صدیوں کا مومنٹم اور ’چھ ستمبر‘
ابن علی
6 ستمبر کو ہمارے سوشل میڈیا صفحات پر دیا گیا ایک مضمون۔
سماجی
میدان میں پائی جانے والی شاید ہی کوئی چیز ہو جو آج معروضی objective رہنے دی گئی ہو۔ خصوصاً ہمارے اِس ملکِ خداداد پاکستان میں۔ ایک فکری
افراتفری سے یہ نتیجہ بھی بہرحال نکلا ہے!
لبرلز
کا رونا: یہ سب التباس اس لیےکہ اسلام پسند ’ہمارے‘ ملک پر ہاتھ مار جانا چاہتے
تھے! اسلام پسندوں کا کہنا: یہ ابہام اور غموض لبرلز کا اٹھایا ہوا ہے جو ’ہمارے‘
ملک پر ہاتھ مار جانا چاہتے ہیں۔ ’ہمارا‘ کا
لفظ ہی ایک شدید ابہام کا شکار! یہاں سب کچھ ہی تو موضوعی subjective
ہو کر رہ گیا ہے۔
خود
’پاکستان‘ سے کیا مراد ہے، نرا ایک ملک یا اس سے بڑھ کر کچھ؟ لبرلز سے پوچھئے، اس
کا کوئی جواب۔ اسلام پسندوں سے پوچھ کر دیکھئے، اس کا بالکل ایک اور جواب۔ ایک ہی
چیز کی توصیف میں گروہوں کے مابین زمین آسمان کا فرق۔ غرض ہر کسی کا ’اپنا‘
پاکستان ہے؛ ایک ایسا خلجان جو شاید بہت کم ملکوں کے حصے میں آیا ہو گا۔ خدا کا
شکر ہے ملک چل رہا ہے! مگر سوال کہیں پہنچنے کا ہے!
پاکستان کیوں بنا تھا؟ یہ تو پوری ایک چیستان ہے صاحب کیا
موضوع چھیڑ لیا آپ نے؛ اسکا جواب ’ڈسکس‘ کرنے بیٹھیں تو ہزاروں ’کمرشل بریک‘ لینے پڑ
جائیں گے! ذرا یہ بحث سرے لگا کر
دکھائیے، ہم آپ کو مان جائیں۔ قیامت آ جائے گی مگر یہ مسئلہ سرے نہیں لگے گا!
اچھا
بھارت کے ساتھ آپ کا تنازعہ ہے کیا ؟ کیا واقعتاً اس کے پیچھے دفتر خارجہ میں پڑی
چند فائلیں ہیں؟ اور دفترخارجہ کے کسی ٹائی پوش کا بیان ہی اس مسئلہ کی کل حقیقت
سمجھی جائے؟ یا اس کا جواب دو قوموں کی گھٹی میں پڑا ہے، خواہ دونوں طرف کے ٹائی
پوش زور لگا لیں، اور وہ جواب ان قوموں کے انگ انگ میں بولتا ہے؟ یہ’’ 6ستمبر‘‘ جس
چیز کا نام ہے،کیا واقعتاً یہ محض ایک عدد
جنگ ہے اور یہ جوش و خروش جو ’جنگ‘ کے سوال پر اِس بھوکی ننگی قوم میں بےحدوحساب
عود کر آتا ہے یہاں تک کہ اِس کا اپنا غربت و افلاس اور اپنی ننگ دھڑنگ صورتحال
اِس کے ذہن سے یکسر محو ہو جاتی ہے اور اس کے مقابلے پر بھارت کی ’قابل رشک‘
اکانومی اِس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے؛ گویا یہ مسئلہ اِس قوم کےلیے ’سودوزیاں‘
سے بالاتر ہے... یہ ناقابلِ اندازہ جوش و خروش جو قوم کے انگ انگ سے پھوٹ آتا ہے،
بس ایسی ہی ایک معمولی قسم کی بات ہے؟ یا اس کے پیچھے کوئی صدیوں کا مومنٹم آپ کو
واضح طور پر محسوس ہوتا ہے؟
قوم کا جوش و خروش بلاشبہ دیدنی ہے اور سبھی کو حیران کرتا
ہے۔ مگر اس کے پیچھے کارفرما عوامل؟ یہاں ہر ایک کی اپنی اپنی بولی ہے۔
ہر ہر موضوع پر فریقین کی اپنی اپنی تفسیر! لفظ اکثر سانجھے
مگر معانی مختلف!
اس کے باوجود... بہت کچھ آپ سے آپ بولتا ہے:
وہ ہجرتِ عظیم جو چشمِ فلک نے برعظیم ہند کے اندر 1947ء میں
دیکھی، ایسے عظیم الشان واقعہ کے پیچھے ’محض دو تین عشروں کے حالات و واقعات‘ کو ہی
دیکھ پانا کورچشمی کی اندوہناک مثال کہلائے گا۔ ایسے حیرت انگیز طوفان دو تین
عشروں میں بھلا کب اٹھا کرتے ہیں، خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے؟! ’’صدیوں کا مومنٹم‘‘ کے سوا اس کی کوئی تفسیر بفضل
خدا ہو ہی نہیں سکتی۔
1948ء میں نمازیوں کے جتھے جس بہادری سے آدھا کشمیر بھارتی مگرمچھ
کے جبڑوں سے نکال لاتے ہیں، پھر بقیہ کشمیر کےلیے بھی پچھلے ستر سال سے نگاہیں
مسلسل ’نمازیوں‘ کی طرف ہی لگی رہتی ہیں اور
’دوسروں‘ سے ایسی کسی قربانی کی امید کبھی رکھی گئی اور نہ رکھی جا سکتی ہے، یہ سب کہانی آپ اپنا بیان ہے۔ سو
فیصد آپ اپنا بیان self-evident۔ کسی کے بھی بولنے کی ضرورت
نہیں... سوائے اس ایک بات کے جو دوسرے کیمپ سے
آپ کو کسی بھی وقت سننے کو مل سکتی ہے اور جوکہ منہ پر لانا تاحال مشکل ہے (صرف
زیرلب بولی جا رہی ہے) اور اسے اونچا بولنے کےلیے فی الوقت شاید ’گراؤنڈ‘ تیار کی
جا رہی ہے (خدا ان کی تیاری کبھی مکمل نہ کروائے)، اور وہ یہ کہ ’کشمیر
لینے کی ضرورت ہی کیا ہے اس قوم کا اصل مسئلہ تو روٹی اور صاف پانی ہے‘ مگر قوم کے
بپھر جانے کے ڈر سے وہ فی الحال زبان پر نہیں آ رہی! یعنی ایک کیمپ سے یہ امید
کہ کبھی کشمیر ملے گا تو ان شاء اللہ اس کے ہاتھوں ملے گا۔ اور دوسرے کیمپ سے یہ اندیشہ
کہ کشمیر کو بھول جانے کی بات کبھی ہوگی تو اس کی زبان سے ہوگی۔ حقیقتیں خود بولتی
ہیں حضرات، خواہ ان پر پردہ ڈالنے کےلیے کتنا ہی مؤثر ’میڈیا‘ ہو! بلیک آؤٹ آخر آپ
کتنا کرلیں گے؟
’’چھ ستمبر 1965ء‘‘ کا
وہ ایک ہی بھلا سا حوالہ برِّعظیم کی
دو قوموں کے وجود میں ایسےایسے نازک تار چھیڑتا ہے... صرف ان کو ’جذباتی‘ نہیں
کرتا بلکہ دو قوموں کے مابین ہمالیہ سے اونچے اور بحرہند سے وسیع تر کسی ’’فرق‘‘
کی نشاندہی کرتا ہے، ایک ایسا گہرا، وسیع اور بلند و با لا فرق جو محض دو قوموں کا
نہیں ہو سکتا (قومیں تو دنیا میں ہزاروں ہیں صاحب، اتنا سادہ نظر آنے کی کوشش آپ
کیوں کرتے ہیں) بلکہ ایسا ایک ناقابلِ بیان و ناقابلِ عبور فاصلہ قطعی طور پر دو
ملتوں کا ہی ہو سکتا ہے (چاہے یہ قومیں ’’ملتوں‘‘ کے اس اصل فرق سے کتنی ہی بےعلم
رکھی گئی ہوں مگر کچھ چیزیں تاریخی مومنٹم کی صورت دھار لیتی ہیں اور صدیوں سے چلے
آتے ایسے زوردار ریلے کو روک دینا پھر کسی سپانسرڈ ’میڈیا‘ یا سیاستدانوں کے کسی
’دستخط‘ یا کسی ’سمجھوتہ‘ کے بس کی بات
نہیں رہتی)... یہ سب آپ اپنی زبان ہے۔
کرکٹ
وغیرہ کے مقابلوں کو بےشک ہم کسی سنجیدہ نظر سے لینے کے قائل نہیں، لیکن وہ ہیجان
خیز کیفیت جو یہاں کے بچےبچے کو دم بخود کر دیتی ہے بلکہ پوری دنیا کو حیران کرتی
ہے، وہ اسے ’دو قوموں کے مابین محض ایک دوستانہ میچ‘ قرار دینے سے واضح اِباء کرتی
ہے۔ یہاں تو چیز ہی کوئی اور بولتی ہے۔
یہاں
کی کوئی ایک چیز ایسی نہیں جو سن 47ء پہ جا کر رک جاتی ہو۔ خود سن 47ء صدیوں سے
چلے آتے ریلے کا محض ایک مرحلہ ہے اور یہ ریلہ اپنا رخ آپ بنانے والا ہے۔ اِس کے
بہت اچھے اچھے موڑ بلاشبہ ہندو کی مدد سے مڑے جائیں گے، عین جس طرح 47ء تک پہنچانے
والے بہت سے موڑ مڑنے میں ہندو تعصب کا کردار غیرمعمولی طور پر مؤثر رہا تھا۔ عین
جس طرح بھارتی اکثریتی ووٹ کا منظورِنظر نریندر مودی سن 2015ء کے چھ ستمبر کو سن
65ء والے لہجے نشر کروانے میں غیرمعمولی طور پر مؤثر رہا ہے! کون جانے، کتنے مودی برصغیر
کے مسلمان کو سن 65ء اور سن 47ء سے بھی پیچھے لے جانے میں کامیاب ہو جانے والے
ہیں!
اندازہ
تو کریں پندرہ سال کی ابلاغی محنت ایک دن میں اڑا کر رکھ دی جاتی ہے!
کیا
آپ تعجب نہیں کرتے سیکولر میڈیا اس محاذ پر آخری حد تک روہانسا ہو جاتا ہے! کہاں
ہے سپانسرڈ میڈیا پر دن کے چوبیس گھنٹے اور ہفتہ کے سات دن چلنے والی ’امن کی آشا‘؟ ہمیں ہندو سے بغلگیر دیکھنے کے سپنے بانٹنے
والی وہ ’پریم‘ کی بھاشا؟ آخر تھک ہار کر یہی میڈیا یا پھر اسی کا ایک بڑا حصہ،
ایک ڈیڑھ عشرہ اکارت کر لینے کے بعد، سن 65ء کے ترانے ہی اونچی آواز سے چھیڑ دیتا
ہے! بےشک وہ ایک گزری ہوئی جنگ کے ترانے ہیں مگر ہیں وہ جنگ کے ترانے۔ اور ان کے
سُر ایسے جنہیں ’گزرے ہوئے‘ کہنا سُروں سے ناواقفیت کی دلیل!!! آخر کیا وجہ ہے کہ
ایک قوم جو خدا کے فضل سے بےحد امن پسند ہے، اپنی ایک جنگ کو اس شدت سے یاد کرتی
ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بچےبچے کی زبان پر ایک ہی بات سنی جا رہی ہے: لاتوں کے بھوت
باتوں سے نہیں مانتے۔ (ایسی ’غیرمہذب‘ زبان جو اِنہی چینلوں پر آج بےتحاشا بولی
گئی)! آج جو ایک زوردار پیغام دیا گیا، خواہ کسی فورم پر اس میں کتنی ہی دین و شرع
سے ناواقف زبان کیوں نہ بولی گئی ہو، اس میں کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جس کا
تعلق ’گزرے ہوئے‘ سے ہو۔ وہ خلیج جو برعظیم میں اِس ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ نے ڈال
دی ہے آج پھر سے اِس برعظیم کی سب سے بڑی حقیقت نظر آتی ہے۔
کاش
اسلام پسند طبقے اس پوٹینشل کا اندازہ کر لیں جو اِس ملک میں ان کے مقاصد کی راہ
تک رہا ہے۔ اِس ملک کی ایک ایک چیز، اِس ملک کا ایک ایک مفاد، اِس ملک کی ایک ایک امانت،
اِس ملک کی ایک ایک ضرورت لبرل اور سیکولر ڈسکورس کو قبول کرنے سے صاف اِباء کرتی
ہے۔ وقت نے بارہا ثابت کیا، یہ لوگ صرف
ہمارا وقت ضائع کر سکتے ہیں ہمیں راستہ بنا کر نہیں دے سکتے۔ جو راستہ ہمیں یہ بنا
کر دیتے ہیں، اِس قوم کی فطرت، طبیعت، مزاج اور تاریخ اسے چلنے سے انکار کر دیتی
ہے۔ یہاں تک کہ اِس کا روایتی دشمن اس کے
آڑے آ جاتا ہے!!! کیا یہ اس بات کی دلیل
نہیں کہ حاملینِ لا الٰہ الا اللہ اگر یہاں کے سماجی فورَمز پر پائے جانے لگیں اور
شعبہ ہائے حیات میں ایک مؤثر قیادت فراہم کر دیں تو یہ قوم اپنا راستہ چلنے میں
بھرپور مدد پا سکتی ہے۔ تب نہ صرف یہ اپنی تاریخی راہ چل سکتی ہے بلکہ راہ زنوں سے
بھی نجات پا سکتی ہے۔
معاملے
کو دانائی اور ہوش مندی سے اسلام کے ڈھب پر لے آنا ایک ان تھک سماجی محنت چاہتا
ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنے میں ہرگز تاخیر نہ کرنی چاہئے کہ ’انتخابی پیشرفت‘
دینی طبقوں کی قوتِ تاثیر کو ماپنے کا کوئی واحد گیج نہیں۔ نفوذ اور تاثیر کےلیے اللہ کے فضل سے یہاں بےپناہ
میدان ہیں۔