|
|
|
|
|
لہو لہو فلسطین
تحریر
: عبد اللہ منصور فلسطین مسلمانوں کے دِلوں کی دھڑکن ہے۔ مسجدِ اقصیٰ خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی
کے بعد تیسری مقدس مسجد ہے جس کی فضیلت قرآنِ مجید میں آئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی
معراج بھی اسی مسجد سے ہوئی اور یہ مسجد مسلمانوں کا پہلا قبلہ بھی تھی۔ اس کی اس
حیثیت کی وجہ سے مسلمان ہمیشہ سے اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں۔اب
یہ مسجد اسرائیلیوں کے کنٹرول میں ہے جو اسے گرا کر اس کی جگہ اپنا عبادت خانہ بنانا
چاہتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے 1949 میں ایک گرین آرمسٹس لائن کھینچ کر فلسطینی اور
اسرائیلی ریاست کی حدیں تجویز کی تھیں۔ اس گرین آرمسٹس لائن میں بیت المقدس، جسے
انگریزی میں یروشلم کہا جاتا ہے، ایک نیوٹرل ایریا تھا جسےاقوامِ متحدہ کے کنٹرول
میں رہنا تھا ۔ اس وقت تک فلسطین کے یہ علاقے اردن اور مصر کے قبضے میں تھے
لیکن 1967 میں اسرائیل نے مصر اور اردن پر حملہ کرکے پورے فلسطین کو مقبوضہ بنا
لیا۔ اب بھی اقوامِ متحدہ ان تمام علاقوں کو مقبوضہ (occupied) سمجھتی ہے اور اسرائیل کو تب تک ایک قابض قوت سمجھتی ہے جب تک وہ
1949 کی گرین آرمسٹس لائن پر واپس نہ آجائے جسے اسرائیل ، امریکہ ،روس اور
یورپی ممالک نے تسلیم کررکھا تھا۔ 1967 میں اسرائیل نے حملہ کرکے جہاں باقی فلسطین
پر قبضہ کرلیا وہاں بیت المقدس کو بھی مقبوضہ بنا لیا۔ مسجدِ اقصیٰ اسی بیت المقدس
میں ہے۔ تب سے اسرائیل مختلف بہانوں سے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھیننے کی
سازشیں کررہا ہے۔ پہلے تو اس نے بیت المقدس کو تقسیم کیا۔ شہر کا 75٪ حصہ
مغربی بیت المقدس بنا ڈالا جہاں یہودیوں کو مسلمانوں کے مکانات خالی کرکے لابسایا
گیا لیکن اب بھی شہر کے اس حصے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہ رہی ہے جسے مختلف
بہانوں سے یہاں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ شہر کا مشرقی حصہ مسلمانوں کو دیا
گیا جو شہر کا مشکل سے 25٪ بنتا ہے۔ پھر اس مشرقی حصے کو چاروں طرف سے
کنکریٹ کی ایک دیوار کھڑی کرکے بند کردیا گیااور فلسطینی اس میں محصور ہو کر رہ
گئے۔ مشرقی حصے سے ہزاروں لوگوں کو روزانہ اسکولوں، ہسپتالوں، دفتروں کو جانے کے
لیے اس دیوار میں بنائے دروازوں سے تلاشی دے کر جانا اور آناپڑتا ہےاور اس
کے لیے پہلے گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جس وقت اسرائیلیوں کا جی چاہتا ہے
وہ کسی بہانے گیٹ بند کردیتے ہیں۔ اسی طرح مسجدِ اقصیٰ جو شہر کے مغربی حصے میں ہے
اس میں جمعہ پڑھنے پر بھی مسلمانوں پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔عموماً 18 سال سے 40
سال کی عمر کے فلسطینیوں پر مسجد میں داخلے پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور
رمضان میں اس طرح کی پابندیوں میں شدت آجاتی ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں! ہر چند ہفتوں
میں مذہبی انتہا پسند یہودیوں کو گروہ مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کے لیے اندر داخل
ہو جاتا ہے اور بجائے انہیں روکنے کے اسرائیلی فوج ان کی حفاظت کے بہانے اندر داخل
ہو کر مسجدِ اقصیٰ میں موجود مسلمانوں پر تشدد کرتی ہے، آنسوگیس داغ کر مسجد
کی بے حرمتی کرتی ہے اور نمازیوں کو عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کی تمیز کیے
بغیر ڈنڈوں سے پیٹتی ہے۔ یہ سب اقوامِ متحدہ کے قوانین اور قراردادوں کے منافی ہے
لیکن بین الاقوامی 'برادری' کے کان پر احتجاجات کے باوجود جوں تک نہیں رینگتی۔ مسجدِ اقصیٰ محض مسجد ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ایک دارالعلوم اور ایک اسکول بھی
قائم ہے۔ ان میں پڑھنے والے بچوں کو آئے روز روک دیا جاتا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ
کو یہودیوں کے ہاتھوں گرائے جانے کا خطرہ ہر دم رہتا ہے۔1969 میں یہودیوں نے
مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگادی۔ اس آگ کے نتیجے میں اس کا 800 سال قدیم منبر جل گیا
جسےنورالدین زنگی نے بنوایا تھا اور صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کرکے
مسجدِ اقصیٰ میں رکھوایا تھا۔ اس کے بعد مسجدِ اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے
کے لیے آثارِ قدیمہ کی دریافت کے بہانے اسرائیلی حکومت ہر سال کئی کروڑ ڈالر کے
فنڈ approve کرتی ہے جن سے مسجد کے ارد
گرد سرنگیں کھودی جاتی ہیں۔ ایسے بہت سے منصوبوں تک سیاحوں اور بین الاقوامی
ماہرینِ آثارِ قدیمہ (Archeologists)کو رسائی نہیں دی جاتی۔ ایسی کئی
سرنگیں بیت المقدس کے رہائشیوں نے دریافت کی ہیں اور انٹرنیشنل میڈیا آؤٹ لیٹس پر
ان کے بارے میں خبریں آتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے
کیا جارہا ہے تاکہ یہودیوں کے حق میں کوئی تاریخی ثبوت نکال لایا جاسکے اور تاکہ
زلزلے کی صورت میں مسجد گر جائے۔ بہت سے مذہبی یہودیوں کا خیال ہے کہ مسجدِ
اقصیٰ کے گر جانے کے بعد ان کے مسیحا کا ظہور ہوگا۔ اس لیے وہ مسجدِ اقصیٰ
کو گرانے کے لیے آئے روز مختلف منصوبے عمل میں لاتے رہتے ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد میں حالیہ تیزی اس وجہ سے آئی ہے کیونکہ اسرائیلی
حکومت مسجدِ اقصیٰ کے بارے میں بڑے فیصلے
کرنے کا ارادہ کررہی تھی۔ اسرائیلی حکومت مغربی بیت المقدس کو مکمل طور پر ایک
یہودی شہر بنانا اور مسجدِ اقصیٰ کو تقسیم کرنا چاہ رہی ہے ۔اس لیے بیت المقدس میں
جابجا گلیوں کو بند کیا جارہا ہے ۔ نمازیوں کا داخلہ روکا جارہا ہے اور
مسجدِ اقصیٰ میں نوجوانوں کے داخلے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے
بہت سے فلسطینی جن میں لڑکیاں اور خواتین بھی شامل ہیں، مسجدِ اقصیٰ میں رباط (جم
کر بیٹھ گئے) ہیں۔ اسرائیلی فوج نے مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر ان مرابطین کو مارا
پیٹا اور گرفتار کیا تا کہ مسجدِاقصیٰ میں کسی قسم کی مزاحمت کرنے والا کوئی
فلسطینی باقی نہ رہ سکے۔ مسجدِ اقصیٰ پر اسرائیلی یلغار نے نتن یاہو کے ان عزائم
کو اور بھی زیادہ واضح کیا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم اس بار مسجدِاقصیٰ کو تقسیم
کرنا اور مسلمانوں سے چھیننا چاہتا ہے۔ اس بےحرمتی اور قتل و غارت گری پر احتجاج
کرنے والوں پر اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو نے سیدھی گولیاں چلانے کی اجازت دے دی
ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کا مسئلہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور یہ ہمارا دینی فرض ہے کہ
ہم مصیبت کے اس وقت میں اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کیلئے اگر کچھ نہیں کرسکتے
تو کم از کم آواز ضرور بلند کریں۔
|
|
|
|
|
|