ابتدائیہ
ابن
تیمیہؒ کی تالیف
اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ
الْمُسْتَقِيْم
کتاب کا پورا نام:
اقتِضَاءُ الصِّرَاطِ
الْمُسْتَقِیْمِ مُخَالَفَةَ أصْحَابِ الْجَحِیْمِ
جس کا لفظی ترجمہ بنے گا:
’’تقاضا کرنا صراط مستقیم کا، کہ خلاف کریں دوزخی
ملتوں کے‘‘۔
سورۃ فاتحہ کا ایک مرکزی مضمون۔ اللہ
کی حمد، تعظیم، توحید اور استعانت کے بعد جو ایک مدعا عبادت
گزار کی زبان پر آتا ہے وہ ہے: صراطِ مستقیم کی
ہدایت پانا۔ مگر بات ’’صراطِ مستقیم‘‘ کی دعاء پر ختم نہیں کروا دی جاتی۔ اِس کی نشاندہی کا مضمون بھی عین اسی مقام پر سرے
لگوایا جاتا ہے۔ باقاعدہ دو جہت سے:
1)
صراط کی ایک
پہچان: صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ
2) عین اسی صراط کی دوسری
پہچان: غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّالِّیْنَ
یعنی بات مجرد abstract یا تصوراتی conceptual تو رہنے ہی نہیں دی گئی۔ بلکہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ ایک مجسم concrete واقعاتی factual صورت میں آپ کے سامنے لادھرا گیا۔ اپنی دو عملی جہتوں two practical dimensions کے ساتھ۔
چنانچہ.. اُن ملتوں کا تو ذکر
ہی کیا جو کسی آسمانی ہدایت پر چلنے کی سرے سے دعویدار نہیں (کیونکہ ’’ہدایت‘‘ ہے ہی خدا کا دکھایا ہوا راستہ)؛ ہاں جن لوگوں کا دعویٰ آسمانی ہدایت پر ہونے کا
ہے، آپ کے سامنے وہ یہ دو مجسم کردار ہیں:
1)
ایک ’’أنْعَمْتَ
عَلَیْہِمْ‘‘۔ جس کی تفسیر ہوئی: مِنَ
النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ (النساء: 69) یعنی انبیاء،
صدیقین، شہداء اور صالحین۔
یہ جو راستہ چلے وہی صراطِ مستقیم ہے۔ اِن کے قدموں کے پیچھے قدم رکھتے چلے جانا ہی راہِ راست پانا
ہے: ایک مجسم concrete واقعاتی factual معنیٰ میں صراطِ
مستقیم۔ ]نہ کہ نکتوں کی بُنتی اور محض ’غوروخوض‘ سے دریافت
ہوتا جانے والا ’صراطِ مستقیم‘ جو روز اپنی ایک نئی تفسیر سے آشنا کرایا جائے اور ہر تھوڑے تھوڑے زمانے بعد اس کا ’ٹیڑھ‘ نکالنے والے ظہور فرمائیں! ہر نیا
آنے والا یہاں ایسےایسے انکشاف کرے کہ اِس (نکتہ ور) کے آنے سے صراطِ مستقیم ایک
بالکل نئے رخ پر سمجھ آنا شروع ہو اور
پچھلے اس میں خبط مارتے دکھائی دیں![ انبیاء کا سلسلہ محمدﷺ پر اختتام کو پہنچا البتہ
آپؐ کے صحابہ یقینی طور پرصدیقین
وشہداء کی جماعت ہیں اور نصوص کی پیروی میں
ان کا چلا ہوا راستہ جو وہ ہادیِ برحقﷺ سے براہِ راست تعلیم اور تربیت پا کر چلے (وَيُزَكِّيهِمْ
وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ) اور آگے چلا کر گئے، ایک مجسم concrete حقیقی factual معنیٰ میں صراطِ مستقیم ہے۔[i]
2)
دوسرا کردار: ’’الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ‘‘ جس کی تفسیر ہوئی: یہود۔ اور ’’الضَّالِّیْنَ‘‘ جس کی تفسیر ہوئی: نصاریٰ۔
یہ جو راستہ چلے وہ صراطِ مستقیم سے انحراف ہے اور آسمان پر ایک کھلا بہتان؛ لہٰذا صراطِ مستقیم کا راہی ہونے کےلیے ضروری ٹھہرا کہ ان (مغضوب علیہم
و ضالین) کی راہ سے آپ کی بیزاری رہے۔ یہ آسمانی راستے پر ہونے کے دعویدار
ہیں مگر آسمان کی جانب سے ان سے صاف اظہارِ بیزاری کر دیا گیا؛ تاوقتیکہ یہ آخری آسمانی ہدایت کا اتباع نہ کر لیں۔ پس ان کی راہ سے قدم قدم پر پناہ مانگنی ہے
اور ان کے نشاناتِ قدم سے پل پل چوکنا رہنا ہے۔
یہ ہوا صراطِ مستقیم؛ ایجابی و سلبی ہر
دو جہت سے۔
اور اِس سبق کا اعادہ ہر ہر رکعت میں۔
یہی ایک مدعا ہر ہر نماز میں، کئی کئی
بار!
بلکہ نماز ہی یہ ہے۔ صراطِ مستقیم کا سرا تھامنا
اور اِس راستے پر رہتے ہوئے خدا کی عبادت کا دم بھرنا۔ مدعا بس یہ، جس سے آگے
پیچھے حمد اور تسبیح ہے!
*****
غرض ابن تیمیہؒ کی تالیف اقتِضَاءُ
الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ سورۃ فاتحہ کے اِسی اختتامی مضمون سے بحث کرتی ہے، یعنی ’’راستے کے مباحث‘‘، ایک مجسم concrete واقعاتی factual صورت میں۔ دو علیحدہ علیحدہ راستے۔ دو آمنےسامنے
کے صفحات۔ دو الگ الگ جماعتیں:
1)
ایک جانب ’’أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘‘، اور
2)
دوسری جانب مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ اور ضَّالِّیْنَ۔
ایک کی اتباع۔ اور دوسرے سے بیزاری۔
ایک کا راستہ پانے کی دعائیں اور التجائیں۔ اور دوسرے کی راہ پر قدم جا پڑنے سے
خدا کی پناہ؛ آخری حد تک ہوشیار اور چوکنا۔
یہ ہے ہدایت یافتہ ہونا۔ یہ ہے صراطِ مستقیم کی عملی نشاندہی۔ اِس کا نام ہے ملت۔
یعنی ایک پختہ، روشن، ممیّز راستہ۔
’’ملت‘‘ کا کوئی معنیٰ ہی
نہیں جب تک وہ ایجابی اور سلبی ہر دو جہت سے ممیّز distinct نہ ہو جائے۔
ظاہر ہے ایسا
نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ یا دیگر باطل
ملتوں کے پیروکار خدا کی کوئی ’کم‘ عبادت کرتے ہیں؛ اور خاص اِسی باعث خدا ان سے
ناراض ہے! اور نہ ایسا ہے کہ ملتِ حق کے لوگ خدا کی عبادت کرنے میں کبھی کوئی کوتاہی
نہیں برتتے؛ اور بس اِس سبب خدا ان سے خوش رہتا ہے! قصور اور گناہ ملتِ حق والوں سے بھی سرزد ہوتے ہیں۔ جبکہ خدا کی جستجو میں بڑی بڑی عبادتیں اور ریاضتیں
باطل ملتوں کے لوگ بھی کر تے ہیں۔ اس کے باوجود؛ ایک ملت وہ جس کے گناہوں/قصوروں کی (سزا کے ساتھ، یا سزا کے
بھی بالکل بغیر) معافی کی امید رہتی ہے۔ جبکہ دوسری ملت وہ جس کی نیکیاں تک ردّ ہو جانا قطعی:
قُلْ إِنْ
كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ. (آل عمران: 32)
اے نبی فرما دو: اگر تم خدا سے محبت کرنے والے ہو تو پیروکار ہو جاؤ میرے۔ تب اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے قصور
معاف فرمائے گا؛ اور اللہ تو ہے ہی غفورٌ رحیم۔
قُلْ أَطِيعُوا
اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ
الْكَافِرِينَ (آل عمران: 33)
اے نبی فرما دو: اطاعت اختیار کر لو اللہ کی اور اِس رسول کی۔ پھر اگر وہ پھر
جائیں تو اللہ ایسے کافروں کو دوست رکھنے والا نہیں۔
پس یہ ہوا ’’ملتوں‘‘ کا مسئلہ۔ ’اعمال‘ کی نوبت اِس کے بعد۔ پہلے آپ کو ایک روٹ پر چڑھ
آنا ہوتا ہے اور اس کے ماسوا راہوں سے صاف بیزاری کر دینا ہوتی
ہے۔ ہاں جب اس راستے پر چڑھ آتے ہیں تو پھر خواہ آپ آہستہ چلیں یا تیز، یا
کسی وقت لڑکھڑا جائیں یا گِر کیوں نہ پڑیں، جب تک اس صحیح راستے میں
ہیں جو باطل سے الگ ہو آیا ہے اور آپ کو خدا کی جانب یکسو کرا چکا ہے، آپ برابر خدا کو پانے کی آس رکھتے ہیں اور گناہگار
سے گناہگار حالت میں بھی خدا کی رحمت اور مغفرت کے امیدوار:
وَرَحْمَتِي
وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا
لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا
يُؤْمِنُونَ. الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ
الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ
وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ
عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ
وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ
الْمُفْلِحُونَ (الاعراف:
156، 157)
اور میری رحمت ہر چیز پر وسیع
ہے۔ پس میں اپنی وہ رحمت نام کردوں گا ان لوگوں
کے جو ڈر جانے، زکات دینے اور میری آیات پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔ جو
پیروی اختیار کرنے والے ہوں گے (میرے) اس پیغمبر، نبی امیؐ کی؛ کہ جس کا ذکر وہ لکھا
ہوا پاتے ہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں، وہ (نبیؐ) جو انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک
چیزیں حلال او ر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن
پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ پس وہ جو اِسؐ پر ایمان لائیں اور اِسؐ کی حمایت
اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اِسؐ کے ساتھ نازل کی گئی
ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
یہ وجہ ہے کہ
توحید اور رسالت کے بغیر اعمال اگر پہاڑ بھی ہوں تو وہ دھول کی طرح اڑا دیے جائیں
گے۔ البتہ توحید اور رسالت کے ساتھ گناہوں کے پہاڑ بھی ہوں تو معاف ہونے کی آس ہے۔
اعمال کی تہہ میں یہی حقیقت بار بار دیکھی جاتی ہے۔ جتنی جان آپ کے اِس اعتقاد میں
ہو گی اعمال کی قبولیت اُسی کے بقدر بڑھے گی۔
یہ قوتِ یقین، یہ دلجمعی، یہ وثوق اور یہ یکسوئی ہی اصل خداپرستی اور عبادت
کی روح ہے؛ اور اِسی کا نام حنیفیت۔
’’ملتوں کا فرق‘‘ پس سب سے پہلا اور سب سے بنیادی سبق
ٹھہرا۔ مکی و مدنی قرآن کا ایک بڑا حصہ شروع تا آخر اسی ایک بنیاد کو پختہ کراتا
چلا جاتا ہے۔
"ملتوں کا فرق".. ابن تیمیہؒ کی اقتِضَاءُ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ مُخَالَفَةَ أصْحَابِ الْجَحِیْمِ کا یہی اصل موضوع ہے۔ یہاں ہم اس کے
چیدہ چیدہ مقامات کا مطالعہ کریں گے۔
[i] صحابہؓ کا مدرسہ جو تفسیرِ دین میں
اپنے باقاعدہ اصول و معیارات رکھتا ہے اور جس کی سب سے بڑی پہچان
ہے: اس کا تسلسل۔ ’’صراط‘‘ کی یہ جہت (أنعمتَ علیھم) ہماری کتاب ’’فہمِ دین کا مصدر‘‘ میں زیربحت آئی ہے۔ جبکہ اس کی دوسری جہت (غیر المغضوب علیھم ولا
الضالین) اِس کتاب میں۔