جوابی ’’بیانیہ‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’استعماریہ‘‘
بشکریہ: نادر عقیل انصاری
مستعار سیکشن
میں، تحریر کے مضمون یا اسلوب سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
(ادارتی نوٹ)
احقر 86ء میں جاوید غامدی صاحب سے
متعارف ہوا، اور تقریباً بیس برس مختلف حیثیتوں میں المورد اور اس کی فکر سے
وابستہ رہا۔ میں اس دوران المورد کا صدر رہا، ماہنامہ اشراق اور انگریزی ماہنامے ’’رینی ساں‘‘ کا مدیر رہا، اور المورد میں پڑھا
بھی اور پڑھایا بھی۔ اس تمام مدت کے دوران غور و فکر اور مطالعہ جاری رکھا۔ غالباً
2005 کے قریب مجھے اس فرقے سے دینی و فکری اختلافات پیدا ہونے شروع ہوئے۔ مجھے
احساس ہونے لگا کہ غامدی صاحب کے کام میں بعض بنیادی دینی اور علمی سقم ہیں۔ جاوید
غامدی صاحب اور المورد کے رفقاء کے ساتھ بہت گفتگوئیں ہوئیں، مذاکرے اور مباحثے
ہوئے، حتیٰ کہ تحریری تبادلہ بھی ہوا، جو سنہ 2010ء تک جاری رہا، جس میں درجنوں
خطوط کا تبادلہ ہوا۔ لیکن اس تبادلے سے اس فرقے کے بارے میں میرے نتائجِ فکر کی
تصدیق ہی ہوئی۔ میری بعض تحریروں سے کچھ قارئین کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ جاوید
غامدی صاحب سے میرے اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ منکرِحدیث ہیں۔ یہ درست نہیں
ہے۔ منکرِحدیث تو وہ ہیں ہی، لیکن ان کی اصل غلطی یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ
دین کی تمام نصوصِ مطہرہ کو مغربیت کی گاڑی میں جوتنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس
اعتبار سے انکارِ حدیث انہیں موافق آیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ہولناک نتیجہ یہ نکلا
ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی تعبیر پر بھی استعماری جدیدیت کی حاکمیت قائم کرنے کی
سعی کی ہے۔ قرآن مجید کی متجددانہ اور استعماری تعبیر اور انکارِ حدیث مقاصد
نہیں، ذرائع ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ جدیدیت کا
تہذیبی، علمی، اور فکری حملہ ہے، جس کے آگے غامدی صاحب دانستہ یا نادانستہ سپر ڈال
چکے ہیں۔ وہ مغربی فکر سے کوئی زیادہ واقف نہیں ہیں، لیکن اس کا جو مبتدیانہ فہم
رکھتے ہیں، اس کی وجہ سے – اور اس سے زیادہ مغربی تہذیب کے اقتدار اور غلبہ کی
وسعت و گیرائی اور اس کی چکاچوند کے آگے فکری بےبسی کی وجہ سے – اسلام کو مغربی
تہذیب کا محتاج تسلیم کر چکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دینی نصوص کو اس مقصد میں پوری
طرح کھپا دیا ہے۔ مئے فرنگ کے ایک دو گھونٹ لے کر ہی ان کے علم و فکر شل ہو گئے،
اور یہ شطحات ان کی زبان سے اسی عالمِ سکر میں صادر ہوئی ہیں: ’’اب جہاد لاعلائے کلمۃ الحق حرام ہے‘‘، ’’ہمارے دور میں جزیے کا نفاذ غیراسلامی
ہے‘‘، قبائلی مسلمانوں کی طاقت ختم کرکے
انہیں تحلیل کردینا چاہئے، زکوٰۃ کا نصاب مقرر کرنے کا حق حکومت کو ہے‘‘، ’’توہین رسالت اور ارتداد کی کوئی سزا
نہیں‘‘، ’’جمہوریت عین اسلام ہے‘‘، ’’شادی شدہ زانی و زانیہ کےلیے رجم کی
سزا غیراسلامی ہے‘‘، ’’قومی ریاست کوئی کفر نہیں‘‘! جو اہل علم ان کی دینی آراء سے واقف
ہیں وہ اس کی تصدیق کریں گے کہ اپنے تفردات اور اپنی تمام ما بہ الامتیاز آراء کے
نتیجے میں، انہوں نے جدیدیت کے کسی نہ کسی پہلو کو ’’قرآنی سند‘‘ مہیا کرنے کی کوشش کی ہے، اور ’’حسنِ اتفاق‘‘ سے، ان کے ’’اجتہادات‘‘ کا وزن ہر مرتبہ جدیدیت ہی کے
حق میں پڑا ہے! مسلمانوں کا ایک کھاتاپیتا اور مغربی تعلیم یافتہ طبقہ عملاً
جدیدیت کی ثقافت کو اختیار کر چکا ہے، اور مدت سے اپنے اس ’’تہذیبی ارتداد‘‘ پر احساسِ جرم کا شکار چلا آتا
ہے۔ غامدی صاحب نے اس تہذیبی ارتداد کو ’’دینی نصوص‘‘ سے مستحکم کرنے کا بیڑہ اٹھایا
ہے۔ اُن جیسے متجددین کے کام کے نتیجے میں اس طبقے کا یہ احساسِ زیاں رفتہ رفتہ
رفع ہو رہا ہے۔ اس طبقے میں ان کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی ہے۔ بےشک، جدید اسلام کا
ایک بڑا therapeutic کردار ہے، یعنی جدید اسلام دراصل
ماڈرن مسلمان کے guilt کی
دوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ دوا جرم کو نہیں، احساسِ جرم کو مٹاتی ہے، اور اس کے
نتیجے میں مجرم کو اور بھی زیادہ جری اور بےباک بنا دیتی ہے۔
جاوید غامدی صاحب کے کام سے واضح ہے
کہ مغربی تہذیب کا ایک لولا لنگڑا ڈسکورس ہی ان کے نزدیک ’’خالص‘‘ اسلام قرار پایا ہے۔ جیسے ہی
سمجھ میں آیا کہ غامدی صاحب جدید اسلام کی اُسی روایت کے مقلد ہیں، جس کی نیو، استعمار
کے زیراثر، سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد قادیانی، اور مولوی چراغ علی وغیرہ نے
رکھی تھی، میں ان کی فکر سے بیزار ہو گیا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے عمر کا ایک حصہ
اس کی نذر کیا اور بہتوں کو یہی پیغام پہنچایا۔ مجھ جیسے گنہ گار اور بےمایہ
مسلمان سے، الحاد و زندقے کی ترویج میں شرکت کا یہ اضافی بوجھ کہاں اٹھایا جاتا
ہے؟ الا یہ کہ میں استغفار کروں اور اس کے ازالے کی کوشش کروں؟ اس مبتدع فکر سے
رجوع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید رکھتا ہوں، اور قارئین سے درخواست
کرتا ہوں کہ وہ بھی میرے لیے استغفار فرمائیں۔ سنہ 2005ء سے قبل کی تمام تحریروں
اور تقریروں سے رجوع کا یہ اظہار جتنے زیادہ وسیع دائرے تک پہنچ سکے گا، میرے لیے
وجہِ تسلی ہو گا۔ لیکن شاید یہ کافی نہیں ہے۔ جس فکری غلطی کو میں اللہ کے فضل سے
سمجھ گیا ہوں، اب میری ذمہ داری ہے، اور اس فکر کے ساتھ طویل تعلق کی وجہ سے اس
خدمت کی کچھ اہلیت بھی اپنے اندر پاتا ہوں، کہ اس دینی انحراف کی غلطی کو واضح کر
سکوں۔ اس سلسلے کی کچھ تحریریں اس شمارے میں شائع ہو رہی ہیں، اور، اللہ تعالیٰ کی
توفیق سے، وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں گی۔
جدید اسلام ہمیشہ ’’ریاست‘‘ کا کاسہ لیس رہا ہے، پہلے
برطانوی استعماری ’’ریاست‘‘ کا، اور پھر جدید قومی ’’ریاست‘‘ کا۔ قوت و اقتدار اور اسلام کی
جدید تعبیر کا یہ ناجائز تعلق ارادی بھی ہے اور تقدیری بھی۔ سر سید احمد خاں کے
وعظ، جو انہوں نے برطانوی استعماری ’’ریاست‘‘ سے وفاداری کےلیے دیے، تاریخ
میں ثبت ہیں۔ سر سید کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی اور شبلی نعمانی کے حکومت
برطانیہ کی اطاعت کے حق میں فتاویٰ، حمید الدین فراہی کا برطانوی حکومت سے عملی
تعاون، اور سنہ 60ء کی دہائی میں چودھری غلام احمد پرویز اور ڈاکٹر فضل الرحمن کی
جدید ’’ریاست‘‘ سے ساز باز نے اس روایت کی
آبیاری کی۔ اب غامدی صاحب نے ’’ریاست‘‘ کو ’’جدید اسلام‘‘ کی مدد کےلیے پکارا ہے۔ یہ صدا
ایک ’’جوابی بیانیے‘‘ کے عنوان کے تحت لگائی گئی ہے،
لیکن ذرا غور سے دیکھنے پر معلوم ہو گا کہ یہ کوئی جوابی ’’بیانیہ‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’استعماریہ‘‘ ہے۔ شبلی و فراہی کے دبستان کا
یہ سرکاری بیان قابل تعجب نہیں ہے، کہ یہ اس مکتب کی جدیدیت، استعماریت اور انکارِ
حدیث کا منطقی نتیجہ ہے۔
(بشکریہ سہ ماہی ’’جی‘‘ لاہور۔ جولائی تا اکتوبر 2015۔
ص 17 تا 19)