علی دوابشہ، ڈیڑھ سالہ شہید
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
علی
دوابشہ: ڈیڑھ سالہ شہید
تحریر :عبد اللہ منصور
زخم زخم فلسطین، لہو لہو القدس، آئینہ ٔ دِل سیپارہ ہے۔
سسکیاں گھٹ چکیں ،حلق میں کانٹے پڑے ، چیخیں صدا بصحرا ہوئیں، مگر زندگی چلتی رہی۔
اٹھارہ ماہ کے علی دوابشہ کا قتل فلسطین میں خون کی ارزانی کی ایک اور
داستان ہے۔ علی ڈاکٹر بن سکتا تھا، انجنیئر بن سکتا تھا، ادیب اور آرٹسٹ بن سکتا
تھا لیکن صہیونی قبضے میں وہ کوئلہ بنی لاش ہی بن سکا۔ اسرائیلی قبضے کی اس سے
صحیح تفسیر شائد ممکن نہیں۔ جہاں خواب کرچی کرچی ہی نہیں ہوتے بلکہ انہیں بُننے
والے دل بھی پارہ پارہ کیے جاتے ہیں۔
علی اپنے والد سعد، والدہ رِہام اور چار سالہ بڑے بھائی
احمد کے ساتھ نابلس کے گاؤں 'دوما' میں رہائش پذیر تھا۔ زندگی تھی ہی کیا! ایک
مسکراہٹ ایک کھلکھلاہٹ۔ یہاں تک کہ اس کے گھر کے قریب یہودی آبادکاروں کی بستی سے
کچھ جلّاداسے اور اس کے خاندان سے ان جرائم کا انتقام لینے آپہنچے جو انہوں نے
کبھی کیے ہی نہ تھے۔ ان کا جرم شائد یہی تھاکہ وہ صدیوں سے ارضِ فلسطین میں آباد
تھے۔ رات کے اندھیرے میں دو یہودی آبادکار
گھر پر حملہ کرتے ہیں۔ پہلےگھر کی دیوار پر عبرانی میں نعرے لکھتے ہیں۔ یہ
نعرے ایک خفیہ یہودی شدت پسند تنظیم کے مخصوص نشان ہیں۔ عبرانی زبان میں 'انتقام' اور 'مسیحا زندہ
باد' لکھنے کے بعد وہ سوئے ہوئے مکینوں پر دو بم پھینکتے ہیں۔ دھماکے کے ساتھ گھر
کے درودیوار آگ پکڑ لیتے ہیں اور آباد کار اپنی بستیوں کی سمت فرار ہوجاتے ہیں۔
علی جلتے ہوئے وہیں شہید ہوجاتا ہے۔ اس کے والد، بھائی اور والدہ ہسپتال لائے جاتے
ہیں۔ ان کے جسم 70 فیصد جل چکے ہوتے ہیں۔
اس کے والد اور پھر اس کی والدہ بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوجاتے
ہیں۔10 اگست کو اسرائیلی حکومت قتل کے تمام ملزمان کو رہا کردیتی ہے جنہیں وہ
کاغذی کارروائی کے طور پر حراست میں رکھے ہوئے تھی۔
'دوما' تین ہزار کی آبادی کا چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس کے
اطراف میں تین غیر قانونی یہودی بستیاں آباد ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق
مقبوضہ مغربی کنارے میں 2015 کے آغاز سے
اب تک یہودی آبادکاروں کے فلسطینیوں پر 120 حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی
حکومت ان آبادکاروں کی مکمل پشت پناہی کرتی ہے۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم
'ییش دِن '(Yesh Din)کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے
مطابق فلسطینیوں کی جانب سے
کی جانے والای شکایات میں سے 92.6 شکایات پر اسرائیلی حکومت کی جانب سے
کوئی مقدمہ ہی قائم نہیں کیا جاتا۔ اسی
طرح یہودی آبادکاروں کی جانب سے قتل کے
جرائم میں اگر مقدمہ قائم کیا جاتا ہے تو اسرائیلی عدالت کی جانب سے ملنے والی سزا
کو وزیرِ اعظم اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرکے نہ ہونے کے برابر کردیا کرتا
ہے۔رہا بین الاقوامی قانون اور بنیادی انسانی حقوق تو یہ ویسے ہی فلسطینی عوام کے
لیے پائے ہی نہیں جاتے اور جو چیز تکلیف دیتی ہے وہ ہے عالمی برادری کا مکمل سکوت
۔ جسے دودھ پیتے بچوں کی سسکیاں جگا نہ سکیں
پھر ان کے لیے صورِ اسرافیل ہی رہ جاتا ہے۔
|
|
|
|
|
|