فصل6
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
صراطِ مستقیم کا مغضوب علیہم اور ضالین سے فرق
ظاہر باطن ہر ہر سطح پر مطلوب
یہ
بھی جان لو کہ صراطِ مستقیم ایک وسیع حقیقت ہے:
1)
صراطِ
مستقیم میں باطن سے متعلقہ امور بھی آتے ہیں، یعنی وہ حقائق جو قلوب میں پائے جاتے
ہیں۔ مثل: اعتقادات اور اِرادات۔
2)
صراطِ
مستقیم میں امورِ ظاہرہ بھی آتے ہیں مثل: اقوال اور افعال۔ یہ اقوال اور افعال: ’’عبادات‘‘
بھی ہو سکتے ہیں جیسے نماز و روزہ وغیرہ، اور ’’عادات‘‘ بھی ہو سکتے ہیں جیسے
طعام، لباس، نکاح، رہن سہن، اجتماع، افتراق، سفر، اقامت اور نقل وحرکت وغیرہ۔
اِن
امورِ باطنہ وظاہرہ کے مابین ایک خاص مناسبت ہے:
1)
دل
میں جن احوال کا گزر ہوتا ہے وہی امورِ ظاہرہ کا موجب بنتے ہیں۔
2)
جبکہ
ظاہر میں جن اقوال اور اعمال کا چلن رہتا ہے وہی دل کے احوال کو جنم دیتے ہیں۔
اب
وہ جو شریعت کا حکم تھا کہ مغضوب علیہم اور ضالین کی راہ سے ہٹ کر چلنا ہے، وہ
امورِ باطن کی بابت بھی ہے اور امورِ ظاہر کی بابت بھی۔ اللہ نے محمدﷺ کو جس پتے
کی بات کے ساتھ جہان میں بھیجا ہے، اور جوکہ آپﷺ کا طریقہ اور راستہ ہے یعنی آپﷺ
کی شریعت اور آپﷺ کا منہاج جس کو خود اللہ نے اپنے بندوں کےلیے وضع فرمایا...اس
’’پتے کی بات‘‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ نے اس میں وہ اعمال اور اقوال مشروع
ٹھہرائے جو آپﷺ کے پیروکاروں کو مغضوب
علیھم اور ضالین سے چھانٹ دیں۔ چنانچہ انہیں دل کے احوال اور اعتقادات ہی میں نہیں ظاہری
امور میں بھی (بےشمار مقامات پر) مغضوب علیہم اور ضالین کی مخالفت کا حکم فرمایا؛
چاہے اکثریت کو یہ امور بظاہر معمولی و بے ضرر ہی کیوں نہ نظر آئیں۔
ظاہری طریقہ و سیرت میں مغضوب
اور ضالین کی مخالفت کا یہ حکم کیوں؟
یہ
کئی وجہ سے ہے، جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے:
۱۔ ظاہری
وصف میں مشترک ہونا دو متشابہ چیزوں کے مابین ایک نسبت کراتا اور ایک باہم مماثلت لے
کر آتا ہے؛ جو بالآخر اعمال اور رویوں ہی میں دونوں کے مابین ایک موافقت لے آنے پر
منتج ہوتا ہے۔ عام دیکھنے میں بھی یہی آیا: اہل علم والی پوشاک زیب
تن کر رکھنے والا ایک شخض اپنے آپ کو ایک درجہ اہل علم کا ساتھی شمار کرنے لگے گا۔
ایک فوجی وردی پہن رکھنے والا شخص اپنے اندر کسی درجہ فوجی رویے محسوس کرے گا اور
اس کی طبیعت ایک فوجیانہ میلان اختیار کر لے گی، سوائے یہ کہ ایسا ہونے میں کوئی
مانع حائل ہو۔
۲۔ جبکہ
ظاہری وصف میں مختلف ہونا ہردو کے مابین ایک مغایرت لے آتا ہے۔ اور یہ ظاہری
مغایرت (مغضوب علیھم اور ضالین سے ظاہری امور میں بھی مختلف نظر آنا) تمہیں غضب
اور ضلال کے موجبات سے ہی دور کر دیتا؛ اور ھدیٰ
و انعام کے موجبات سے ہی قریب کر دیتا ہے۔ نیز
یہ حزب اللہ (جوکہ فلاح پانے والا ہے) اور حزب الشیطان (جوکہ گھاٹا کھانے والا ہے)
کے مابین موالات کے رشتے کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے کالعدم کرا دینے پر منتج ہوتا
ہے۔
اور
یہ ایک نہایت عظیم حقیقت ہے: دل جتنا زندگی سے پُراور اسلام سے آشنا ہو گا _ _ اور اسلام بھی وہ نہیں جو چند ظاہری اعمال اور
باطنی اعتقادات کا مجموعہ ہو _ _ میرا
مقصد ہے دل جتنا اسلام کی حقیقت سے آشنا ہوگا اُس میں یہود اور نصاریٰ سے مفارقت
کا جذبہ اُتنا ہی توانا ہوگا اور مسلمانوں میں عام ہو جانے والے یہود و نصاریٰ کے
اخلاق اور اعمال سے اُس کا گھن کھانا اور مزاحمت کرنا اُتنا ہی شدید ہوگا۔
۳۔ ظاہری
وصف میں مشترک ہونا ہردو کے مابین ایک خلط کا موجب بنتا ہے۔ یہاں تک کہ آنکھ ان دو
حقیقتوں کے مابین تمییز کی صلاحیت کھو دیتی ہے کہ:
ö
ایک
جانب وہ ہیں جن کو ہدایت بخشی گئی اور انعام کیا گیا اور خوشنودی کے وعدے فرمائے
گئے،
ö
اور
دوسری جانب وہ جن پر غضب کیا گیا اور جو راہ بھٹک چکے۔
یہ ساری بحث ابھی
وہاں ہے جہاں ظاہری اشتراک میں سوائے مشابہت کے کوئی اور خرابی نہ ہو۔ رہ گیا
اشتراک اُن اشیاء میں جو اُن اقوام کے موجباتِ کفر میں آتی ہیں تو یہ کفر کے شعبوں
میں سے ایک شعبہ ہوگا۔ یہاں؛ جس درجہ کی معصیت خود اُن کا فعل ہوگا اُسی درجہ کی
معصیت اُن کی موافقت کرنے میں ہوگی۔
دین
کا یہ ایک نہایت اہم اصل ہے؛ اور اس کی تہہ کو پانا حد درجہ ضروری۔
(کتاب کا صفحہ 80
تا 83)