’مون سائٹنگ‘ تا ’مون فائٹنگ‘!
مدیر ایقاظ
ہم مسلمانوں کے جس بھی شہر یا بستی میں ہوں.. بےتکلف وہاں کے عامۃ
المسلمین کے ساتھ ہی جمعہ، جماعت، عید، رمضان، قربانی وغیرہ کرتے ہیں، اور اس پر
نبیﷺ کی باقاعدہ حدیث رکھتے ہیں: الۡفِطۡرُ: يَوۡمَ يُفۡطِرُ النَّاسُ.
وَالۡأضۡحىٰ: يَوۡمَ يُضَحِّي النَّاسُ. ’’عید: جس دن لوگ
عید کریں۔ اضحیٰ: جس دن لوگ قربانیاں کریں‘‘۔
ہمیں اس مضمون کے بہت سوال موصول ہوتے ہیں۔ اس بار مناسب جانا، چند
باتیں کہہ دی جائیں۔
پچاس ساٹھ لاکھ مسلمانوں کی ایک بستی میں... کوئی پندرہ بیس آدمی
اپنی ’الگ عید‘، ’الگ قربانی‘، ’الگ تھلگ
رمضان‘ منانے میں لگے ہوں؛ اس بنیاد پر کہ وہ پوری بستی ’چاند‘ کے
مسئلہ پر کسی غلط فتویٰ پر عمل پیرا ہے... نادرست سے زیادہ ایک خطرناک روش ہے۔
عموماً یہ روش انہی طبقوں میں دیکھی جائے گی جن کے ہاں مسلم طبقوں کی تکفیر و
تضلیل کا رجحان ہے یا جن کے ہاں کسی درجہ معاشرہ بیزاری ملتی ہے۔ یہ رُوٹ جو آگے
بہت سے خطرناک رُوٹوں تک آپ سے آپ لے جاتا ہے، سرے سے تشویش ناک ہے۔
پورے شہر سے الگ عید، الگ قربانی یا الگ رمضان منانے کا یہ ’منہج‘
ہمیں اہل اسلام کے کسی ایک بھی صاحبِ افتاء کے ہاں نظر نہیں آیا (جسے علماء کے
ہاں واقعتاً کسی اِفتاء کے منصب پر مانا گیا ہو)۔ بلکہ ایسے کسی اونچے درجے کے
صاحبِ افتاء کے ہاں اس ’منہج‘ کےلیے گنجائش تک نظر نہیں آئی۔ اللہ اعلم
اپنے گرد و پیش... بستی کے مسلمانوں کے ساتھ چلنا... اور ساتھ
’’رہنا‘‘... اِن سب امور میں ہمارے نزدیک ضروری ہے... اور سلامت روی کا آئینہ دار۔
ہم جس شہر جس بستی میں ہوں... بغیر کسی بھی قسم کے ’تحفظات‘، اور
بغیر کسی بھی ’اگر اور مگر‘ کے... بےتکلف وہاں کے عامۃ المسلمین کے ساتھ ہی جمعہ،
جماعت، عید، رمضان، قربانی وغیرہ کرتے ہیں، اور اس پر نبیﷺ کی باقاعدہ حدیث رکھتے
ہیں:
الۡفِطۡرُ:
يَوۡمَ يُفۡطِرُ النَّاسُ. وَالۡأضۡحىٰ: يَوۡمَ يُضَحِّي النَّاسُ. (الترمذي عن عائشة، رقم
الحديث 802. صححه الألباني)[1]
’’عید: جس دن لوگ عید کریں۔ اضحیٰ: جس دن
لوگ قربانیاں کریں‘‘
پس اگر کسی خطے کے
لوگوں کو ہم رؤیت کے طریقے وغیرہ میں غلط بھی دیکھیں، جیساکہ دیکھ رہے ہیں، تو بھی
ہم لوگوں کے ساتھ ہی چلتے ہیں، اور ڈیڑھ اینٹ کی الگ ’عید‘ یا الگ ’رمضان‘ نہیں
بناتے۔ مگر اس بات کی دلیل: مسلمانوں کی اجتماعیت کو قائم رکھنا ہے، نہ کہ رؤیت کے
معاملے میں ان کے طریقے کو درست سمجھنا۔
رمضان، عید اور
قربانی وغیرہ میں اپنے خطے کے مسلمانوں کے ساتھ نہ چلنا ہمارے نزدیک فتنوں کےلیے
راہ ہموار کرنا ہے۔
جو بھی ہے، لوگوں
کے ساتھ چلیں... جب تک کہ آپ لوگوں کو اپنے ساتھ چلانے کی پوزیشن میں نہ
آجائیں۔
’’الگ‘‘ ہونا تو کوئی
آپشن ہی نہیں ہے۔ نہ اب نہ کبھی۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دریں اثناء لوگوں کو صحیح مسئلہ کی تعلیم
نہ دی جائے۔ ہاں اس پر لوگوں سے کچھ سننا پڑتا ہے تو ضرور سنیں۔ لازم ہے کہ نیشنلزم
کے دبیز اثرات کو لوگوں کے اذہان سے کھرچا بھی جاتا رہے، جس سے بڑےبڑے فُضَلاء
متاثر ہیں۔
سبحان اللہ کُرَیب (عن ابن عباسؓ) کی روایت[2] کی کیسی غلط تطبیق ہوتی ہے۔ اس کو ’دلیل‘ بنانے والے حضرات
فرماتے ہیں: ’دُور کی شہادت‘ دین میں معتبر نہیں۔ پھر اِسی ’دلیل‘ کی رُو سے لنڈی
کوتل میں بیٹھے ایک شخص پر دوہزار کلومیٹر دور کراچی کی رؤیت لاگو کریں گے جبکہ
پاس تورخم کی رؤیت ممنوع ٹھہرائیں گے! کہیں اگر ’بارڈر‘ ختم نہ ہوجاتا... تو ظاہر
ہے یہ حضرات کراچی پر بھی نہ رکتے بلکہ کراچی سے ہزار کلومیٹر مزید آگے جانا پڑتا
تو شوق سے چلے جاتے! جبکہ زعم اِن کا بدستور یہی ہوتا کہ یہ کُریب کی روایت پر عمل
ہو رہا ہے، یعنی ’مقامی رؤیت‘: ھٰکذا أمَرَنا رسول اللہﷺ!!![3]
اچھے اچھے لوگ آپ کو خاموش کروا رہے ہوں گے: بھائی ’دوسری قوم‘ کے
ساتھ روزہ رکھیں گے تو ان کی نماز کے وقت پر نماز کیوں نہیں پڑھتے!
سبحان اللہ! گویا ’’ایک سیاسی وحدت‘‘ کے لوگ تو اپنے شہروں کے فاصلے
بھُلا کر پورے ملک کے اندر ایک ہی وقت میں نماز پڑھتے ہیں!!! خود یہی لوگ کراچی
میں ہوتے ہوئے مغرب کی نماز کیا عین اسی وقت پڑھتے ہیں جب لاہور میں مغرب کا وقت
ہوتا ہے؟ نہیں، کراچی اور لاہور کے مابین پورے آدھے گھنٹے کا فرق ہوجاتا ہے، اور
یہ آدھے گھنٹے کے فرق سے ہی نماز پڑھتے ہیں! اب جب یہ کراچی میں ہوتے ہوئے نماز
لاہور والوں کے وقت پر نہیں پڑھتے تو پھر روزہ اور عید کیوں ان کے ساتھ کرتے ہیں؟
سوال تو یہاں بھی وہی ہے! وہی چاند کو سورج پر قیاس کرنے کی دلیل!!!
لیکن یہاں آپ ان لوگوں کو یہ ’دلیل‘ دیتے ہوئے نہیں دیکھیں گے؛ کیونکہ خود جانتے
ہیں کہ یہ دلیل نہیں ہے! اس کی نوبت وہاں آئے گی جہاں انگریز کا بنایا ہوا بارڈر
ختم ہو جائے! کیونکہ ان کی ’شرعی
دنیا‘ بھی ’بارڈر‘ پر ہی ختم ہو جاتی ہے!
حالانکہ موٹی بات یہ ہے کہ:
» سورج کو اللہ نے ’’وقت‘‘ بتانے کےلیے رکھا
ہے؛یہاں ایک ایک لمحے کا فرق مؤثر ہے؛ یہاں ’لاہور و شیخوپورہ‘ تک کا فرق
کیا جائے گا، خواہ وہ آدھے منٹ کا کیوں نہ ہو۔ ’کراچی و حیدرآباد‘ ایسے قریب قریب
شہروں تک کی سحری افطاری یا نمازوں کا وقت ’’ایک جیسا‘‘ نہیں ہوگا۔
» جبکہ
چاند کو اللہ نے ’’تاریخ‘‘ بتانے
کےلیے رکھا ہے جوکہ
چوبیس گھنٹے میں ایک ہی بار بدلتی ہے.. اور ’’چوبیس
گھنٹے‘‘ ایک ایسی چیز ہے جو پورے کرۂ ارض کو ’’تاریخ‘‘ date کے
لحاظ سے ایک یونٹ بنا دیتی ہے۔
یہاں؛ ’ٹائم زونز‘ کی بحث فضول ہے۔ ’ٹائم زونز‘ گھنٹوں اور منٹوں کےلیے ہوتے ہیں؛ تاریخوں کےلیے نہیں۔ کیا
’جمعہ کا روز‘ پورے کرۂ ارض پر ایک ہی دن آ کر نہیں گزر جاتا؟ ’یکم جنوری‘ ایک ہی
دن آ کر نہیں چلا جاتا؟ پھر یکم محرم کا کیا مسئلہ ہے؟
[1] اس حدیث سے متعلق شیخ البانی کی ذکر کردہ علمی نقول ایک الگ
مضمون میں دیکھئے۔
[2] صحیح مسلم میں کریب کی یہ حدیث یوں آتی ہے:
کریب کہتے
ہیں: رمضان شروع ہوا تو میں شام میں تھا۔ میں نے جمعہ کی رات چاند دیکھا۔ پھر مہینے کے آخر پر میں مدینہ چلا آیا۔ تب
عبداللہ بن عباسؓ نے مجھ سے دریافت کیا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا؟
میں نے عرض کیا: ہم نے جمعہ کی شب چاند دیکھا۔ عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: تم نے
خود دیکھا؟ میں نے عرض کی: جی، اور لوگوں نے دیکھا اور روزہ رکھا اور معاویہؓ نے
روزہ رکھا۔ عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: لیکن ہم نے ہفتہ کی شب چاند دیکھا۔
ہم تو روزے سے رہیں گے جب تک کہ تیس پورے نہ کر لیں یا چاند نہ دیکھ لیں۔ میں نے
عرض کی: کیا آپ معاویہؓ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفاء نہ کریں گے؟ عبد
اللہ بن عباس نے فرمایا: نہیں۔ رسول اللہﷺ کا ہمیں یہی حکم ہے۔
[3] کُرَیب کی حدیث کا صحیح فہم کیا ہے، اس پر کسی اور مقام پر بات
ہوسکتی ہے۔ لیکن ’نیشن سٹیٹ‘ کوشرعی احکام کی بنیاد
بنانے والے اصحاب کا اگر یہ خیال ہے کہ وہ حدیثِ کُرَیب پر عمل پیرا ہیں
تو یہ بہرحال باعثِ تعجب ہے۔ لہٰذا قبل اس کے کہ وہ ہم پر حدیثِ کریب کا اشکال
وارد کریں، ہم ان سے پوچھیں گے کہ دورِحاضر میں حدیثِ کُرَیب کو کچھ ’طبعی
جغرافیائی حدبندیوں‘ کی بجائے آج کی ’’سیاسی تقسیمات‘‘ پر لاگو کرنے کی کیا دلیل
ہے؟ یعنی ریڈکلف ایوارڈ میں فیروزپور اور گورداسپور اگر ہمیں مل جاتا تو
وہاں کا چاند بھی قصور اور شکرگڑھ جتنا ہی معتبر ہوتا، نہیں ملا تو غیرمعتبر ہے!
سوال یہ ہے کہ ’’ریڈکلف‘‘ ہماری عبادتوں کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟... کیا واقعتاً
حدیثِ کُرَیب یہی کہتی ہے!؟
حدیثِ کریب میں عبداللہ بن عباس کے الفاظ ’’هكذا أمَرَنا‘‘ میں:
» اس هكذا کی مناط یا تو آپ کے خیال میں ’’فاصلہ‘‘ہونا چاہئے۔ کہ بھئی جب بھی
مدینہ اور دمشق جتنا فاصلہ ہو تو روزہ اور عید وغیرہ کےلیے دونوں کی رؤیت الگ الگ
ہونی چاہئے۔ اگر یہ بات ہے تو پھر پشاور اور کراچی کا فاصلہ مدینہ اور دمشق کے
فاصلے سے زیادہ ہے۔ یہاں؛ حدیثِ کریب سے استدلال کیسے؟
» اور اگر اس هكذا کی مناط آپ کے خیال میں ’’سیاسی یونٹ‘‘ ہے... اور اس بنیاد پر پاس کے دو
شہر درمیان میں ’بارڈر‘ ہونے کے باعث ایک دوسرے کی رؤیت کو پوچھیں گے تک نہیں،
باوجود اس کے کہ دو پاس پاس کے شہروں کے مسلمان آپس میں اس وقت ڈھیروں ذرائع
مواصلات means of communication رکھتے اور پل پل کی خبر شیئر
کرتے ہیں۔ اگر یہ بات ہے (یعنی مناط ’سیاسی یونٹ‘ ہے) تو (کُریب و ابن عباسؓ کے
مکالمہ کے وقت) مدینہ اور دمشق ایک سیاسی یونٹ (خلافت) ہے؛ مگر ان دونوں کی عید
الگ الگ! یہاں؛ بتائیے پشاور اور کراچی کی ایک عید واجب کروانے والے حدیثِ کریب سے
دلیل کس طرح لے سکتے ہیں؟