اسلام
میں پورے داخل ہو جاؤ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا
تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ. فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا
جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرۃ: 208-209)
ایمان والو!
داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے کے پورے۔ اور نہ پیروی کرو شیطان کے راستوں کی۔ وہ ہے
ہی تمہارا کھلا دشمن۔
پھر اگر تم
پھسل جاؤ ایسی صاف ہدایات آ جانے کے بعد بھی، تو جان رکھو اللہ زبردست ہے، دانا
ہے۔
ایمان والوں کو اسلام
میں آ جانے کی دعوت۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ
كَافَّةً پورے کے
پورے۔
جمہور
مفسرین یہاں ’’سِلم‘‘ سے مراد لیتے ہیں
اسلام، جیسا کہ ابن کثیر نے بروایت عوفی: ابن عباس، مجاہدؒ،
طاوٗسؒ، ضحاکؒ، عکرمہؒ، قتادہؒ، سدیؒ اور ابن زیدؒ سے یہ تفسیر بیان کی ہے۔ ویسے ’’سِلم‘‘ کا اپنا
مطلب صلح و آشتی اور سازگاری ہے اور اس کی ضد جنگ اور بگاڑ۔
گویا اسلام سب سے پہلے خدا
کے ساتھ سلامتی اور سازگاری ہے۔ خدا کے ساتھ بگاڑنے کا خطرہ کبھی نہ لینا؛ خواہ
باقی جس سے بھی بگڑ جائے۔ خدائی شریعت کے ساتھ کامل موافقت میں رہنا۔ عقائد و
افکار و نظریات میں۔ اعمال اور اخلاق میں۔ دستور اور رواج میں۔ اور تمام معاملاتِ
کار میں۔
اسلام کی حقیقت کو جاننے
کی یہ ایک اہم جہت ہے: ’’سِلم‘‘۔ صلح و
سلامتی۔
ضحاکؒ نے حضرت عبد اللہ
ابن عباس، نیزابو العالیہؒ اور ربیع بن
انسؒ سے ’’سِلم‘‘ کی تفسیر ’’اطاعت‘‘ بھی کی ہے۔ یعنی فرماں برداری میں آ جانا۔ یہ
بھی ’’اسلام‘‘ ہی کا ایک بیان ہوا۔ سلف کی تفسیر میں یہ
اختلافِ تنوع کی ایک مثال ہے۔ یعنی ایک ہی حقیقت کا بیان مختلف جہت سے۔
كَافَّةً: ابن کثیر اس کی تفسیر ابن عباس، مجاہدؒ، ابو العالیہؒ، عکرمہؒ،
ربیعؒ، سدیؒ، مقاتل بن حیانؒ، قتادہؒ اور ضحاکؒ سے لاتے ہیں: جمیعاً یعنی
سب۔ مجاہدؒ یعنی: تمام اعمال اور خداپرستی کے جملہ پہلو۔
بغوی ودیگر اس کے شان نزول میں کہتے ہیں: آیت کا نزول ہوا
حضرت عبد اللہ بن سلام اور ان کے چند ساتھیوں کے معاملہ میں جن کے ہاں سبت کا کچھ احترام اور اونٹوں کے گوشت اور دودھ
سے ناگواری ابھی تک چلی آتی تھی۔
یہودیت سے اسلام میں آنے والے بعض اصحاب نے رسول اللہﷺ سے اس بات کی بھی اجازت
چاہی کہ وہ راتوں کے قیام میں توریت کی کچھ تلاوت کر لیا کریں۔ تب اللہ تعالیٰ نے
وحی نازل فرمائی: اے وہ جو ایمان لائے اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ مجاہدؒ
کہتے ہیں: یعنی اہل اسلام کے احکام اور اعمال ہی کو پورا اختیار کر لو۔
ابن کثیر: یعنی دینِ محمدؐ
ہی کے تمام کے تمام شرائع و احکام میں داخل ہو جاؤ؛ اور اس میں کچھ ہرگز مت چھوڑو۔
رہی توریت تو اس کے ساتھ ایک اجمالی ایمان رکھنا کافی ہے۔
سعدی: دین کے جملہ شرائع و
احکام میں آ جاؤ۔ یہ نہیں کہ تمہارا اپنا خیال اور خواہش ہی تمہارا الٰہ ہو؛ شریعت
اس کے مطابق پڑے تو شریعت کی اتباع، اور اگر نامطابق ہو تو شریعت ترک ! اصل واجب
تو یہ ہے کہ تمہارا یہ خیال اور خواہش ہی شریعت کے تابع کرایا جائے؛ اور مقدور بھر
اسی آسمان سے اترے ہوئے امر کی پابندی ہو۔ جہاں
آدمی کی استطاعت نہ ہو وہاں بھی آدمی کی نیت یہی ہو کہ وہ پابندی اور پیروی اسی
خدائی دستور ہی کی کرے گا۔ پس جہاں عمل میں بےبسی ہو وہاں نیت میں پورا اترے؛ اور
پورے دین کا اتباع کرے۔ اس میں سے کوئی ایک چیز ترک نہ ہو۔
وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ۔ ابن
جریر طبری: شیطان بھی تمہارے لیے حرام اور حلال کا پورا ایک دستور رکھتا ہے۔ اس نے
بھی تمہیں باقاعدہ ضابطے اور شرائع دے رکھے ہیں۔ ان کی پیروی اب اسلام لے آنے بعد
کیسے؟ یہاں تو مکمل اسلام میں آنا ہو گا۔ شیطان کے طریقے موقوف۔ اتباع ہو گا تو اب
محمدﷺ کے ذریعے مشروع ٹھہرائے گئے طریقوں اور راستوں کا۔
سعدی: چونکہ اسلام میں
پورے کے پورے داخل ہونے کا کوئی تصور نہیں تاوقتیکہ شیطانی دستوروں کو چھوڑا اور
چھڑوا نہ دیا گیا ہو اور ان کے مخالف راہ اختیار نہ کروا دی گئی ہو؛ چنانچہ یہاں
خصوصی تنبیہ فرما دی: وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ’’دیکھنا
شیطان کے چلائے ہوئے راستوں پر نہ چلنا‘‘۔
إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ یعنی وہ
کوئی ڈھکاچھپا نہیں؛ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
سعدی: اور وہ کھلا دشمن
تمہیں جن راستوں پر لگائے گا وہ ہے سوء (برائی) یا فحشاء (لچرپن)۔ اس کے تانےبانے
ان دو صورتوں سے باہر نہ ہوں گے۔ اور انہی دو راستوں سے؛ وہ تمہارا خانہ خراب کروا
کر رہے گا، اگر تم اس کے پیروکار رہے۔
فَإِن زَلَلْتُم ’’پھر اگر
تم پھسل گئے‘‘۔
قرطبی: یعنی راہِ راست سے ہٹ گئے۔ زلل کا لفظ باعتبارِ اصل قدموں کےلیے ہے۔ مگر
بعدازاں یہ اعتقادات اور آراء و افکار کے معاملہ میں مستعمل ہوا۔
مقصد
یہ کہ: اعتقاد اورنظریے میں آدمی آسمانی عقیدہ و تہذیب پر نہ رہے؛ یہ ہوا زلل۔
طبری: ابن عباسؓ کی روایت
میں: زلل سے مراد ہے: شرک۔
مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ۔’’ان
بیّنات کے آجانے کے بعد بھی‘‘۔
طبری: اہل تفسیر کی ایک
تعداد نے یہاں ’’بیّنات‘‘ سے مراد لیا ہے: محمدﷺ اور قرآن۔ گو اس میں وہ تمام دلائل اور شواہد آ جائیں گے
جنہوں نے لوگوں پر اسلام کی حقانیت واضح کردی اور خدا کے پاس لوگوں کی حجت ختم کر
ڈالی۔
فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔’’تو جان
رکھو، اللہ غلبے وا لا حکمت والا ہے‘‘۔
سعدی: یہ ایک شدید وعید
اور تخویف ہے۔ یعنی ڈرا دینے کی بات۔
یعنی پھر خدا کے ساتھ
معاملہ کےلیے تیار رہو۔ وہ کوئی بےبس ہستی نہیں ہے۔
وہ محض سفارشات نہیں کرتا؛ حکم کرتا ہے۔ دستور دیتا ہے؛ لوگوں کے چلنے کےلیے
نہ کہ سنی ان سنی کر دینے کےلیے۔ عزت اور غلبہ کا مالک ہے اور اپنے نافرمانوں سے
نمٹنا جانتا ہے؛ اور جوکہ اُس کی حکمت اور دانائی کا مظہر ہے۔
طبری: خبر لینے میں
طاقتور۔ امر دینے میں حکمت کار۔
قرطبی: عزیز: جس کے ارادہ
کے پورا ہونے میں کوئی مانع نہ ہو۔ حکیم: جس کا فعل حکمت ہی حکمت ہو۔
بغوی: عزیز: وہ غالب جس سے
کوئی چیز چھوٹ کر نہ جا سکے۔ حکیم: جس کی بات اور فیصلہ ہمیشہ ہی درست ہو؛ غلطی کا
کوئی امکان نہ ہو۔
بغوی مزید لکھتے ہیں: قتادہ
نے اس آیت کے تحت کہا: اللہ کو پہلے ہی علم تھا کہ کچھ ہٹنے والے محمدﷺ کی راہ سے
لازماً ہٹیں گے۔ چنانچہ اس نے پہلے سے ہی اس پر وعید جاری فرما دی تاکہ ان پر حجت
اور سند رہے (اور سنبھلنے والے اس کی یہ وعید پڑھ کر سنبھل جائیں اور اپنا دستور
محمدﷺ والا ہی رکھیں)۔
پیچھے جو دو مقامات خط
کشیدہ ہوئے، ان پر ہم ذرا رکیں گے:
1۔ ظاہر ہے
عبد اللہ بن سلام سمیت سب صحابہ رسول اللہﷺ سے دین سیکھ رہے تھے؛ اور اس دوران
اگر انہوں نے رسول اللہﷺ کے سامنے کوئی سوال یا تقاضا رکھا تو وہ سیکھنے سکھانے کا
ہی ایک عمل تھا۔ کوئی صحابی ایسا نہیں جسے ایک بات رسول اللہﷺ کی طرف سے سکھائی
گئی اور وہ اسے قبول کرنے سے انکاری ہوا ہو۔ ہاں سیکھنے اور سمجھائے جانے سے پہلے
بڑی بڑی غلطیاں بھی ہوئیں۔
ان میں سے ایک: عبد اللہ
بن سلام کا اونٹوں کے گوشت یا دودھ کو اسلام لانے کے بعد بھی ناگوار جاننا۔ اس
لیے کہ پچھلے بعض شرائع میں وہ ایسا پاتے اور کرتے رہے ہیں؛ اور اس میں بھی دراصل
وہ خدا ہی کی عبادت کرتے رہے تھے۔ یہاں تنبیہ ہوئی: اسلام میں پورے داخل ہو جاؤ۔
یعنی پہلی سب چیزیں اب موقوف۔ صرف دستورِ اسلام۔
تو پھر ان لوگوں کی بابت
کیا خیال ہے جو اسلام میں آتے ہوئے آدھا ہندومت ساتھ اٹھا لائے ہیں؟ انگریز کے خوب
و ناخوب کو اپنی زندگی میں محکَّم ومستند مانتے ہیں؟ زندگی کے پیمانے اور معیارات
سابقہ انبیاء کے شرائع سے تو کیا؛ خدا کے دشمنوں اور انبیاء کے منکروں سے لیتے ہیں
اور اس پر ڈھیروں فخر بھی اور اس سے ہٹنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھنا بھی؟
اشیاء کی تحسین و تقبیح وہ محمدﷺ سے نہیں لیتے بلکہ اس کےلیے بےشمار معاملات میں
وہ کوئی اور ہی سرچشمہ رکھتے ہیں؟
’مسلمانی‘ کی اِس نئی قسم کی بابت آپ کا کیاخیال ہے؟ اور
قرآن سے ایسی مسلمانی پر کیسی وعید ملتی ہے؟
2۔ آج جب
ملتوں کے مابین گھمسان کا رن ہے، ہمارا زیادہ تر مذہبی خطاب ’اعمال‘ سے متعلق ہی رہ گیا ہے۔ جبکہ ’’اعتقاد‘‘ اور ’’ملت‘‘ ہمارے اس (مذہبی) خطاب سے تقریباً غائب۔ چنانچہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً والی
اِس آیت کا زیادہ تر حوالہ ہمارے ان خطبوں اور وعظوں میں بعض عملی کوتاہیاں ختم
کروانے تک محدود رہتا ہے! اس سے آگے ان حضرات
کی نظر ہی نہیں جاپاتی۔ بےشک عملی کوتاہیاں بھی شریعت میں مذموم ہیں۔ ان کا
تدارک ہونا چاہئے۔ اور اس پر زور بھی دینا چاہئے۔ لیکن اِس آیت کا اصل پس منظر ہے: تحلیل اور تحریم۔ خوب و ناخوب کے پیمانے۔ غلط اور صحیح کے معیارات
کسی اور سرچشمے سے نہیں بلکہ صرف اور صرف شرعِ محمدؐ سے لینا۔ دینِ اسلام کے سوا ہر شریعت، ہر دستور اور ہر تہذیب سے شعوری
طور پر بیزار ہو جانا۔ اپنی نظریاتی وشعوری ساخت نبیؐ سے کروانا۔ ’’ملتوں
کے فرق‘‘ کو یہاں نمایاں سے نمایاں تر رکھنا۔
چنانچہ سعدی کے یہ الفاظ
لائق توجہ ہیں:
اصل
واجب تو یہ ہے کہ تمہارا یہ خیال اور خواہش ہی شریعت کے تابع کرایا جائے؛ اور
مقدور بھر اسی آسمان سے اترے ہوئے امر کی پابندی ہو۔ جہاں آدمی کی استطاعت نہ ہو وہاں بھی آدمی کی نیت یہی ہو کہ وہ پابندی اور
پیروی اسی خدائی دستور ہی کی کرے گا۔ پس جہاں عمل میں بےبسی ہو وہاں نیت میں پورا
اترے؛ اور پورے دین کا اتباع کرے۔ اس میں سے کوئی ایک چیز ترک نہ ہو۔
غرض ایک نظریاتی مسلمان کی
پیدائش سب سے پہلے ضروری ہے جو یہاں کے جملہ ادیان، شرائع، احکام، دساتیر، قوانین،
طرزہائےحیات اور تہذیبوں کو ردّ کرتا ہو، اور اِن سب امور میں اپنے لیے مرجع اور
سند صرف اور صرف دینِ محمدؐ کو مانتا
ہو۔
آج
جب مسلم ذہن پر دنیا بھر کے افکار، نظریات، نظام ہائے تعلیم، اور تصورہائے حیات حملہ
آور ہیں.. کتاب کا یہ سبق ملت کے بچےبچے کو ازبر کرانا ہوگا۔
(نوٹ:
ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور
پر شامل ہوتے ہیں)