عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Wednesday, November 27,2024 | 1446, جُمادى الأولى 24
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-11 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
جوابی ’’بیانیہ‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’استعماریہ‘‘
:عنوان

منکرِحدیث تو وہ ہیں ہی، لیکن ان کی اصل غلطی یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ دین کی تمام نصوصِ مطہرہ کو مغربیت کی گاڑی میں جوتنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس اعتبار سے انکارِ حدیث انہیں موافق آیا ہے۔

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

جوابی ’’بیانیہ‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’استعماریہ‘‘

                                                 بشکریہ: نادر عقیل انصاری  

مستعار سیکشن میں، تحریر کے مضمون یا اسلوب سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔                                                                                                                                                                                (ادارتی نوٹ)

احقر 86ء میں جاوید غامدی صاحب سے متعارف ہوا، اور تقریباً بیس برس مختلف حیثیتوں میں المورد اور اس کی فکر سے وابستہ رہا۔ میں اس دوران المورد کا صدر رہا، ماہنامہ اشراق اور انگریزی ماہنامے ’’رینی ساں‘‘ کا مدیر رہا، اور المورد میں پڑھا بھی اور پڑھایا بھی۔ اس تمام مدت کے دوران غور و فکر اور مطالعہ جاری رکھا۔ غالباً 2005 کے قریب مجھے اس فرقے سے دینی و فکری اختلافات پیدا ہونے شروع ہوئے۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ غامدی صاحب کے کام میں بعض بنیادی دینی اور علمی سقم ہیں۔ جاوید غامدی صاحب اور المورد کے رفقاء کے ساتھ بہت گفتگوئیں ہوئیں، مذاکرے اور مباحثے ہوئے، حتیٰ کہ تحریری تبادلہ بھی ہوا، جو سنہ 2010ء تک جاری رہا، جس میں درجنوں خطوط کا تبادلہ ہوا۔ لیکن اس تبادلے سے اس فرقے کے بارے میں میرے نتائجِ فکر کی تصدیق ہی ہوئی۔ میری بعض تحریروں سے کچھ قارئین کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ جاوید غامدی صاحب سے میرے اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ منکرِحدیث ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ منکرِحدیث تو وہ ہیں ہی، لیکن ان کی اصل غلطی یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ دین کی تمام نصوصِ مطہرہ کو مغربیت کی گاڑی میں جوتنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس اعتبار سے انکارِ حدیث انہیں موافق آیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ہولناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی تعبیر پر بھی استعماری جدیدیت کی حاکمیت قائم کرنے کی سعی کی ہے۔ قرآن مجید کی متجددانہ اور استعماری تعبیر اور انکارِ حدیث مقاصد نہیں، ذرائع ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ جدیدیت کا تہذیبی، علمی، اور فکری حملہ ہے، جس کے آگے غامدی صاحب دانستہ یا نادانستہ سپر ڈال چکے ہیں۔ وہ مغربی فکر سے کوئی زیادہ واقف نہیں ہیں، لیکن اس کا جو مبتدیانہ فہم رکھتے ہیں، اس کی وجہ سے – اور اس سے زیادہ مغربی تہذیب کے اقتدار اور غلبہ کی وسعت و گیرائی اور اس کی چکاچوند کے آگے فکری بےبسی کی وجہ سے – اسلام کو مغربی تہذیب کا محتاج تسلیم کر چکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دینی نصوص کو اس مقصد میں پوری طرح کھپا دیا ہے۔ مئے فرنگ کے ایک دو گھونٹ لے کر ہی ان کے علم و فکر شل ہو گئے، اور یہ شطحات ان کی زبان سے اسی عالمِ سکر میں صادر ہوئی ہیں: ’’اب جہاد لاعلائے کلمۃ الحق حرام ہے‘‘، ’’ہمارے دور میں جزیے کا نفاذ غیراسلامی ہے‘‘، قبائلی مسلمانوں کی طاقت ختم کرکے انہیں تحلیل کردینا چاہئے، زکوٰۃ کا نصاب مقرر کرنے کا حق حکومت کو ہے‘‘، ’’توہین رسالت اور ارتداد کی کوئی سزا نہیں‘‘، ’’جمہوریت عین اسلام ہے‘‘، ’’شادی شدہ زانی و زانیہ کےلیے رجم کی سزا غیراسلامی ہے‘‘، ’’قومی ریاست کوئی کفر نہیں‘‘! جو اہل علم ان کی دینی آراء سے واقف ہیں وہ اس کی تصدیق کریں گے کہ اپنے تفردات اور اپنی تمام ما بہ الامتیاز آراء کے نتیجے میں، انہوں نے جدیدیت کے کسی نہ کسی پہلو کو ’’قرآنی سند‘‘ مہیا کرنے کی کوشش کی ہے، اور ’’حسنِ اتفاق‘‘ سے، ان کے ’’اجتہادات‘‘ کا وزن ہر مرتبہ جدیدیت ہی کے حق میں پڑا ہے! مسلمانوں کا ایک کھاتاپیتا اور مغربی تعلیم یافتہ طبقہ عملاً جدیدیت کی ثقافت کو اختیار کر چکا ہے، اور مدت سے اپنے اس ’’تہذیبی ارتداد‘‘ پر احساسِ جرم کا شکار چلا آتا ہے۔ غامدی صاحب نے اس تہذیبی ارتداد کو ’’دینی نصوص‘‘ سے مستحکم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اُن جیسے متجددین کے کام کے نتیجے میں اس طبقے کا یہ احساسِ زیاں رفتہ رفتہ رفع ہو رہا ہے۔ اس طبقے میں ان کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی ہے۔ بےشک، جدید اسلام کا ایک بڑا therapeutic   کردار ہے، یعنی جدید اسلام دراصل ماڈرن مسلمان کے guilt   کی دوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ دوا جرم کو نہیں، احساسِ جرم کو مٹاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں مجرم کو اور بھی زیادہ جری اور بےباک بنا دیتی ہے۔

جاوید غامدی صاحب کے کام سے واضح ہے کہ مغربی تہذیب کا ایک لولا لنگڑا ڈسکورس ہی ان کے نزدیک ’’خالص‘‘ اسلام قرار پایا ہے۔ جیسے ہی سمجھ میں آیا کہ غامدی صاحب جدید اسلام کی اُسی روایت کے مقلد ہیں، جس کی نیو، استعمار کے زیراثر، سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد قادیانی، اور مولوی چراغ علی وغیرہ نے رکھی تھی، میں ان کی فکر سے بیزار ہو گیا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے عمر کا ایک حصہ اس کی نذر کیا اور بہتوں کو یہی پیغام پہنچایا۔ مجھ جیسے گنہ گار اور بےمایہ مسلمان سے، الحاد و زندقے کی ترویج میں شرکت کا یہ اضافی بوجھ کہاں اٹھایا جاتا ہے؟ الا یہ کہ میں استغفار کروں اور اس کے ازالے کی کوشش کروں؟ اس مبتدع فکر سے رجوع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید رکھتا ہوں، اور قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی میرے لیے استغفار فرمائیں۔ سنہ 2005ء سے قبل کی تمام تحریروں اور تقریروں سے رجوع کا یہ اظہار جتنے زیادہ وسیع دائرے تک پہنچ سکے گا، میرے لیے وجہِ تسلی ہو گا۔ لیکن شاید یہ کافی نہیں ہے۔ جس فکری غلطی کو میں اللہ کے فضل سے سمجھ گیا ہوں، اب میری ذمہ داری ہے، اور اس فکر کے ساتھ طویل تعلق کی وجہ سے اس خدمت کی کچھ اہلیت بھی اپنے اندر پاتا ہوں، کہ اس دینی انحراف کی غلطی کو واضح کر سکوں۔ اس سلسلے کی کچھ تحریریں اس شمارے میں شائع ہو رہی ہیں، اور، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے، وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں گی۔

جدید اسلام ہمیشہ ’’ریاست‘‘ کا کاسہ لیس رہا ہے، پہلے برطانوی استعماری ’’ریاست‘‘ کا، اور پھر جدید قومی ’’ریاست‘‘ کا۔ قوت و اقتدار اور اسلام کی جدید تعبیر کا یہ ناجائز تعلق ارادی بھی ہے اور تقدیری بھی۔ سر سید احمد خاں کے وعظ، جو انہوں نے برطانوی استعماری ’’ریاست‘‘ سے وفاداری کےلیے دیے، تاریخ میں ثبت ہیں۔ سر سید کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی اور شبلی نعمانی کے حکومت برطانیہ کی اطاعت کے حق میں فتاویٰ، حمید الدین فراہی کا برطانوی حکومت سے عملی تعاون، اور سنہ 60ء کی دہائی میں چودھری غلام احمد پرویز اور ڈاکٹر فضل الرحمن کی جدید ’’ریاست‘‘ سے ساز باز نے اس روایت کی آبیاری کی۔ اب غامدی صاحب نے ’’ریاست‘‘ کو ’’جدید اسلام‘‘ کی مدد کےلیے پکارا ہے۔ یہ صدا ایک ’’جوابی بیانیے‘‘ کے عنوان کے تحت لگائی گئی ہے، لیکن ذرا غور سے دیکھنے پر معلوم ہو گا کہ یہ کوئی جوابی ’’بیانیہ‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’استعماریہ‘‘ ہے۔ شبلی و فراہی کے دبستان کا یہ سرکاری بیان قابل تعجب نہیں ہے، کہ یہ اس مکتب کی جدیدیت، استعماریت اور انکارِ حدیث کا منطقی نتیجہ ہے۔

(بشکریہ سہ ماہی ’’جی‘‘ لاہور۔ جولائی تا اکتوبر 2015۔ ص 17 تا 19)

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز