شام ایک
دوسرا افغانستان
تحریر: احمد
موفق زیدان۔ نامہ نگار الجزیرہ چینل
ارود استفاد: عبد اللہ آدم
عالم عرب میں سرخ استعمار کا خطرہ سامنے
آیا تو وقت کے علماء، حکومتیں، اہل
سیاست و صحافت اورعسکری و سماجی ماہرین دن رات اُس سرخ خطرے پر بات کرتے نظر آتے
تھے جو خلیج کو بالخصوص اور ساری عرب دنیا کو بالعموم گھیرے میں لیتا نظر آ رہا
تھا۔ اگرچہ اُس دورمیں سرخ ریچھ طاقت اور
قوت کے حوالے سے پورے جوبن پر تھا لیکن اس نے تاحال عالم عرب کے تیل کے ذخائر اور مقاماتِ
مقدسہ کے حوالے سےکوئی خاص دھمکی آمیز
رویہ اختیار نہیں کیاتھا۔ روس کے ساتھ عملی تصادم
بھی ابھی افغانستان سے آگے نہیں بڑھ پایا تھا۔ مگر آج صفوی ایرانی خطرے پر نگاہ کریں تو اس کا سوویت روس
سے کوئی موازنہ ہی بنتا ، جس کے منحرف افکار
عالم اسلام کے چند مخصوص خطوں سے آگے نہیں بڑھ پائے تھے۔مغرب اور اسرائیل کے ساتھ اس
فرضی اور دھوکے پہ مبنی تصادم کوختم کرنے کی کوششیں کرتے ایران کے بارے میں مجھے
پہلے دن سے پکا یقین تھا کہ جو چند صہیونی ڈرامے بازی میں اس نے قتل بھی کیے وہ
سینکڑوں سے زیادہ نہ تھے۔ البتہ ان کے مقابلے پر ایران نے ایک ملین
سے لے کر ڈیڑھ ملین تک عراقی شامی اور
یمنی قتل کر ڈالے؛ اور ہم ہیں گویا کچھ ہوا ہی نہیں!ساتھ ہی یہاں کے شہروں کو
برباد کرڈالا جوکہ عالمی ثقافتوں کی پہچان تھے۔ جو کچھ آگے ہونے والا ہے وہ کہیں
زیادہ تباہ کن اور کسیلا ہوسکتا ہے۔مغرب کے ساتھ یہ وہ فرضی 'تصادم' ہے جسے کسی
وقت ایران نے امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کے
لیے اپنی بیٹری ریچارج کرنے کو کھڑا کیا تھا
اور'دھوکے پر مبنی تصادم' کی بات ہم میں سے بہت سوں نے مذاق میں اڑا دی تھی۔
صفوی خطرہ نہ تو صرف عسکری خطرہ ہے اور نہ محض ایک علاقے تک محدود ہے۔ اس کا
اثاثہ خاصا وسیع ہے: شام میں علوی ، عراق، پاکستان، افغانستان اور خلیج میں روافض
کے گروہ در گروہ۔ اور یمن میں حوثی۔ یہ سب وہ ہیں جن کو بوقت ضرورت کسی بھی جگہ تخریبی اور تباہ کن سرگرمیوں کے
لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک جگہ تباہی و بربادی مقصود ہو تو دوسری جگہوں پر
موجود گروہوں کو طلب کیا جاتا ہے اور اس طرح قم اور طہران سے اپنی وابستگی کا ثبوت
دیا جاتا ہے۔ در حقیقت یہ فرقہ وارانہ عناصر جس ملک کے 'معزز شہری' ہوتے ہیں ان کا
اس ملک سے محبت و دوستی کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا، اس حوالے سے طہران ان کے لیے ویسا
ہی قبلہ و کعبہ ہے جیسا یہود کے لیے تل ابیب ہے !
کیا طہران
ایسا ہی گاؤدی ہے کہ وہ اپنے تمام اہداف و مقاصد کسی لیپا پوتی کے بغیر اعلانیہ طور
پر سامنے لےآئے ؟کہ وہ تو تقیہ ،سرداب اور
حقائق کو چھپانے والے مذہب (باطنیت) کا
پیروکار ہے، یا پھر مغربی دنیا خود اس انتشار اور تباہی میں اس کا ہاتھ بٹانے پر آمادہ
ہے! گزشتہ سالوں میں عراق اور افغانستان
میں ایران کے ساتھ اہل مغرب کا تعاون و ہم آہنگی عالم عرب اور ترکی کے لیے کیا اب
بھی خطرے کی گھنٹی نہیں ہے؟ یقینا تلخ حقائق کا کھلے بندوں اعتراف کرنے سے کہیں
بہتر سیاست گندگی کو قالین کے نیچے چھپائے رکھنا ہے۔ چنانچہ ہماری دنیا مسائل کو جوں کا توں 'ساتھ لے کر چلنے' پر
کاربند ہے بھلے اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے ، اور کوئی اس رویے پر
روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔
جب میں
اپنے افغانستان کے تجربات پر نگاہ ڈالتا ہوں ...
جن سے سالوں پہلے مجھے لمحہ بہ لمحہ گزرنا ہوا... تو دیکھتا ہوں کہ عربی اور بالخصوص خلیجی ممالک نے کمیونزم کے خطرے سے نپٹنے کے لیے اپنے
سارے دروازے کھڑکیاں چوپٹ کھول دی تھیں جبکہ صفوی
ایرانی خطرہ آج باقاعدہ حملہ آور نظر آتا ہے اور یہ حملہ بھی دور دراز
علاقوں میں نہیں جیسا کہ اُس وقت افغانستان میں تھا بلکہ یہ حملہ تو خود ان
ریاستوں تک آن پہنچ چکا ہے۔ 'ففتھ کالم' اب' ففتھ' شمار نہیں ہوتا، اب اس کا اعلان
ہے کہ وہ 'فسٹ کالم' ہے! اندرونی حملہ آور اور لڑاکا گروہ ان کے علاوہ ہیں جیسا کہ
کویت وغیرہ میں سامنے آئے، اسی طرح لبنان، عراق، افغانستان اور پاکستان میں فرقہ
وارانہ ملیشیائیں جو رافضی تخریب کاری کا ہراول دستہ ہیں۔ اس سب کچھ کے بعد بھی مغرب شام کے مسئلے پر اس کردار کا ایک
فیصدی بھی ادا کرنےکو تیار نہیں جو اس نے
سوویت افغان مسئلے پر اُس وقت ادا کیا تھا۔
عرب ممالک
نے علماء اور اسلامی تحریکوں کی قیادت کے لیے اپنے دروزے کھول دیے تھے تاکہ وہ
افغان جہاد پر بات کریں اور اس کی دعوت دیں، عسکری ، سیاسی اور صحافتی میدان میں
کھلم کھلا ہر طرح کا تعاون جاری و ساری تھا۔ نوبت یہاں تک بھی پہنچی کہ جہاد افغانستان کے لیے جانے والوں سے فضائی ٹکٹوں کا
صرف ایک چوتھائی حصہ وصول کیا جاتا... جبکہ عرب صحافت کا ایک' غیر عربی' مسئلے کے
لیے کردار ایک الگ داستان ہے۔ دوسری طرف آج کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو بعض ایسے
عرب ذرائع ابلاغ جہادِ شام کو مشکوک کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے دکھائی دیتے
ہیں جو افغان جہاد کی تعریف میں آگے آگے ہوا کرتے تھے بلکہ استثنائی صورتوں کو
چھوڑ کر ان کے ہاں تو اُس وقت جہاد اور مجاہدین کے بارے میں شک و شبہ پیدا کرنے
والی شخصیات کا گزر ہی 'حرام' تھا۔
مالی حوالے
سے انفرادی عطیات سے آگے بڑھ کر عرب حکومتوں نے خود افغان جہاد کو اموال کی ترسیل کی ذمہ داری لے
رکھی تھی کہ تب افغانستان اور اب شام میں جاری شدید ترین جنگ کے لیے انفرادی عطیات
کافی نہیں ہو سکتے۔ بہرحال اگر شام کے لیے نہیں تو بھی اپنی کرسیوں کو قائم رکھنے کے لیے عرب ممالک کی
طرف سے معرکہ شام کے لیے ٹھیک ٹھاک مالی امداد ناگزیر ہے۔ جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ بعض حکومتیں جہاد شام
کی نصرت و اعانت کے لیے اموال اکٹھے کرنے والوں پر مقدمات چلا رہی ہیں۔ البتہ شیعہ
کے خُمس کا سارا مال بغیر کسی روک ٹوک کے ان کے مراکز قُم،الضاحیۃ الجنوبیہ(بیروت) اور
القرادحہ(شامی نصیری اکثریتی صوبے لاذقیہ کا ایک مقام) تک پہنچ رہا ہے۔
افغان مہاجرین کو اس قدر امن و سکون نصیب ہوا کہ افغانستان میں کمیونسٹ
اقتدار کے خاتمے
کے بعد انہوں نے پاکستان اورخلیجی رفاہی
اداروں کی امداد کی وجہ سے واپس جانے کے بجائے پاکستان ہی میں رہائش اختیار
کی، جبکہ اہل شام پر یونان، مقدونیا ،یورپ اور دنیا بھر کی سرحدیں بند رکھی گئی
ہیں تاکہ جو کیمیائی حملوں اور بیرل بموں سے بچ جائے اس کو بحر و بر کی سختیاں اپنی لپیٹ میں لے لیں اور جو
کوئی ان سے بھی بچ کر مغرب پہنچ ہی جائے وہ بھی پچھلوں کو یہی نصیحت کرے کہ اس راستے میں دین ،عزت و آبرو اور
اولاد سبھی خطرے کا شکار ہیں اس لیے وہ یہ راہ
ہرگز اختیار نہ کریں۔ (عیلان کردی کے سانحہ کے بعد عوامی دباؤ پر کچھ نرمی کی
گئی ہے لیکن ساتھ ہی کہہ دیا گیا ہے کہ اس کو آئندہ کے لیے مثال نہ سمجھا جائے!)
آخری بات،
جو اہم ترین اور نچوڑ ہے، وہ یہ کہ پاکستان نے عرب ممالک کی امداد کے ساتھ سات
افغان تنظیموں کا باقاعدہ اعلان کر رکھا تھا اور ساری دنیا کو انہی کو امداد دینے
کی تاکید کی جاتی تھی کہ یہ عسکری، سیاسی،
صحافتی اور دیگر پہلوؤں سے نمائندہ
اکائیاں ہیں جن کو ان کے حجم اور حیثیت کے مطابق امداددی جاتی ہے۔ یہ امداد
بذریعہ پاکستان ہی دی جاتی تھی جس سے کثیر تعداد افغانی مستفید ہوتے تھے۔ دوسری
طرف آج کے شام کی حالت ملاحظہ کر لیں۔ جو لوگ شامی مزاحمت کو سیاسی یا عسکری طور
پر ایک نہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر بیرونی دباؤ نہ
ہوتا تو آزادی فلسطین کی قیادت بھی کسی زمانے میں ایک نہ ہو پاتی، نہ ہی لیبیا کی
مجلس ملکی ہوتی اور نہ ہی افغانستان کی سات تنظیمیں صرف سات تک محدود رہتیں !
چنانچہ شام سے باہر کی دنیا بھی شام میں جاری انتشار کی برابر ذمہ دار ہے۔ اور اگر
آپ کا خیال ہے کہ اس انتشار و تشویش کی وجہ اہل شام خود ہیں تو بھی اس سے بیرونی
دنیا کی ذمہ داری زائل نہیں ہو جاتی ہے۔
اصل (عربی)
مضمون کا لنک: http://goo.gl/HmCBwd