپ صلى اللہ
عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو يہوديوں كو عاشوراء كا روزہ ركھے پايا تو آپ
صلى اللہ عليہ وسلم نے مذكورہ بالا حكم صادر فرمايا۔
عاشوراء كے روزے ميں تفصيلات پائى جاتى
ہيں۔ اہل علم نے جو نتيجہ نكالا ہے اس كا خلاصہ يہ ہے۔
(الف) مكہ مكرمہ ميں آپ عاشوراء كا روزہ
خود ركھتے تھے مگر كسى دوسرے كو روزہ ركھنے كا حكم يا ترغيب نہيں ديتے تھے۔
(ب) مدينہ كے ابتدائى زمانے ميں آپ صلى اللہ
عليہ وسلم نے عاشوراء كے روزے كى سخت تاكيد فرمائى۔ اس تاكيد سے صحابہ كرام
اس قدر مرعوب تھے كہ بچوں كو بھى روزہ ركھواتے تھے۔
(ج) رمضان كے روزوں كى فرضيت كے بعد آپ صلى اللہ
عليہ وسلم نے عاشوراء كے روزے كے متعلق نيا حكم صادر فرمايا كہ جوعاشوراء
كا روزہ ركھنا چاہے ركھے جو نہ ركھنا چاہے وہ نہ ركھے۔
(د) آخرى عمر ميں آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك
اور ترميم فرمائى اور فرمايا كہ آئندہ سال آپ اكيلے عاشوراء كا روزہ نہيں
ركھيں گے بلكہ نويں محرم كا روزہ بھى ركھيں گے۔ حديثوں ميں مذكور ہے كہ اگلے سال
سے پہلے ہى آپ عليہ السلام انتقال فرما گئے۔
يہ تو تھے عاشوراء كے روزے كى بابت
تدريجى مرحلے۔ اب ہمارے ليے عاشوراء كے روزكيا گنجائش ہے اہل علم نے اس كا
خلاصہ يہ بتايا ہے:
(الف) عاشوراء كا روزہ ركھنا اجر عظيم ركھتا ہے خواہ دسويں
محرم كا صرف ايك روز كا روزہ ركھا جائے۔
(ب) دسويں محرم كے روزے كے ساتھ نويں محرم كا
بھى روزہ ركھنا زيادہ فضيلت ركھتا ہے بنسبت اكيلے دسويں محرم كے روزے كے۔ عاشوراء
كے ساتھ نويں محرم كے روزے ميں اس وجہ سے بھى زيادہ فضيلت ہے كہ اس طرح اہل كتاب
يہوديوں سے ہمارا امتياز واضح ہو جاتا ہے۔
شريعت ميں محرم ميں عمومى روزے ركھنا اور خاص
طور پرعاشوراء كے ساتھ نويں كے روزے كى فضيلت بيان ہوئى ہے۔ اس كے علاوہ
شريعت ميں كسى اور عبادت كو افضل سمجھنے كى نہ صرف كوئى فضيلت نہيں ہے بلكہ غير
مشروع ہر عبادت شريعت كى نظر ميں كرپشن ہے۔ ايسى ہر كرپشن كو اصطلاح ميں بدعت كہتے
ہيں۔ ہمارے دين ميں سب سے بد ترين چيز بدعت ہے۔ كوئى ايسى عبادت اپنے تئيں نيك
نيتى سے گھڑ لينا ثواب كى اميد پر جسے ہمارى شريعت نے خود مقرر نہ فرمايا ہو۔
محرم ميں درج ذيل باتوں سے اجتناب كرنا چاہيے۔
(الف) محرم كو اجتماعى خوشى كا تہوار سمجھنا۔ يہ
در اصل يہودى مذہب ميں ہے كہ وہ فرعون سے نجات كى وجہ سے اس دن كو عيد كے طور پر
مناتے ہيں۔ بعض رافضہ نے بنو اميہ كو الزام ديا ہے كہ يہ سنى حضرات اس روز حزن و
ملال كا اظہار اس ليے نہيں كرتے كيونكہ انہيں حضرت حسين كى شہادت پر خوشى ہوئى تھى۔
بلا شبہہ حضرت حسين رضى اللہ عنہ كى شہادت سانحہ عظيم ہے۔ يہ واقعہ بنو اميہ كے
دور ميں ہى ہوا تھا۔ بعض طبقے محرم ميں خوشى مناتے رہے ہيں۔ ليكن اس كا رواج بنو
اميہ نے نہيں ديا بلكہ وہ نواصب اس كے ذمہ دار ہيں جو حضرت على رضى اللہ عنہ سے
بغض ركھتے تھے يا ركھتے ہيں۔ اہل سنت كى مين اسٹريم حضرت حسين رضى اللہ عنہ كى
شہادت كو سا نحہ عظيم سمجھتى ہے۔ اہل سنت ماہ محرم كو نہ خوشى كا مہينہ سمجھتے ہيں
اور نہ غم كا۔ سوائے اس كے كہ محرم ميں روزے ركھنا پسنديدہ عمل ہے اس كے علاوہ ان
كے ہاں محرم كى اور كوئى خصوصيت نہيں ہے۔
(ب) ماہ محرم كو غم كا مہينہ سمجھنا۔ يہ ماتم
اور عزا دارى صرف شيعان على روافض اور اہل تشيع كے ہاں پائى گئى ہے۔ شريعت ميں
سالہا سال تك سوگ ميں رہنے كى سخت ممانعت ہے۔ تين دن سے زيادہ سوگ منانا حرام ہے
سوائے بيوہ كے جو چار ماہ دس دن حالت عدت ميں رہنے كى پاپند ركھى گئى ہے۔
(ج) پہلى محرم كى رات كو قيام الليل كرنا۔
(د) دسويں محرم يا محرم كے كسى اور دن كو
قبرستان جانا ضرورى سمجھنا۔
(ھ) محرم ميں صدقہ و خيرات كو افضل سمجھنا يا
روزوں كے علاوہ كسى اور عبادت كو مشروع ٹھہرانا۔
(و) محرم كے دنوں ميں ماتمى لباس پہننا۔
يہ اعزاز صرف مين اسٹريم مسلمانوں كو حاصل ہے
كہ وہ نہ يہوديوں كى طرح محرم كو خوشى كا مہينہ سمجھتے ہيں اور نہ باطنى فرقوں كى
طرح اس ميں اپنے آپ كو خون سے آلودہ كرتے ہيں اور نہ ہى گزرے مسلمانوں كو برا بھلا
كہتے ہيں۔ وہ رسول اللہ كے مقرر كردہ حدوں كے اندر اپنے آپ كو محصور سمجھتے ہيں
اور منحرف ہو جانے والے مسلمانوں كے ليے خدا سے دعا كرتے رہتے ہيں كہ ہم سب مل كر
اللہ كى رسى كو مضبوطى سے تھام ليں۔
دعا ہے كہ اللہ تعالى تمام مسلمانوں كو عدل و
انصاف كى راہ پر متحد فرمائے۔ آمين
(نوٹ): اس
مضمون كا زيادہ حصہ شيخ معاذ احسان العتيبى كے مقالے شهرُ اللهِ المحرَّم - مسائلٌ وأحكامٌ سے
ماخوذ ہے۔