یورپ، مسلمان پناہ
گزیں، اور ہم
انگریزی تحریر: شیخ عاصم الحداد
اردو قالب: عماد الدین
گزشتہ چند ہفتوں سے سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہونے
والے شامی بچے کی تصویریں ساری دنیا کے میڈیا پر مسلسل نشر کی جا رہی ہیں۔
شام کے مہاجرین اچانک دنیا کا اہم ترین مسئلہ بن گئے ہیں۔ یورپی حکومتیں شب و
روزدنیا کو انسانیت اور ہمدردی کا درس دے رہی ہیں گویا یورپ روز اول سے اپنی
سرحدیں کھولے اور باہیں پھیلائے مہاجرین کا منتظر ہے۔ سارا عالم جہاں یورپ کی
دریادلی اور کریم النفسی کے گن گا رہا ہے وہیں "امیر مسلمان ملکوں" کو
آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے کہ انہوں نے شامی مہاجرین کے واسطے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ
کچھ لوگ تو اس بہانے اسلامی تعلیمات کو ہی نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔
کیا کسی نے سوچا کہ جذبات کا
یہ طوفان ایک دم کیسے امڈ آیا ؟ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے؟ اگر ہماری یادداشت
گزشتہ چند ہفتوں تک ہی محدود نہیں تو آئیے کچھ سال پیچھے چلتے ہیں۔ شام میں
مارچ ٢٠١١ کا انقلاب شروع ہوئے ابھی ایک سال ہی گزرا تھا۔ دنیا ابھی
داعش نامی کسی جماعت کےوجود سے بھی نا آشنا تھی اور شام کے لاکھوں شہری اپنے گھر
بار اور وطن چھوڑ کر ہمسایہمسلمان ممالک ترکی، اردن اور لبنان
میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے تھے۔ بشار کی افواج نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
کیا اور بیک وقت بیس ہزار شہریوں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تب یہی
یورپ، جو آج شامی عوام کا سب سے بڑا غمگسار بنتا ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
میں بشار کی بس تھوڑی سی مذمت کر کے ہی اپنے فرائض سے عہدہ برا ہو گیا تھا۔
بشار کا ظلم مزید بڑھا اورایک وقت آیا جب روزانہ کم و بیش دو ہزار لوگ شام سے
ہجرت کررہے تھےاور روزانہ لگ بھگ تین سو افراد بشار کی افواج کے ہاتھوں شہید ہو
رہے تھے۔ مگر یورپ کے کان پہ جوں تک نہ رینگی!!!
سنی آبادی کی نسل کشی
نے چند سال میں شام کا جغرافیہ ہی بدل دیا ہے۔ سنی اکثریت والے شہر اور علاقے
مکینوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت اورنقل مکانی کے باعث مکمل طور پر اجڑ چکے۔ ایسے
میں کچھ ذہنوں میں سوال اٹھتے ہیں کہ اس قضیے میں مغرب کا خاموش تماشائی بنے رہنا
کیا محض اتفاق ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عرب بہار میں کھلتے کچھ غنچوں سے
مغرب کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں؟
پھر میڈیا کا پراپیگنڈہ شروع
ہوا کہ لاکھوں افراد کے ترک وطن کی اصل وجہ تو داعش ہے، اور ماتم ہے ہماری عقل پہ
کے ہم نے یہ سراسر جھوٹا پراپیگنڈا مان بھی لیا؟ بغیر یہ سوچے کے داعش کی پیش قدمی
تو شروع ہی ۲۰۱۴ میں ہوئی تھی!!! اب چونکہ
شام کے بیچارے مسلمانوں کو داعش کے ظلم سے بچانا نہایت ضروری تھا، یورپ کی دردمند
حکومتوں کو "بادل ناخواستہ" بشار کی
مدد کو آنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ بمباری کا نشانہ زیادہ تر وہی بنے جوبیک وقت
بشار سے لڑ رہے تھے اور داعش کا راستہ بھی روکے ہوئے تھے۔
بشار کے ہاتھوں اڑھائی لاکھ
سے زائد شہریوں کا قتل عام ہو چکا اور یورپ ابھی تک یہی پوچھتا پھر رہا ہے کہ وہ
ہجرت کر کیوں رہے ہیں؟ بے رحم حکومتی افواج سے بقا کی جنگ لڑنے والوں کی عسکری مدد
تو دور کی بات، شہری علاقوں پر حملے ہی رکوا دیئے ہوتے تو آج ان مظلوموں کو
اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یورپ پہنچنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ دفعتاً یہ جو
دردِ دل جاگ اٹھا ہے ناصرف مصنوعی اور غیرمؤثر بلکہ کافی حد تک مشکوک بھی لگتا
ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ درپردہ مقصد شام پر مزید بمباری کا جواز ڈھونڈنا ہو؟ تا
کہ حکومت مخالف گروہوں کی پیش قدمی روکی جا سکے جس کا اعتراف حال ہی میں بشار نے
خود کیا ہے؟
چند ہزار مہاجرین کو پناہ دے
کر یورپ تمام عالم کی مدح سرائی کا حقدار ٹھہرا اور حسب توقع ان مسلمان ملکوں
کا کہیں ذکرتک نہیں جو برسوں سے لاکھوں تارکین وطن کو امان دیے ہوئے ہیں۔ اور کچھ
یورپی ممالک کے برعکس بدلے میں "سستےمزدور"
ملنے کی توقع بھی نہیں رکھتے۔ جرمنی سے سو گنا کم آمدن رکھنے والےایک مسلمان اور عرب ملک
اردن نے چھ لاکھ سے زائد مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہےاور ان میں سے بیشتر کا سہارا
بننے والے اردن کے عام شہری ہیں جن کی اکثریت خود نادار اور تہی دست ہے۔ مسلمان ترکی
جہاں بیس لاکھ سے ذیادہ شامی مہاجرین پناہ گزین ہیں کیا کسی بین الاقوامی قانون سے
مجبور ہو کے ان کے دستگیری کر رہاہے؟ ہرگز نہیں، یہ ترک حکومت اور عوام کا اسلامی جذبہ
ہی ہے جو انہیں اپنے بے آسرا بھائیوں کا سہارا بناتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کُل
شامی پناہ گزینوں میں سے پچانوے فیصدمسلمان ممالک ترکی، اردن، لبنان
اور مصر میں ہی مقیم ہیں۔
خدارا اخلاقیات کی تقریروں سے متاثر ہونے سے پہلے
زمینی حقائق جاننے کی کوشش کیجئے۔ انسانیت کا درس کیا ہم ان سے لیں گے جن کے نزدیک
شمالی افریقہ سے آنے والے مہاجرین کاکروچز ہیں اور مسئلے کا بہترین حل ان
کی کشتیوں کو سمندر میں غرق کر دینا ہے؟
برطانیہ عظمیٰ نے بھی بالاخر اپنی 'اخلاقی ذمہ
داری' کا احساس کرتے ہوئے اگلے پانچ سال میں بیس ہزار پناہ گزین قبول کرنے کا
اعلان کر دیا ہے۔ مت بھولیے گا کہ مسلمان ترکی میں بیس
ہزار لوگ ہر ہفتے داخل ہوتے ہیں!!! اور یہ بھی یاد رہے کہ تمام مغربی ممالک
نے اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے انسانی حقوق پر دستخط کیے ہوئے ہیں جس کے مطابق "کسی بھی ملک میں پناہ
حاصل کرنا ہر مظلوم انسان کا بنیادی حق ہے" جبکہ
مذکورہ بالا مسلم ممالک میں سے کوئی بھی اس معاہدے کا حصہ نہیں ماسوائے ترکی کے،
اور وہ بھی صرف یورپی تارکین کو پناہ دینے کا پابند ہے۔
کم ازکم ہم مسلمانوں کو تو
اس پراپیگنڈہ کی حقیقت سمجھنی چاہیے نا کہ ہم بھی یورپی نسل پرستوں کی ہاں میں ہاں
ملاتے ہوئے مسلمانوں پر ہی لعن طعن شروع کر دیں۔ کیا ہم ایسی بے تکی باتوں پر یقین
کر سکتے ہیں کہ شامی مسلمان چھتیس پاؤنڈ ہفتہ کے بدلے اپنا دین چھوڑنے کو تیار
ہیں؟ بے شک شامی بھائیوں اور بہنوں کی مدد ہمارا فرض ہے اور یہ فرض نبھانے
میں بلاشبہ ہم سب سے شدید غفلت اور کوتاہی ہوئی ہے اور مسلسل ہو رہی ہےبالخصوص
دولتمند خلیجی ریاستوں کی جانب سے جن کے اقدامات شرمناک حد تک ناکافی رہے ہیں۔
بخدا ہمارا مقصد ان شاہی خانوادوں کا دفاع ہرگز نہیں جنھیں اپنے لوگوں کی خواہشات
اور جذبات سے غیر ملکی مفادات ہمیشہ عزیز تر رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ ماننے کو قطعاً
تیار نہیں کہ مسلمان عوام سے بڑھ کر کسی نے شامی مہاجرین کی مدد کی ہے یا کبھی کر
سکتا ہے باوجودیکہ مسلمان تقریباً ہر جگہ نسبتاً کم وسائل رکھتے ہیں۔ صرف برطانیہ
میں ہی مسلمان دوسرے مذاہب اور لادین طبقوں سے تین گنا زیادہ صدقہ و خیرات کرتے
ہیں۔
اس امت کی طاقت اور اتحاد کو
زوال بھی ہو تو باہمی ہمدردی اور انسانیت کا درس اس دین سے بہتر اور کوئی نہیں دے
سکتا۔ اورکس مذہب اور نظریے کی اقدار اسلام سے زیادہ خوبصورت ہو سکتی ہیں؟
یہ انسانی اور اخلاقی قدریں اس امت کے خمیر میں شامل ہیں اور قطع نظر اس سے کہ
میڈیا آپ کو کیا دکھاتا ہے یہ امت اپنے بدترین ادوار میں بھی ان قدروں کو ہاتھ سے
نہیں جانے دیتی۔ اس امت کے سوا اور ہے کون جس کے ہاں دین کا رشتہ خون کے رشتوں سے
گراں تر ہوتا ہے؟
وَاعْتَصِمُوا
بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ
عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ
بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (آلِ عمران: ۱۰۳)
"اور
سب مل کر اللہ کی ہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور فرقے فرقے نہ ہو جانا۔ اور
اپنے اوپر اللہ کی اس مہربانی کو یاد رکھنا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے
تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے"
مسلمان اللہ رب العزت کا حکم
مانتے ہوئے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے بھائیوں اور بہنوں کی اعانت میں سب سے
آگے ہی نظر آئیں گے اور اجتماعی طور پر کسی نے اس کا عشرِعشیر بھی نہیں کیا ہو
گا۔ کیونکہ اللہ کی رضا کے لیے جینے مرنے والے مسلمان سے زیادہ بے غرض، دردمند،
منصف مزاج اور اپنی راحت و آرام قربان کرنے والا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ لاتعداد
مسلمان رضاکار افراد اور تنظیموں کو پناہ گزینوں کی بستیوں میں بلانے کے لیے معصوم
عیلان کردی کا بے جان چہرہ نہیں دکھانا پڑا تھا۔ اس لیے کہ مسلمان خدمتِ خلق
دکھلاوے کےلیے یا عالمی دباؤ سے مجبور ہو کے نہیں کرتا۔
وَيُطْعِمُونَ
الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ
لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا
(الدھر:
۸۔۹)
"باوجودیکہ
ان کو خود کھانے کی چاہت ہوتی ہےمگر فقیروں، یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ اور
کہتے ہیں کہ ہم تم کو محض اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے بدلہ چاہتے
ہیں اور نہ شکر گزاری۔"
ان کے جذبۂ انسانیت
کو اس سےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ دیکھ کر تالیاں بجانے والا کوئی ہے کہ نہیں۔ شامی
بھائیوں کے لیے ان کا جذبۂ اخوت آج بھی وہی ہے جو انقلاب کے آغاز میں تھا۔ یہ
خلوص ایک پکے اور سچے مسلمان کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا
فرمان ہے:
"ایمان
والے آپس میں محبت، ایک دوسرے پر رحم اور باہمی تعاون کرنے میں ایک جسم کی مانند
ہیں۔ اگر جسم کا ایک عضو میں تکلیف ہو تو اس کی وجہ سے سارے جسم کی نیند اڑ جاتی
ہےاور سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔"
اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ
جسے اللہ نے اسلام کی نعمت سے نوازا ہے وہ ہمیشہ راہِ ہدایت پر ہی چلے گا اور نہ
یہ کہ جو ابھی اسلام کے نور سے محروم ہے وہ کبھی فراخدل اور فیاض ہو ہی نہیں سکتا۔
حالیہ بحران میں بلا شبہ یورپی شہریوں کی کثیر تعداد نے نہایت قابلِ تعریف طرزِعمل
کا مظاہرہ کیا ہےلیکن جہاں تک یورپی حکومتوں کا تعلق ہے، ان کے لیے مجھے شام کے
ایک معروف معلم کا یہ پیغام یاد آتا ہے:
" وہ
تمام مغربی ممالک جو لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دے رہے ہیں انہیں میرا ایک
مشورہ ہے: براہِ کرم ان لاکھوں افراد کو اپنے گھر لوٹنے دیجئے اور
بدلے میں شام سے صرف ایک شخص لے لیجئے... بشار الاسد "
اصل انگريزی مضمون:
http://www.islam21c.com/politics/refugee-crisis-has-europe-set-an-example-for-muslim-nations