اپنوں جیسا دیس
محمد زکریا خان
چلى كى
ايك معمر خاتون نے امير جماعت سےكہا كہ آپ جب تك يہاں سينٹياگوميں ہيں ميرے فليٹ
پر قيام كريں اور وہ بھى بلا معاوضہ!
خدا كے راستے ميں نكلنا نہايت مبارك كام ہے۔
قرون اولى ميں بھى اسى عمل سے اسلام متعارف ہوا تھا اور اب بھى اسلام اسى عمل كا
وسيع پيمانے پر منتظر ہے۔
پچھلے دنوں ملتان سے ايك جماعت جنوبى امريكہ كے
ملك چلى(Chile) آٹھ ماہ كےليے نكلى تھى۔ مولانا نثار احمد
اس جماعت كے ہمراہ دوسرى مرتبہ چلى ميں ايك لمبا قيام كر كے حال ہى ميں ملتان لوٹے
ہيں۔ يہ مضمون مولانا كے سفر چلى كا خلاصہ ہے جسے راقم اپنے الفاظ ميں بيان كرنے
كى سعادت حاصل كر رہا ہے۔
چلى جس كا تلفظ اردو كے لفظ ’چلے‘ كے قريب ہے
جنوبى امريكہ كا ايك ملك ہے۔ يہاں بیشتر ہسپانوى (اسپين كے) لوگ آباد ہيں۔ سركارى
اور رابطے كى زبان بھى ہسپانوى ہے۔ كچھ عشرے پہلے ملتان كے علاقے عباس پورہ نزد
چوك شاہ عباس كے لوگ روز گار كى تلاش ميں چلى جا كر آباد ہو گئے تھے۔ خدا كا شكر
ہے كہ مسلمانوں ميں سے ايك جماعت نے اپنے
ذمہ اس كام كا بيڑا اٹھا ركھا ہے كہ وہ
پاكستان كے مسلمانوں كى دوسرے ملكوں ميں بھى جا كر نصرت كرتى رہتى ہے۔
تبليغى جماعت كے عمائدين سے يہ بات پوشيدہ نہ رہى ہو گى كہ تيس چاليس سال پہلے
مشرق وسطى كے ستائے لوگ جب ہجرت كر كے چلى آباد
ہو گئے تھے تو وہ كس طرح مشرقى ثقافت اور مشرقى اقدار سے رفتہ رفتہ دور ہوتے چلے گئےتھے۔ اسى احساس نے ہى يہ جذبہ پيدا كيا ہے كہ
دنيا كے آخرى كونے ميں موجود اپنوں كو
تنہا نہ چھوڑا جائے اور گاہے بگاہے تبليغى جماعت كے ذمہ دار اس فریضے كو نبھاتے رہتے
ہيں۔
مولانا نثار احمد جو ابدالى مسجد ملتان سے متصل
دينى درس گاہ كے رئيس المدرسين ہيں پہلے بھى چلى جا چكے ہيں۔ چلى كا ويزا آىسان
نہيں ہے اس ليے كہ پاكستان ميں چلى كا سفارت خانہ ہى نہيں ہے۔ طے يہ پايا كہ
مليشيا كے راستے چلى كا سفر كيا جائے۔ خدا چاہے تو ايك نيكى كو جتنا بڑھا دے۔ مقصد
سفر تو يہ تھا كہ پاكستانيوں سے چلى ميں ملاقات كى جائے اور مشرقى روايات سے انہيں
وابستہ ركھا جائے مگر اللہ تعالى نے اس ميں مليشيا كے مسلمانوں كے ساتھ روابط كا
بھى سلسلہ پيدا كر ديا۔ رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم كا ارشاد ہے كہ قيامت كے
روز صرف عرش كا سايہ ہو گا اور باقى ہر طرف بلا كى گرمى اور دھوپ ہو گى۔ كچھ خوش
قسمت عرش كے سائے ميں لائے جائيں گے۔ ان خوش قسمت لوگوں ميں ايك صنف ايسے مسلمانوں
كى ہو گى جو ايك دوسرے سے بے غرض صرف اللہ كے ليے محبت ركھتے تھے۔ آپ عليہ السلام
كے اس ارشاد كى وجہ سے سلف صالحين ايك دوسرے سے دور دراز كا سفر كر كے ملاقات كے
ليے جايا كرتے تھے۔ بعضے تو اتنى پڑتال كرتے كہ مكرر پوچھ ليتے كہ واقعتاً آپ مجھ
سے اللہ كى خاطر ملنے آئے ہيں۔ مہمان كہتا كہ بخدا يہى سبب ہے۔ ميزبان كہتا مجھے
كوئى برا خيال نہيں آيا تھا۔ ميں نے اس وجہ سے يہ بات كى ہے كہ خود آنحضور اسى طرح
پوچھ ليا كرتے تھے۔
ملائیشيا ميں قيام كے دوران ميں مولانا اور ان
كے ساتھيون كو چلى كا ويزا مل گيا۔ چوبيس گھنٹے كى اڑان كے بعد جہاز چلى كے دار
الحكومت سينٹياگو كے ہوائى اڈے پر سلامتى سے پہنچ گيا۔ ہمارے ساتھيوں نے متعدد بار
ہوائى جہاز ميں نمازيں ادا كيں۔ جہاز ميں نماز كے ليے كتنى جگہ ميسر آتى ہو گى اس
كا تصور كيا جا سكتا ہے۔ ليكن جو كشادگى جہاز كے مسافروں نے دكھائى وہ نہايت قابل
قدر ہے۔ جہاز ميں نماز كى ادائيگى كے ليے نزديك كے مسافروں نے اپنے آپ كو سكيڑ
لياتھا۔ جہاز كے اكثر مسافروں كو عبادت كا يہ منظر دلكش لگا۔ اس بات كا اندازہ يوں
ہوا كہ مسافروں نے ايك تو نماز پڑھنے كے ليے جگہ چھوڑ دى اور دوسرا ان كى آنكھوں
سے ہمارے ساتھيوں كے ليے تحسین كے جذبات نكل رہے تھے۔ نماز اور حج ايسے شعائر دين
ہيں كہ اكثر نو مسلم ان سے متاثر ہو كر اسلام قبول كر ليتے ہيں۔ يہاں جہاز ميں ايك
ناخوشگوار واقعہ بھى ہوا۔ پرائے تو نہيں اپنوں ميں سے كراچى كے ايك صاحب نے ہمارے
ساتھيوں كى اس طرح بار بار نماز پڑھنے كو مينرز كے خلاف جانا اور آ كر كافى بد
اخلاقى سے منع كيا كہ آپ مسافروں كى اذيت كا باعث بن رہے ہيں۔ تعجب ہے كہ جہاز كے
عملے نے نماز كى جہاز ہى ميں ادائيگى سے نہ صرف تعرض نہيں كيا بلكہ ايك لحاظ سے
سراہا ہى مگر ہمارے ان صاحب كو يہ عمل آداب كے خلاف نظر آيا۔ احساس كمترى شايد يہى
ہوتا ہے!
چلى ميں ملتان كے رہنے والے زيادہ تر كم قيمت
كى اشياء چل پھر كر بيچتے ہيں۔ كچھ لوگ اب دكان ميں بيٹھ كر نسبتاً بڑا كار و بار
بھى كرنے كے قابل ہو گئے ہيں۔ بعض اپنى جنس ادھار پر گھريلو عورتوں كو بھى بيچ
ديتے ہيں۔ وقت مقررہ پر خواتين ادائيگى كر ديتى ہيں۔ وعدہ خلافى تقريباً نہ ہونے
كے برابر ہے۔ سينٹياگو ميں اب ايك مسجد بھى ہے۔ لوگوں كا رجحان بتدريج نماز كى طرف
ہو رہا ہے۔ كئى مسلم گھرانے اپنے ايك بيرونى كمرے كو مصلے كے طور پر مختص كر ديتے
ہيں۔
چلى كے جن مقامى خواتين و حضرات سے ہمارے
ساتھيوں كى ملاقات رہى وہ بھى نہايت دلچسپ ہے۔ اكثر نے شلوار قميض كے لباس كو
پسنديدگى كى نظر سے ديكھا ہے۔ انہوں نے اس كى وضاحت بھى كى كہ يہ لباس بظاہر بدن
كے ليے آرام دہ ہے۔ نماز كى عبادت كو ہر جگہ نہايت احترام كى نظر سے ديكھا گيا ہے۔
ہمارے ساتھيوں نے مقامى لوگوں كو بتايا كہ پاكستان ميں عورتيں گھروں ميں خانگى
امور سر انجام ديتى ہيں اور ملازمت نہايت مجبورى كى حالت ميں كى جاتى ہے۔ اسلام
ميں عورتوں پر خرچ مردوں كى ذمہ دارى سمجھا جاتا ہے۔ جو اس ميں كوتاہى كا مرتكب ہو
وہ عزت كى نظر سے نہيں ديكھا جاتا۔ اولاد والدين كو اپنے پاس ركھ كر ان كى مكمل
كفالت كو اپنے ليے اعزاز سمجھتى ہے۔ اور يہ سب اسلام كى بدولت ہے۔ يہ سن كر ايك
خاتون نے كہا كاش ميں چلى كى بجائے پاكستان ميں پيدا ہوتى۔
ايك معمر خاتون نے بتلايا كہ وہ مسلسل اسلام كا
مطالعہ كر رہی ہيں۔ پھر اس خاتوں نے بڑے اصرار سے ہمارے ساتھيوں كو مجبور كيا كہ
وہ سينٹياگو ميں قيام كے دوران ميں ہوٹل ميں نہيں ٹھہريں گے بلكہ جو فليٹ ان كے
ہاں ابھى خالى ہوا ہے وہ اس ميں قيام كريں۔ انہيں اس فليٹ كا كرايہ بھى نہيں دينا
ہو گا۔ واقعتاً جب ہمارے ساتھيوں نے محترمہ كے كہنے كے باوجود كرايہ دينا چاہا تو
وہ انہوں نے نہيں ليا۔ ايك مرتبہ محترمہ نے كہا كہ ہو سكتا ہے كہ آپ جانے سے پہلے
ايك خوشخبرى سنيں۔ جب ہمارے ساتھى واپسى كا قصد كر رہے تھے تو محترمہ نے كہا كہ
مجھے كلمہ پڑھا ديجيے۔ ميں آپ جيسے مقدس لوگوں كے سامنے كلمہ طيبہ پڑھنا چاہتى
ہوں۔ ميرا ارادہ بہت پہلے ہو گيا تھا ليكن ہمت نہيں ہو رہى تھى۔ آپ لوگوں كى ہر
چيز ميں وقار ہے۔ آپ كا لباس آپ كى نماز اور آپ كا اپنے دين كے ليے دور دراز كا
سفر۔
مولانا نے بتايا كہ ملاقاتوں كے دوران ميں ہميں
يہ بھى پتہ چلا كہ اسلام كا جو چہرہ امريكہ دكھانا چاہ رہا ہے چلى كے لوگ اسے
پرپيگنڈہ سے زيادہ اہميت نہيں ديتے۔ اس كے برعكس وہ اسلام كو امن كا دين سمجھتے
ہيں۔
چلى ميں شرح خواندگى تقريباً سو فيصد ہے۔ لوگ
تعصب فريب اور جھوٹ سے دور ہيں۔ وہاں ذہنى الجھنیں بھى نہيں پائى جاتى ہيں۔ لوگ
كہنے والے كى بات پر توجہ ديتے ہيں اور پورى طرح حق اور حقيقت كو جاننے كى كوشش
كرتے ہيں۔ چلى ميں اشتراكيت رہى ہے ليكن اشتراكيت وہاں كا نظريہ نہيں بن سكى ہے۔
اسى طرح جديد ملحدانہ افكار سے بھى وہاں كے لوگ زيادہ متاثر نہيں ہوئے ہيں۔ سيدھے
سادے طريقے سے وہ عيسائى مذہبى تعليمات پر عمل كر ليتے ہيں۔ وہاں انسانى فطرت ابھى
تك مسخ نہيں ہوئى ہے۔
مولانا نثار احمد چلى ميں قيام كے دوران اس
نتيجے پر پہنچے ہيں كہ عالم اسلام كو چلى سے مسلسل رابطے ميں رہنا چاہيے۔ چلى كے
لوگ اسلام اور پاكستان كے بارے ميں اچھى رائے ركھتے ہيں۔ امريكى اور مغربى اسلام
مخالف پرپيگنڈے كو وہ سياسى تعصب پر محمول سمجھتے ہيں۔ تبليغى جماعت كو نہايت
احترام كى نظر سے ديكھا جاتا ہے۔ وہ خدا كے مشن پر پاكستان كى تبليغى جماعت كى
محنت كو قدر كى نگاہ سے ديكھتے ہيں۔ مولانا فرما رہے تھے كہ چلى كى معيشت ايك
ابھرتى معيشت ہے۔ وہاں پاكستانيوں كے ليے كار و باركے مواقع بھى ہيں۔
چلى اگرچہ پاكستان كے لحاظ سے دور دراز كا ملك
ہے ليكن وہاں كے مسلمانوں كو تنہا چھوڑ دينا انہيں ضائع كرنے كے مترادف ہے۔ دينى
جماعتوں كى آمد و رفت سے اور مواصلاتى ذرائع ابلاغ كى وجہ سے عرب اور پاكستانى
مسلمان رغبت سے دينى زندگى كى طرف لوٹ رہے ہيں۔ ايك ٹمٹماتا ديا روشن تو ہوا ہے
اسے بجھنے نہ دينا ہم سب كى ذمہ دارى بنتا ہے۔ چلى دور سہى مگر اپنا سا لگتا ہے۔