فصل1
اقتضاء
الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو
استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
گھپ اندھیرا تھا تو جہان میں محمد ﷺ مبعوث ہوئے
یہ بات نہایت خوب
سمجھ لو:
دنیا میں رسولوں
کی آمد کا سلسلہ بڑی دیر سے بند تھا جب
اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺکو مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا۔ قرآن کے بقول: عَلیٰ فَتْرَۃٍ مِنَ الرُّسُلِ (المائدۃ: 19) ’’رسولوں کے ایک بڑے انقطاع کے بعد‘‘۔
یہ اور دیگر دلائل سے ثابت ہے
کہ پیغمبر آخر الزمانﷺ کی بعثت کے وقت دنیا میں کوئی واضح ہدایت اور آسمانی روشنی
سرے سے نہ پائی جاتی تھی۔ یعنی دنیا تاریکی میں ڈوب چکی تھی۔ روشنی اب ہونی تھی تو صرف رسول اللہﷺ کے دم سے۔
(ازرُوئے حدیث) آپﷺ کی
بعثت ایک ایسے وقت ہوئی جب اہل زمین، عرب کیا عجم، سب خدا کے ہاں ناقبول
اور ردّ تھے۔ سوائے
اہل کتاب کے کوئی ا ِکادُکا باقیات؛ اور
یہ بھی دنیا چھوڑ نہیں چکے تو عنقریب چھوڑ جانے والے تھے۔
چنانچہ نبیِ آخر الزمانﷺ کی
بعثتِ باسعادت کے وقت دنیا عموماً دو ہی قسم کے انسانوں پر مشتمل رہ گئی تھی:
أ.
یا کتابیّ: یعنی جو شخص کسی آسمانی کتاب سے وابستہ ہو۔ لیکن
o وہ کتاب تبدیل
ہوچکی ہوگی،
o یا بیک وقت تبدیل
بھی ہوگی اور منسوخ بھی،
o یا پھر سرے سے ناپید؛
یعنی اس کا علم نابود اور اس پر عمل متروک۔
ب. یا اُمّیّ: یعنی جو سرے سے کوئی کتاب
نہیں رکھتا خواہ وہ عرب سے ہو یا عجم سے؛ بس اِس کو جو اچھا لگا یہ اس کو پوجنے
لگا اور خیال کیا کہ یہی اُس کےلیے بھلا ہے
o
کوئی ستارے کو پوجنے میں لگا
ہے،
o
تو کوئی بت کو،
o
تو کوئی قبر کو،
o
تو کوئی مورت کو۔
o
وغیرہ
غرض انسانیت جاہلیت کی بدترین
حد کو چھوتی تھی۔ جن عقائد کو علم سمجھا جاتا وہ جہل ہوتا۔ جن اعمال کو صلاح سمجھا
جاتا وہ فساد ہوتا۔ کوئی بڑا ہی خوش قسمت ہوا تو اُس کو علم یا عمل کی کوئی ایسی
صورت میسر آگئی جو انبیاء کے ترکے سے باقی رہ گئی تھی؛ البتہ حق اور باطل اس میں
بھی گڈمڈ، اور تمیز دوبھر۔ عبادت کے اعمال ہو رہے تھے مگر ان کا کچھ ہی حصہ ہوگا
جو خدا کی جانب سے مشروع legislated/prescribed ہو؛ اکثر انسان
ساختہ man-made تھا جو اصلاحِ نفس
کی صلاحیت سے قریباً عاری تھا۔
یا پھر عقل اور فلسفہ کی
پیشوائی تھی۔ قلب و نظر کی سب دولت طبیعیات اور ریاضیات پر لنڈھا دی جاتی۔ اصلاحِ
اخلاق کے نسخے مشقت کا دوسرا نام تھا؛ جان جوکھوں کی محنت بھی کچھ ثمر نہ دیتی اور
اگر دیتی تو وہ انتہائی ناکافی ، جس سے انسانیت کی بھوک مٹے اور نہ پیاس۔ پھر وہ
بھی ایک ایسی مضطرب حالت میں کہ اس کا باطل عنصر، حق سے کئی گنا بڑھ کر۔ ساتھ میں
سرپھٹول اور کثرتِ آراء؛ بحثیں حد سے زیادہ اور دلیلیں ناپید۔
یہ وہ وقت تھا جب اللہ نے
نبوتِ محمدﷺ کی برکت سے انسانیت کو ہدایت بخشی۔ آپﷺ کی لائی ہوئی بینات اور ھدیٰ
کے ذریعے اہل زمین کا بیڑہ پار لگایا۔ ایک ایسی ہدایت جس کی تجلّی لفظوں کے بیان
سے باہر ہے اور بڑے بڑے عارفوں کے اندازے سے بڑھ کر۔ تاآنکہ آپﷺ پر ایمان لانے
والی امت کو عموماً اور اس امت کے اہل علم کو خصوصاً ایک ایسا کمال کا علم نصیب
ہوا اور ایک ایسے اعلیٰ عملِ صالح ، اخلاقِ
برگزیدہ اور راستی پر مبنی سنتوں اور ضابطوں کا سراغ ملا.. کہ اگر تمام قوموں
کی حکمت اور دانائی جمع کر لی جائے، علم کی صورت میں بھی اور عمل کی صورت میں بھی،
اور اس کے سب شوائب بھی اُس سے نکال دیے جائیں، تو اقوام عالم کی یہ سب حکمت و
دانائی مل کر بھی اُس علم و دانش کے آگے جسے لے کر محمد ﷺ مبعوث ہوئے پرکاہ کی
حیثیت نہ رکھے۔ جس پر تعریف کیجئے تو اللہ وحدہٗ لاشریک کی۔
اِس مبحث کے دلائل اور شواہد
بیان کرنے کا البتہ یہ مقام نہیں۔
حدیث میں فَمَقَتَھُمْ عَرَبَھُمْ وَعَجَمَھُم. لفظ مقت کے معنیٰ میں امام نوویؒ کہتے ہیں: أشَدُّ الْبُغْضِ۔ یہی لفظ (مقت) قرآن میں کئی
جگہ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورۃ غافر (آیت ۱۰) میں: لَمَقْتُ اللّٰہِ أکْبَرُ مِنْ مَقْتِکُمْ لِأنْفُسٍکُمْ۔یہاں پر؛ بیشتر اردو تراجم میں اس کا معنیٰ
’’بیزاری‘‘ کیا گیا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا جو معنیٰ بنتا ہے وہ یہ کہ اللہ
تعالیٰ نے تمام اہل زمین کو ناقبول disapprove کر دیا تھا۔ یعنی قبول approve ہونے کےلیے ان کو محمدﷺ کے پیچھے چل کر آنا ہو
گا۔
ابن تیمیہ کتاب
کی عین ابتداء میں یہ مبحث لائے ہیں کہ: چودہ سو سال پہلے ہی جملہ اہل زمین سے اللہ
رب العزت کی بیزاری ہو چکی ہے۔ ان کے عقائد اور اعمال سب خدا کے ہاں مسترد ہیں۔
پوری انسانیت خدا کے ہاں اُسی وقت سے ردّ disapproved تھی اورہے، سوائے اُن خوش
بختوں کے جو (بصورتِ اسلام) محمد ﷺکے ذریعے دی جانے والی آزمائش میں پورا اتریں
اور خدا کے ہاں سرخرو ہوں۔
’گلوبلائزیشن‘ کی
دہلیز پر قدم رکھنے کے لیے پہلا سبق!