قولِ جدید
جو ’میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں‘!
بشکریہ: نادر
عقیل انصاری
فرطِ
عقیدت کہیں اپنے ممدوح کو ’شیخ
الاسلام‘ کی خلعت
پہناتی ہے تو کہیں اس میں ’امام شافعی‘ کی شبیہ ڈھونڈتی ہے۔ ایک مسلسل حالتِ اضطراب و سرگردانی
اور ماحول کی پروردگی جسے یہ ’ہمارے
استاد کا قولِ قدیم و قولِ جدید‘ کہہ کہہ
بہلتی ہے!
اور دوسری
جانب... ’قولِ
قدیم‘ ہے کہ مسلسل پردہ فرمانے کی کوشش! اور اب تو کچھ
کچھ تدلیس و غلط بیانی!
خود ہم
نے اس دبستان کو نہ ہونے کے برابر پڑھا ہے (عربی مَثَل: الكتابُ
يُعرَف مِن عنوانِه ’’کتاب
اپنے عنوان سے پہچانی جاتی ہے‘‘) تاہم
اس کتاب کو اندر تک پڑھنے والے، اس فکری سرگردانی کی روداد بھی سناتے ہیں۔ ہمارے
ایک دوست اپنے ریکارڈ سے ان صاحب کی تالیفات دکھاتے ہیں: ایک کتاب کا ہر ایڈیشن اس
کا ’پہلا ایڈیشن‘ ہی ہوتا ہے؛ جھینپنے کی وجہ یہ کہ اس میں اصولِ
دین بیان کرنے کی مشق ہوئی ہے! ظاہر ہے اصولِ دین میں ’ارتقاء‘ پر کچھ نہ کچھ جھجھک آ ہی جاتی ہے!
ایک
رائے بدل گئی ہے تو آخر اس میں چھپانے کی کیا بات؟ مگر ہے اور فی الواقع چھپانے کی
ہے۔ اصول دین کے ارتقاء پر ہم کسی اور وقت روشنی ڈالیں گے، فی الحال ایک ’فرعی‘ مسئلہ: (ادارتی نوٹ)
جاوید غامدی صاحب نے گزشتہ
برس افغان جہاد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے یہ ارشادات فرمائے۔ ایک سائل، ڈاکٹر
الطاف قادر صاحب، نے مطالبہ کیا:
’’جن
لوگوں نے افغان جہاد کی سرپرستی کی، اور قبائلی علاقے کے لوگوں کو استعمال کیا، ان
لوگوں کو سزا دی جائے‘‘۔
اس پر جاوید غامدی صاحب
فرماتے ہیں:
مجھے ان سے سو فیصد اتفاق ہے۔ میرے نزدیک اصل جرم کا
ارتکاب امریکہ نے کیا، اور پھر ہماری اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے کیا۔ ان کو
کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس قسم کی پرائیویٹ آرمی بنائیں، اور مذہبی بنیاد پر لوگوں
کو منظم کریں اور ان کے ذریعے سے جہاد فرمائیں – افغانستان میں بھی اور کشمیر میں
بھی – دونوں جگہ یہ بنیادی غلطی کی گئی۔ میں نے اس زمانے میں بھی بڑی شدت کے
ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی تھی، کہ ہم اپنے وجود میں بارود بھر رہے ہیں اور اپنی
قبر کھود رہے ہیں۔ __ اور میں یہ بات
درست سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس طرح کی پالیسیاں بنائیں ، ان کی مذمت کی
جانی چاہئیے۔ __ میں نے اپنے کانوں
سے یہ سنا ہے کہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ ]افغان جہاد میں[ ہم سے غلطی ہوئی ]اور[ ہم نے سارے معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھا۔
جو کچھ ڈاکٹر الطاف کہہ رہے ہیں، میں بھی ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں۔ __ بجائے اس کے کہ ہم ان قبائلیوں کو جدید
ریاست میں منظم کرتے، ہم نے انہیں اس کام کےلیے استعمال کیا۔ __ جنہوں نے یہ کام کیا وہ سر تا سر مجرم ہیں۔ __ میں ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں۔
(حوالہ: سماع ٹی وی، ’’غامدی
کے ساتھ‘‘، 28
فروری، سنہ 2014ء)
’’میں
ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں‘‘ – اس جملے کی گردان ہر سامع و قاری کو چونکا
دینے کےلیے کافی ہے۔ ایک سانس میں تین مرتبہ فرماتے ہیں کہ ’’میں
ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں‘‘ اور زور دیتے ہیں کہ ’’میں نے
اُس زمانے میں بھی بڑی شدت کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی تھی‘‘۔
... ... ...
اگر جاوید غامدی صاحب کی
اس تقریر میں ان کا موقف مبرہن ہو گیا ہے، تو اُن ہی کی درج ذیل مطبوعہ تحریر بھی
لائق مطالعہ ہے، جو انہوں نے سنہ 1988ء میں صدر ضیاءالحق کو خراجِ تحسین پیش کرتے
ہوئے لکھی تھی۔ ہم اس تحریر کو بتمام و کمال نقل کر رہے ہیں تاکہ غور و فکر کرنے
والوں پر اور بعض سادہ لوح پاکستانیوں کو معلوم ہو جائے کہ جدید اسلام کے ’’بیانیے‘‘ سے کیا مراد ہے،
... ... ...
غامدی صاحب کی تحریر پیش
ہے:
**
شذرات
جاوید
احمد غامدی
صدر
محمد ضیاء الحق بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات ہماری تاریخ کا ایک ناقابل
فراموش سانحہ ہے۔ نفاذِ دین کےلیے جو حکمتِ عملی انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں
اختیار کیے رکھی، مجھے اگرچہ اس سے سخت اختلاف تھا لیکن ابھی پچھلے ماہ میں نے جب ’’شریعت
آرڈی نینس‘‘ کے نفاذ کے بعد ان کی حکمت عملی پر تنقید لکھی
تو اس میں یہ بھی لکھا:
مجھے اس
بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ وہ بہرحال اس ملک کی تاریخ میں پہلے سربراہِ مملکت
ہیں جنہوں نے اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کو بغیر کسی معذرت کے پورے اعتماد کے ساتھ
ظاہر کیا۔ اسے برملا اس مملکت کی اساس قرار دیا۔ اس کے بارے میں صاف صاف کہا کہ وہ
جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری ریاست کا بھی دین ہے۔ اپنی
سربراہی کے پہلے دن سے اس کے نفاذ کےلیے کوشاں ہوئے۔ علماء اور اہل دین کے ساتھ
بہت عقیدت مندانہ رویہ اختیار کیا۔ ہر قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر، جہاں
انہیں موقع ملا، وہ قرآن کی آیات پڑھتے اور اس پر اپنے غیر متزلزل یقین کا اظہار
کرتے نظر آئے، اور اس ملک میں جہاں اکثر اربابِ سیاست اب بھی اس حماقت میں متبلا
ہیں کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے اور ریاست کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق
نہیں ہونا چاہئیے وہ ہر جگہ اور ہر موقع پر اس تصور کی بیخ کنی کرتے رہے‘‘۔
صدر
صاحب کی وفات کے بعد اب اس ملک کے در و دیوار ان حقائق کا اعتراف کر رہے ہیں۔
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا یہ بطلِ جلیل ہمارے دشمنوں کے انتقام ہی کا
نشانہ بنا۔ اس کے مقابلے میں پے در پے ہزیمت اٹھانے کے بعد ان کےلیے کوئی دوسرا
راستہ غالباً باقی بھی نہیں رہا تھا۔ لیکن انہیں شاید معلوم نہ تھا کہ اس طرح وہ
اس قوم کی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کر رہے ہیں جو اس کے نصب العین کی تلاش میں
اب ہمیشہ اس کےلیے منبع الہام بنا رہے گا۔ اقبال نے عالمگیر کے بارے میں کہا تھا:
ترکش ما
را خدنگ آخریں
]یعنی اورنگ زیب عالمگیر ہمارے ترکش کا
آخری تیر تھا[۔
اس لحاظ سے دیکھیے تو محمد ضیاء الحق،
فی الواقع اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے اس دور میں ہمارے ترکش کا پہلا تیر تھا۔ وہ جب
تک زندہ رہے ہم نے ان سے اختلاف بھی کیا اور ان پر تنقید بھی کی، لیکن ان کی شہادت
نے اب اس کے سوا کوئی احساس باقی نہیں رہنے دیا کہ:
یار در عہد شبابم
بکنار آمد و رفت
ہمچو عیدے کہ در ایام بہار آمد و رفت
وہ کیا شخص تھا، بقول شبلی:
اس کے اخلاق کھٹک جاتے ہیں دل میں ہر
بار
وہ شکر ریز
تبسم، وہ متانت وہ وقار
وہ وفا کیشی
احباب، وہ مردانہ شعار
وہ دل آویزی خو،
وہ نگہ الفت بار
صحبت رنج بھی اک لطف سے کٹ جاتی تھی
اس کی ابرو پہ
شکن آ کے پلٹ جاتی تھی
یہ قوم ان کی ہر بات فراموش کر دے
سکتی ہے، لیکن جہادِ افغانستان کے معاملے میں وہ جس طرح اپنے موقف پر جمے رہے اور
جس پامردی اور استقامت کے ساتھ انہوں نے فرزندانِ لینن کے مقابلے میں حق کا علم
بند کیے رکھا، اسے اب زمانے کی گردشیں صبحِ نشور تک ہمارے حافظے سے محو نہ کر سکیں
گی۔ میں جب فیصل
مسجد کے بلند و بالا میناروں کے سایے میں ان کے مرقد کو دیکھتا ہوں تو مجھے
بےاختیار اپنے وہ شعر یاد آ جاتے ہیں جو میں نے اب سے برسوں پہلے، غالباً 1973ء
میں شہادت گاہِ بالاکوٹ کی زیارت کے موقع پر کہے تھے:
فضا خموش، سواد
فلک ہے تیرہ و تار
کہ لٹ گئی ہے کہیں آبروئے چرخ بریں
نگاہ قلب کے
تاروں میں اختلالِ سرود
مرے وجود میں
شاید مرا وجود نہیں
شروع وادی کاغان
میں مقامِ جنوں
مقام حاصل
انساں، مقام اِلّا ہُو
مری حیات پریشاں
کی رفعتوں کا مقام
مری قبائے دریدہ
کی آرزوئے رفو
یہی مقام ہے اس
قافلۂ حق کا مقام
گواہ جس کی شہادت
پہ عصمتِ جبریل
مری نگاہِ تمنا
کی جستجو کا کمال
نواح مشہد احمد،
مقام اسماعیل
میں اس مقام کے
ذروں کو آسماں کہہ دوں
اور اپنی منزل
فردا کے رازداں کہہ دوں
ستمبر سنہ 1899ء۔
(حوالہ: جاوید احمد غامدی، ’’شذرات‘‘، ماہنامہ اشراق، جلد 1، ستمبر 1988،
صفحات: 6 تا 8)
**
جاوید غامدی صاحب کا یہ ’’بیانیہ‘‘ کس قدر چشم کشا ہے! اور یہ کلام ہمارے علم کے
ایوانوں اور اہل قلم کی فقاہت کے کس کس گوشے تک نواستعمار کی رسائی کا عکاس ہے! جس
’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو جاوید غامدی صاحب آج ’’مجرم‘‘ قرار دے رہے ہیں، اُس وقت انہیں ’’امت مسلمہ کے
ترکش کا پہلا تیر‘‘ دکھائے دے رہی تھی، اور ساتھ بےباکی سے یہ بھی
فرما رہے ہیں کہ ’’میں نے اُس قت بھی شدت سے توجہ دلائی
تھی کہ ہم اپنی قبر کھود رہے ہیں‘‘!
جب مغربی قوتوں کو ضرورت پڑی کہ افغانستان میں در آنے والی
روسی افواج کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا جائے، تو وائٹ ہاؤس کے ساتھ ساتھ، جاوید
غامدی صاحب بھی اس ’’بطل جلیل‘‘ کی ’’امامت‘‘ میں جہاد کے ثناخواں تھے۔ آج جب مغربی قوتوں کے
خلاف افغان مزاحمت کا سوال اٹھا ہے، تو وہ سب لوگ ’’مجرم‘‘ قرار پائے ہیں۔ یہ ’’ریاست‘‘ کے استبداد کا فیض نظر تھا، یا اس کے پیچھے کمک
پہنچانے والے مغربی مکتب کی کرامت تھی، کہ جاوید غامدی صاحب نے افغان جہاد کو ’’فرزندانِ لینن‘‘ کے مقابل ’’حق کا عَلم‘‘ قرار دیا؟ اور آج وہ انہی مجاہدین کو ریڈ انڈین
قبائل کی طرح ’’تحلیل‘‘ کر دینے کے داعی بن گئے ہیں؟ اس ’’منسوخ‘‘ بیانیے کا گہرا تعلق سنہ 2015ء کے ’’جوابی بیانیے‘‘ سے بھی ہے۔ ’’جوابی بیانیے‘‘ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ’’ریاست کا کوئی دین نہیں ہوتا‘‘۔ لیکن یہ رفعت صدر ضیاءالحق کے عہد
کی من جملہ برکات ہی سے ہو سکتی ہے کہ جاوید غامدی صاحب نے لکھا تھا کہ اسلام ’’جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین
ہے، اسی طرح ہماری ریاست کا بھی دین ہے‘‘۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ جو لوگ اسلام کو ’’ریاست‘‘ کا دین تسلیم نہیں کرتے (یعنی جو لوگ جنرل
ضیاءالحق سے اختلاف کر رہے تھے)، وہ ’’حماقت میں متبلا‘‘ ہیں!
لیکن جدید اسلام کے فتاویٰ کی صنعت، اور جدیدیت کی mass production کی صنعت کے مابین فقط یہی مناسبت رُوبعمل نہیں
ہے۔ اب حفظ و نسیاں بھی اسی پیداواری نظام کے طلسم میں گم ہیں۔ اُس وقت افغان حریت
پسندوں کی تلوار روسی افواج کی گردن پر تھی۔ دس بارہ برس بعد جب جنرل پرویز مشرف
کی صدارت میں، خود امریکہ کے خلاف افغان مزاحمت شروع ہوئی تو ایک صبح جاوید غامدی
صاحب نے دیکھا کہ اب حریت پسند افغانوں کی نوکِ شمشیر، ’’فرزندانِ لینن‘‘ کی بجائے امریکی اور یورروپی افواج کے سینے میں
پیوست تھی۔ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون اب کچھ اور کہہ رہے تھے: اب یہی مجاہدین ’’دہشتگرد‘‘ قرار پائے تھے۔ چنانچہ جس جہاد کے بارے میں
جاوید غامدی صاحب کا خیال تھا کہ اسے ’’زمانے کی گردشیں صبح نشور تک ان کے
حافظے سے محو نہ کر سکیں گی‘‘ وہ دس بارہ سالوں میں غامدی صاحب کے حافظے سے
محو ہو گیا۔
... ... ...
اپنے حالیہ بیانیے میں جاوید غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ
مذہبی انتہاپسندی، دہشت گردی اور قتل و غارت کا عفریت ’’اسی مذہبی فکر کا مولود فسانہ ہے جو
نفاذ شریعت اور جہاد و قتال کے زیر عنوان اور کفر، شرک اور ارتداد کے استیصال
کےلیے ہمارے مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ انتہاپسند افراد اور تنظیمیں
اسی سے الہام حاصل کرتی ہیں۔ (حوالہ: جاوید احمد امدی، ’’مذہبی انتہاپسندی‘‘، سنہ 2013ء)۔ لیکن اب جاوید غامدی صاحب فرما رہے
کہیں کہ یہ مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی دراصل افغان جہاد کا ’’مولود فسانہ‘‘ ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے یہ مذہبی انتہاپسندی
کہیں آسمان سے نازل نہیں ہوئی، نہ کسی مذہبی مدرسے سے اٹھی ہے، بلکہ یہ تو ’’امریکہ اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے جرائم کا نتیجہ ہے اور خود جاوید غامدی صاحب
کی دینی صحافت کا ’’مولود فسانہ‘‘ ہے جس کی پیدائش 1988ء میں ہوئی تھی، جسے غامدی
صاحب نے اپنے ہاتھ سے سیاسی اسلام کی گھٹی پلائی تھی، جس کے عقیقے پر جاوید غامدی
صاحب نے تہنیتی شاعری فرمائی تھی، اپنے قلم سے اس کی لے بڑھائی تھی ، اور اس کی
غیرمشروط تائید فرمائی تھی۔ اب وہ دہشت گردی عالم شباب کو پہنچی ہے تو غامدی صاحب
اسے بھلانے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ وہ کب تک امریکہ اور صدر ضیاءالحق کے ’’جرائم‘‘، اور اپنے صحافتی گناہوں کا بوجھ
دینی مدارس پر لادتے رہیں گے؟ اپنی جان بچانے کےلیے وہ ’’حاکمیتِ قرآن‘‘ کو کیوں پس پشت ڈال رہے ہیں؟ قرآن مجید میں تو
آیا ہے: أَلَّا
تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى
جاوید غامدی صاحب نے لکھا تھا کہ جنرل ضیاءالحق ’’اس قوم کی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم
کر رہے ہیں جو اس کے نصب العین کی تلاش میں اب ہمیشہ اُس کےلیے منبعِ الہام بنا
رہے گا‘‘، لیکن سماع ٹی وی پر ان کی گفتگو سے
معلوم ہوا کہ ’’ہمیشہ‘‘ کہاں، دس بارہ برس ہی میں یہ الہام، مغرب کی ’’وحیِ خفی‘‘ سے، منسوخ ہو گیا، اور ’’صاحبِ الہام‘‘ ایک قابلِ مذمت مجرم قرار پایا۔ تاریخ میں کسی ’’منبع الہام‘‘ کی ایسی رسوائی کم ہی ہوئی ہو گی۔ کیا جدید
اسلام کے نزدیک ’’الہام‘‘ اشیائے صَرف کی نوعیت کی چیز ہوتی ہے؟ اور دینی
آراء بھی؟
... ... ...
دین کی جدید تعبیرات نصوص سے نہیں بلکہ نصوص کے خارج سے
اٹھتی ہیں۔ سنہ 2001ء کے بعد جدید اسلام کو از سر نو ایک ’’بیانیے‘‘ اور ایک تازہ دینی استدلال کی حاجت پڑی۔ جس
افغان جہاد کو پہلے ’’عَلم حق‘‘ قرار دیا تھا اب اسے دہشت گردی سے ممیز کرنا
تھا۔ شرط بہت کڑی تھی – یعنی یہ کہ نیا استدلال بھی پرانے فتوے کی طرح قرآن و سنت
ہی کی ’’نصوص‘‘ پر استوار ہونا چاہئے۔
... ... ...
ان ’’نصوص‘‘ میں ایک اور ’’کرامت‘‘ بھی ہے۔ قرآن و حدیث کی ’’نصوص‘‘ خواہ نئی ہوں یا پرانی، اور یہ متجددین اُن کے
ذریعے، ایک ہی شے کو، خواہ کبھی ’’جہاد‘‘ اور کبھی ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیں، لیکن بہر صورت مغربی قوتیں ہی بر حق
قرار پاتی ہیں! یہ بات دلچسپ ہے کہ جدید اسلام کی دینی تعبیرات اور اجتہادات ہمیشہ
جدیدیت کے حق میں پڑتے ہیں۔ غالباً جدید اسلام اس سے قرآن و حدیث کا ’’اعجاز‘‘ ثابت کرنا چاہتا ہے! دونوں فتاویٰ میں کوئی دس
برس کا وقفہ ہے۔ جدید اسلام کی ’’جدیدیت‘‘ کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ وہ تیزی سے
بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ، نصوص کی تعبیرات بھی بدلتا رہتا ہے! شاید اس طرح یہ لوگ
اسلام کے ہر دور میں قابل عمل ہونے کا مقدمہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں! یہ سب
کمالات ان کے سامعین کو تسلیم ہیں، لیکن کبھی کبھی ان بےچارے سامعین کے سامنے یہ
سوال ضرور کھڑا ہوتا ہے کہ جدید اسلام کی ’’نصوص‘‘ اور موم کی ناک میں کیا فرق ہے؟
... ...
...
روایت یہ رہی ہے کہ اگر آپ سے کوئی سیاسی و علمی غلطی ہوئی
ہو، جس کے نتیجے میں بقول خود یہ ملک ’’دہشت گردوں کی جنت‘‘ بن گیا، اور ’’ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں‘‘، تو اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنی
غلطی کا اعتراف کریں اور قوم سے معذرت کریں۔ جنرل ضیاءالحق کی جہادی کارروائی کی
اگر آپ نے علانیہ تائید کی تھی اور اس پر شعروں میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا، تو
کم از کم پاکیِ داماں کی حکایت کو اِتنا نہ بڑھائیں، اور بقول خود افغان جہاد کی
وجہ سے جو خون آج بہہ رہا ہے، اس کی کم از کم جزوی ذمہ داری قبول کریں! کاش وہ یہ
جرأت فرماتے، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
... ...
...
آراء بدلنے کا اختیار ہر صاحبِ قلم کو ہے۔ لیکن اس میں اگر
علمی دیانت داری کا لحاظ نہ رکھا جائے تو یادِ ماضی عذاب بن جاتی ہے۔ اوپر نقل ہوا
ہے کہ گزشتہ سال جب ایک سائل نے مطالبہ کیا کہ: ’’جنہوں نے افغان جہاد کی سرپرستی کی
اور قبائلی علاقے کے لوگوں کو استعمال کیا ان لوگوں کو سزا دی جائے‘‘۔ تو اس پر جاوید غامدی صاحب نے جواب
دیا: ’’مجھے سو فیصد اتفاق ہے، وہ سر تا سر
مجرم ہیں‘‘، اور مزید فرمایا کہ ’’میں نے اُس زمانے میں بھی شدت کے شاتھ
اس طرف توجہ دلائی تھی‘‘۔ سنہ 1988ء میں ان کی محولہ بالا
تحریر سے واضح ہے کہ یہاں صداقت کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔ علمی دیانت کا
تقاضا تھا کہ وہ یہ جواب دیتے:
میں بھی مجرم ہوں، میں نے اس وقت افغان جہاد کے سپہ سالار کو خراجِ تحسین پیش
کیا تھا، اسے ملتِ اسلامیہ کے ترکش کا پہلا تیر قرار دیا تھا، اور اس کے حق میں
دینی فتاویٰ جاری کیے تھے، اور شرمندہ ہوں کہ فرط جذبات میں مجھ سے کچھ شاعری سرزد
ہوگئی تھی، چنانچہ اس اعتبار سے بالواسطہ افغان جہاد کی سرپرستی میں شریک تھا۔
مجھے صدر ضیاءالحق کی بعض باتوں سے اختلاف تھا، لیکن جہادِ افغانستان کو میں اُن
کی ’’استقامت اور
پامردی‘‘ کی روشن مثال سمجھتا تھا اور اس میں انہیں حق کا
علمبردار سمجھتا تھا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مذہبی انتہاپسندی اور دہشت
گردی کا ذمہ دار فقط اُس وقت کے حکمران اور دینی مدارس نہیں ہیں، بلکہ میں بھی کسی
حد تک اس کا ذمہ دار ہوں۔ یہ ’’دہشت گردی‘‘ فقط دینی مدارس ہی
کا ’’مولود فسانہ‘‘ نہیں ہے، بلکہ میری مضطرب شاعری و صحافت کا ’’مولود فسانہ‘‘ بھی ہے۔ مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔ میری رائے اب
تبدیل ہو گئی ہے۔ اب میں اُس ’’جہاد‘‘ کو ایک جرم سمجھتا
ہوں۔ میں شرمندہ ہوں اور قوم سے معذرت کرتا ہوں۔
لیکن اس کی بجائے، اپنی سابقہ تحریر
کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ ’’ہم اپنی قبر کھود رہے ہیں‘‘ اور ’’اپنے وجود میں بارود بھر رہے ہیں‘‘ اور ’’میں ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جاوید غامدی
صاحب صدر ضیاءالحق کے زمانے میں اس کام کو ’’جہاد‘‘ سے تعبیر کر رہے تھے، اور نہ صرف انہوں نے صدر
ضیاءالحق کے اس اقدام پر کسی نوع کی تنقید نہیں کی تھی، بلکہ انہیں خراجِ تحسین
پیش کرتے رہے۔ بات تو رسوائی کی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت فرطِ جذبات میں آں
جناب نے سوز و درد میں ڈوبی کچھ شاعری بھی فرمائی تھی!
(بشکریہ سہ ماہی ’’جی‘‘ لاہور۔ جولائی تا اکتوبر 2015۔ ص 116 تا 128)