السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم قارئین امید ہے کہ آپ سال کے بہترین دنوں میں
تقرب الی اللہ کی سعی میں پورے اہتمام سے مصروف ہونگے۔ عشرہ ذوالحجہ ہی کے ایام
میں اللہ جل جلالہ نے موسی علیہ السلام کو ہمکلامی کا شر ف بخشا، انہی ایام مبارکہ
میں اس دین کی تکمیل ہوئی ، انہی دنوں میں عبادت کا اجر عظیم ترین قرار دیا گیا
اور بہترین عبادات تکبیرات اور روزہ رکھنا ہیں ۔ اس عشرے میں ہی مناسک حج کا آغاز
ہوتا ہے، قربانی کی سنت ابراہیمی کا احیاء بھی، اسی میں یوم عرفہ ہے جو سال کا سب
سے مبارک دن کہ اس دن رب العرش والسماوات کی آسمان دنیا پر آمد ہوتی ہے اس منادی
کے ساتھ کہ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ آج میرےخزینہ ءرحمت سے مانگے والوں کی جھولی تہی دامن نہ رہے گی۔خوش
بخت ہے وہ جس کےرمضان کا آخری عشرہ نالہء
نیم شب و قیام اللیل میں بسر ہوا اور
ذوالحجہ کا پہلا عشرہ آہ سحر گاہی اور رب کی تکبیر تسبیح تحمید اور اسکے حضور
مناجات و گریہ و زاری میں صرف ہوا۔ ہماری دعا ہے کہ جنہیں اللہ نے حج کی سعادت عطا
فرمائی وہ مبرور حج کیے سالمین غانمین اپنے ٹھکانوں کو واپس پہنچیں اور جو نہ جا
سکے وہ ان ایام مبارکہ کے فیوض و برکات سے بدرجہء اتم استفادہ اٹھا پائیں۔
امسال انہی ایام میں قبلہ اول پرگزشتہ ہفتے
عبرانی سال نو کے موقع پر صیہونی گماشتوں
کا ناقور بجاتے داخل ہونا ڈیڑھ ارب کی امت کو جھنجھوڑ دینے کیلئے شاید کا
فی نہ تھا، نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ
اقصی کی زمانی و مکانی تقسیم کی بازگشت یہودی ایوانوں میں گونجنے لگی ہے ۔ اور
ہمیشہ کی طرح القدس کے دفاع کا فریضہ مقدسی عورتوں نے سنبھالا...بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا
ہے جیسے فیس بک اور ٹویٹر پر مرابطات اور صیہونی بوٹ برداروں کی جھڑپیں دیکھنا
معمول کا حصہ بن گیا ہو اور ہمارے سن ہوئے اعصاب اس پر کوئی ردعمل ظاہر کرنے سے
عاری ...رنگ
رلیاں مناتے یہودی رباط کیے بیٹھے نمازیوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے کو اپنا مذہبی
شعار سمجھتے نظر آتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بزدل قوم جو طاوس و
رباب کی پجاری ہے وہ شمشیر و سناں کی حامل امت کو مغلوب کیے ہوئے ہے!نمازیوں کی تکبیرات کی
گونج ہمیں ہلانے میں تو ناکام رہی البتہ صیہونی اس پر رقص و سرود کر کے ڈیڑھ ارب
امت کا منہ چڑاتے رہے ۔ غفلت کی نیند میں مدہوش امت کی قلت الرجال کی کمی پوری
کرنے کاذمہ امت کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں نے اپنے سر لے لیا ہے ۔ نہتے مقدسی مرد، جن میں سے بعض کی عمریں قبلہ اول کی راکھی
میں گزر گئیں ، پتھروں کے ڈھیر جمع کیے
اسرائیلی فوجیوں کے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کیلئے پرعزم نظر آئے
کیونکہ وہ یہ شعور رکھتے ہیں کہ اقصی محض ایک مسجد یا قطعہ اراضی کا نہیں ، امت
محمد کے عقیدہ اور امانت کا بار ہے جس کا حق ادا کر نا واجب ہے !
ہمارے مخاطب عامۃ المسلمین خصوصاً ہمارے نوجوان ہیں جن پر فرض ہے
کہ وہ اس بار کا ادراک کریں اور اپنی بساط میں اس مسئلہ کیلئے اپنے فرائض سے
نبردآزما ہوں۔ لٹریچر تقسیم کریں، سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ آگہی پھیلائیں، مرابطین
اور اکناف بیت المقدس کے باسیوں کیلئے فنڈ ریزنگ کریں ،جمعہ کے خطبات میں عوام الناس کو اقصی بطور
عقیدہ کی اہمیت کا شعور دیں ، ڈیڑھ ارب کی امت یکجان ہوکر اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے شانہ بشانہ
نظر آئے تاکہ دشمن حرمین شریفین کے بعد ہمارے تیسرے مقام مقدسہ کی جانب میلی آنکھ
اٹھانے کی جراءت نہ کرے یہ جانتے ہوئے کہ امت کے نوجوان ایسی ہر آنکھ پھوڑ ڈالیں
گے !
۲۰۱۱سے جاری نصیری جارحیت میں شہید
ہونے والے شامی بچوں کے خون پر چپ سادھے رکھنے والاعالم مغرب ایلان کردی کی تصویر پر
حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر اپنے دروازے ڈیڑھ لاکھ شامی پناہ گزینوں کیلئے 'چوپٹ
' کھول کراپنی 'دریا دلی' کی دھاک بٹھا نے کیلئے سوشل میڈیا پر واہ واہ سبحان اللہ
کے ڈونگرے برساتا ہے ، جبکہ اس حقیقت کو روپوش رکھنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ تنہا
ترکی نے ڈیڑھ ملین سے زائد شامیوں کواپنے ہاں
پورے عزت و احترام کے ساتھ بلا احسان جتلائے رکھا ہوا ہے! لبنان، اردن، عراق اسکے علاوہ
ہیں ! مغرب سے مرعوب ہونے سے پہلے ایک بار حقائق کا مطالعہ کرنا شاید سودمند ثابت
ہو!
ایک دور میں امت کی ڈوبتی
کشتی کو طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی نے سہارا دیا تھا، آج یہ سعادت امت کے
الحاج ابو ایمن علی، خدیجہ خویص، لطیفہ عبد اللطیف اور آسیہ اندرابی اورجیسے اعلی نفوس اور پاکیزہ ارواح کے حصے میں
آئی ہے ...
تحریر: عائشہ جاوید