مرتے دم تک!
عَنْ
جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:
«يُبْعَثُ
كُلُّ عَبْدٍ عَلَى مَا مَاتَ عَلَيْهِ»
(صحیح
مسلم. رقم الحديث 2878. كتاب الجنة وصفة نعميها وأهلها. باب الأمر بحسن الظن بالله
تعالى عند الموت)
حضرت جابر سے روایت ہے، کہا:
میں نے سنا رسول اللہﷺ کو فرماتے:
’’ہر بندہ اٹھایا جائے گا اس چیز پر جس پر
وہ مرا ‘‘۔
عموماً اس حدیث کا یہ
معنیٰ لیا جاتا ہے کہ آدمی کو جس پوزیشن پر موت آئے، روزِقیامت وہ عین اسی پوزیشن
پر اٹھایا جائے گا۔ یہ معنیٰ بھی کچھ ایسا غلط نہیں۔ تاہم حدیث کا اصل مقصود اس سے
عمیق تر ہے۔ خود امام مسلم اس حدیث کو جس باب میں لےکر آئے، اس کا عنوان باندھتے
ہیں: ’’اس بات کا بیان کہ موت کے
وقت آدمی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلیٰ ترین گمان رکھے‘‘۔ پھر اس سے متصل قبل و ہ حضرت جابر ہی سے یہ
حدیث بھی لے کر آتے ہیں:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ
الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، يَقُولُ: «لَا يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ
إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ»
جابر بن
عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے، کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو آپﷺ کی وفات سے تین روز
پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کوئی ہرگز نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ
کے ساتھ اعلیٰ ترین گمان رکھتا ہو‘‘۔
مسند
احمد و مستدرک حاکم میں حضرت جابر سے ہی ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ عَلَى شَيْءٍ
بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ» (مسند أحمد رقم 2269، مستدرك الحاكم رقم 7872، السلسلة
الصحيحة رقم 283)
جابر
سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو شخص
کسی چیز پر مرا، اللہ اس کو اسی پر اٹھائے گا‘‘۔
اس کی شرح میں مناوی
لکھتے ہیں: یعنی جس چیز پر وہ یوں جیا کہ اسی پر موت پا لی۔ اس میں قلب کی حالت
دیکھی جاتی ہے نہ کہ ظاہری حالت؛ کیونکہ دارِ آخرت میں جو صورتیں کام دیں گی وہ وہ
ہیں جو قلوب سے متعلق ہیں۔ (فیض
القدیر، حدیث رقم 9036)
ان تمام نصوص سے ملنے والے
معانی سے جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ یہ کہ: آدمی مرتے دم تک جس وتیرے پر رہا، جس رخ
پر اس کی کوئی تگ و دو رہی، قیامت کو وہ اسی حالت میں خدا سے ملے گا۔
پس قلب کو جس رخ کا سفر
کروا لو؛ اُسی رخ پر تم خدا سے جا ملنے والے ہو۔ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو زندگی
میں کسی رخ پر نہ ہو؟ یہاں اپنے وجود کو خوب سے خوب رخ دے رکھنا، کہ نجانے
کونسا لمحہ اِس سفر کا اختتام ہو، تمہاری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ٹھہرتا ہے۔ اس
لیے کہ یہ آخری لمحہ دراصل تمہارا ’’دائمی
لمحہ‘‘ ہے؛ اور اس پر تم امر ہو جاتے ہو۔ خدایا خیر!