فصل5
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
مگر ایک گروہ لازماً حق پر رہے گا
یہ خوفناک پیش
گوئیاں گو بڑی تعداد میں احادیث کے اندر
وارِد ہیں کہ اِس امت میں یہود و نصاریٰ کے طریقے اختیار ہونے لگیں گے۔ نیز روم
و فارس کے طور اطوار اپنائے جانے لگیں گے۔ مگر یہ امیدافزا خبر بھی احادیث کے
اندر مذکور ہے کہ رسول اللہﷺ کی ساری امت اِس
مہلک روش کا شکار نہ ہو گی۔ بلکہ ایک گروہِ حق قیامت تک رہے گا جسے اللہ اُس صراطِ
مستقیم پر ہی قائم رکھے گا جس پر آپﷺ امت کو چھوڑ گئے۔ یہ طَائِفَةٌ ظَاهِرَةٌ (چھا کر رہنے والا گروہ)؛ اہل باطل کے خلاف
مسلسل برسرِ پیکار؛ قیامت تک ہار ماننے والا نہ ہوگا۔ اِس مضمون کی پیش گوئی بھی نبیﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔
نیز نبیﷺ کی یہ پیش گوئی اِسی مضمون کو
تقویت دیتی ہے کہ:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي -
أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى
ضَلَالَةٍ.
یقیناً اللہ میری امت کو، یا کہا کہ امتِ محمدﷺ کو، پوری کی پوری کو ضلالت پر نہ جانے دے گا۔
نیز آپﷺ کی یہ پیش گوئی:
«لَا يَزَالُ اللَّهُ يَغْرِسُ فِي
هَذَا الدِّينِ غَرْسًا يَسْتَعْمِلُهُمْ فِي طَاعَتِهِ»
اللہ تعالیٰ
ہمیشہ اِس دین کے اندر ایسی پود اگاتا
رہے گا جسے وہ اپنی اطاعت کروانے کےلیے
کام میں لاتا رہے۔
چنانچہ نبیﷺ کی اِن سچی پیش گوئیوں سے
یہ بات معلوم ہوئی کہ آپﷺ کی امت میں ایک طبقہ آپﷺ کی ہدایت اور طریقے کے ساتھ ہی
چمٹا رہے گا جوکہ خالص دینِ اسلام ہے۔ جبکہ ایک طبقہ آپﷺ کے اِس راستے سے منحرف ہو
کر یہود کی چلی ہوئی گھاٹیوں میں سے کوئی گھاٹی یا نصاریٰ کے چلے ہوئے راستوں میں
سے کوئی راستہ چلنے لگے گا۔ گو یہ ضروری نہیں کہ ایسے ہر انحراف سے آدمی کافر ہی
ہو جائے۔ بلکہ یہ تک ضروری نہیں کہ ایسے ہر انحراف سے آدمی فاسق ہو جائے۔ بلکہ ان
انحرافات میں سے کوئی انحراف ایسا ہو گا جو کفر ہو، کوئی انحراف ایسا جو فسق ہو،
کوئی انحراف ایسا جو محض نافرمانی ہو، اور کوئی انحراف ایسا جو محض خطا ہو۔
یہ انحراف، یعنی راستہ چھوڑ بیٹھنا
طبائع کا بھی تقاضا ہے اور شیطان بھی اسے انسان کے آگے زیادہ سے زیادہ مزین کرتا
ہے۔ یہ وجہ ہے کہ بندے کو حکم ہوا کہ مسلسل دعاء کرتا رہے کہ اسے وہی سیدھا راستہ
چلنا نصیب رہےجس میں نہ یہودی طرزِعمل کی کوئی آلائش ہو اور نہ عیسائی طرزِعمل کی۔
یہ ہے ’’حنیف‘‘
ہونا۔ یعنی یکسو۔ ہر طرف سے ہٹا ہوا۔ اور ایک ہی رخ پر پورے وثوق اور دلجمعی کے
ساتھ لگا ہوا۔اِس بحرِ ظلمات سے پار لگنا جو پیغمبر کے ذریعے خدا نے اِس کو دکھلا
دیا اور أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ والی شاہراہ پر
اِسے گام زن کرا دیا، یہ اس پر خدا کا شکر کرتا نہیں تھکتا۔ اس سے اِدھراُدھر کسی
جانب دیکھنے کا روادار یہ کیسے ہو؟ اللہ کے سوا اِس کا کوئی معبود اور نہ انبیاء
اور حَوَارِیُّونَ وَأصۡحَاب کے سوا اب اِس کا
کوئی راستہ۔یہ راہ چھڑوا دینے والے جتنے عوامل یہاں آئیں گے یہ ان کو اپنے حق میں
ہلاکت تصور کرے گا؛ اور ایسے سب عوامل کے ساتھ مسلسل حالتِ جنگ میں رہے گا۔
اُدھر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں
ہمیں متنبہ فرمایا کہ اہل کتاب کی خواہش یہی ہے کہ یہ ہمیں ہمارا وہ راستہ چھڑوا
کر جو اللہ کے ہاں قبول ہے اُن راستوں پر لگائیں جن پر چل کر یہ خود خدا کے در سے
دھتکارے گئے:
وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم
مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ
مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ (البقرۃ: 109)
بہت اہل کتاب خواہشمند ہیں کہ یہ تم کو پھیر کر کافر کر دیں تمہارے ایمان
لانے کے بعد، محض اپنے اندر کی جلن سے، جبکہ حق ان پر پوری طرح واضح ہو چکا۔
اسی سورت میں تھوڑا آگے چل کر فرمایا:
وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ
الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ
إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ
أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ
اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ. (البقرۃ: 120)
یہ یہود اور نصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ
ہوں گے جب تک تم ان کی ملت کی پیروی نہ کر لو۔ کہو: اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے۔
اگر تم نے، باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، ان کی آراء کی پیروی کی، تو اللہ کے آگے
نہ تمہارا کوئی ولی اور نہ کوئی مددگار۔
(کتاب کا صفحہ 69-71)
پس اہل کتاب کی یہ خواہش کہ ہم اپنا
راستہ چھوڑ کر اُن کے پیروکار او ر اُن کے خوشہ چین ہوں، خود قرآن نے ہم پر آشکار
کر دی ۔ جبکہ ہمیں بھی جس بات سے بےحد ہوشیار اور چوکنا رہنا ہے، ہم پر پوری طرح
کھول دی۔ ہم مار کھائیں گے تو اب محض اپنے ظلم اور اپنی جہالت سے۔
*****
مقصد یہ کہ واضح ہو جائے:
1)
صراط مستقیم کے
لیے بندے کی ضرورت اور فاقہ مندی کس قدر شدید ہے،
2)
اور اس سے انحراف
کے راستوں سے واقف اور خبردار ہونا کس قدر ضروری۔
(کتاب کا صفحہ 80)