چاند کا مسئلہ.. فرد اور جماعت کے احکام کا خلط
مدیر ایقاظ
سوشل میڈیا پر پوچھا
گیا ایک سوال: https://goo.gl/SlTLq2
سوال:
آپ کے ایک مضمون کو پڑھ کر لگ رہا ہے کہ پوری
دنیا میں ایک ہی دن عید ہونی چاہیے۔ وہاں بھی دلائل دیے ہیں۔ لیکن یہ والی پوسٹ
پڑھ کر لگ رہا ہے کہ اپنے اپنے شہر کے ساتھ عید ہونی چاہیے۔ بات کو ذرا واضح کر دیجئے۔ http://goo.gl/JLmXSn
جواب:
دراصل
دو باتیں ہیں جو ہم کہنا چاہ رہے ہیں:
ایک
بات ہم ’’فیصلہ سازی‘‘ decision making کی سطح پر گوش گزار کر رہے
ہیں... اور وہ یہ کہ رؤیتِ ہلال کے بارے میں کوئی مُحکَم بنیاد اختیار کی جائے؛ جس
میں قوی تر رائے گو ہمارے نزدیک یہی ہے کہ پوری دنیا میں ایک دن عید ہو، لیکن اگر
کوئی اور رائے بھی اختیار کی جائے تو وہ ایک فقہی رائے ہو نہ کہ سیاسی۔
دوسری
بات ہم ’’عام آدمی‘‘ کے گوش گزار کر رہے ہیں... اور وہ یہ کہ عید، رمضان، قربانی وغیرہ کے معاملہ میں اس کو بہرحال اپنی ڈیڑھ
اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنانی۔ جو بھی ہے لوگوں کے ساتھ چلنا ہے اور چاند کے مسئلے
پر گھر گھر نزاع اور افتراق نہیں ڈالنا۔
غرض
جماعت کے احکام جماعت ہی کی سطح پر منوانے کی کوشش کرنی ہے۔ انہیں فرد کی سطح پر
بہرحال نہیں لانا؛ جہاں ہر فرد ایک جماعت ہو جائے!