طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟
مدیر ایقاظ
اِس مضمون سے متعلق یہ واضح کر دیا جائے:
ہمارا مقصد معاشرتی فورَمز پر پائے جانے والے دین پسند نوجوانوں کو درپیش الجھنوں کا ازالہ
ہے، جوکہ ایقاظ کا ایک مستقل موضوع ہے۔ محض طارق جمیل کے کسی اقدام کا
مسئلہ ہوتا تو ہم اِس موضوع پر قلم نہ اٹھاتے۔
ہماری ایک پوسٹ پر بڑے
اچھے اچھے نوجوانوں کے اشکالات دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا، کچھ اصولی الجھنیں دور
کرنے کی یہاں فی الواقع ضرورت ہے۔ یہی، اِس مضمون کا باعثِ تحریر ہوا ہے۔
تاہم بعض اعتراضات جو
ہماری اُس پوسٹ پر وارد ہوئے، ہمارے موضوع سے غیر متعلقہ رہیں گے۔ لہٰذا ایک چھوٹی
سی وضاحت عین ابتداء میں کر دی جائے:
مولانا طارق جمیل کی ایک
بات کو ہم نے بےشک سراہا ہے۔ مگر وہ ستائش یا وہ تائید اُن کے ایک خاص اقدام کے
حوالے سے ہی ہے۔ اس کا مطلب ان کے تمام نظریات، ان کے جملہ اقوال، اور ان کی بیان
کردہ تمام احادیث و آثار کا ذمہ اٹھا لینا نہیں! ہمارا موضوع طارق جمیل کا ایک
اقدام تھا: یعنی ملک کے سیاسی منظرنامے پر تیزی سے ابھرتی ایک پارٹی کے لیڈر کی
جانب سے ملنے والی دعوت میں ایک بھلی سی شرکت کر آنا۔ رہ گیا یہ کہ مولانا نے اس کے
علاوہ کونسے موقع پر اپنے کونسے خطبے یا وعظ میں کونسا عقیدہ یا کونسا مسئلہ یا
کونسا واقعہ یا کونسی روایت بیان کی اور ایسا کوئی عقیدہ یا مسئلہ یا واقعہ یا
روایت کتنی صحیح ہے اور کتنی غلط، تو بھائی یہ ایک الگ موضوع ہے۔
اس میں بہت کچھ یقیناً غلط ہو سکتا ہے۔ اور بہت کچھ صحیح بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ بلاشبہ اس
حوالہ سے ان کا معاملہ تصحیح
طلب ہو سکتا ہے۔ مگر
ہمارا موضوع ہے صرف وہ ایشو جو ہماری اُس پوسٹ کا سبب بنا۔
(ایک نئے قاری کےلیے:
ہماری اُس پوسٹ کا لنک:
https://www.facebook.com/MudeerEeqaz/posts/906003982796627 )
*****
ہماری حالیہ تحریر کا مقصد
البتہ مولانا طارق جمیل کا دفاع اتنا نہیں جتنا کچھ لگے بندھے اشکالات کا ازالہ جو
اِس مسئلہ میں ہمارے پابندِ دین نوجوانوں کو معاشرے میں قدم قدم پر پیش آتے ہیں.. اور ابھی
ایک عرصہ تک پیش آتے رہیں گے۔
اپنی اِس ’غیر پابندِ دین‘
دنیا کے ساتھ معاملہ کرنے میں... لگتا ہے ہمارے اِن نوجوانوں کو کئی حوالوں سے
واقعی کچھ کلیرٹی clarity درکار ہے۔ ورنہ اِن کے راستے یہاں قدم قدم پر
بند پائے جائیں گے اور یہ مسلسل آٹھ کے ہندسے میں گھومتے رہیں گے۔
حضرات! جس معاشرے میں اس
وقت آپ کو کچھ کردار ادا کرنا ہے وہاں ’پہلے سے‘ اسلام کی پابندی تو بلاشبہ اکثر
معاملات میں نہیں پائی جاتی۔ ’’شریعت کی خلاف ورزیاں‘‘ یہاں جگہ جگہ آپ کا راستہ روک کر کھڑی تو ہوں گی۔ اب ایک مخصوص طرزِ فکر
یہاں ایسا ہے جس کی رُو سے اکثر شعبہ ہائے حیات کا رخ کرنا اسلام کے
داعیوں اور اصلاح کاروں کے حق میں ’’شریعت کی حکم عدولی‘‘ شمار ہوتا رہے گا۔ اس
طرزِ فکر کے نتیجے میں، یہاں لوگوں کے ہاں آپ
کا آنا جانا، گھلنا ملنا چونکہ ظاہر ہے آپ کی اپنی (شرعی) شروط پر انجام نہیں
پا رہا ہوگا، اس لیے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور آنے جانے پر مشتمل آپ کی بہت سی
سرگرمی ’حرام‘ قرار پاتی چلی جائے گی۔ دیندار اپنی ہی ایک محدود سی دنیا میں
محصور، اور وہیں پر ’اصلاح‘ کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے رہیں گے! نہ عامۃ
الناس پابندِ شریعت ہوں اور نہ یہ ان کے مابین پائے جائیں، اور اگر پائے ہی جائیں
تو تیوری چڑھائے اور کچھ کھا جانے والی نظروں کا مظاہرہ کرتے ہوئے، جسے یہ ’انکار
على المنکر‘ کا نام دیں گے؛ اور جوکہ
اِس طرزِ فکر کے ہاں معصیت کی اِن جگہوں پر کوئی ایک ساعت پائے جانے کےلیے دین کا
کم از کم تقاضا ہو گا!
کیا خیال ہے یہاں کی کسی
بھی یونیورسٹی کے کلاس روم میں صالحین کا بیٹھنا جائز ہوگا جہاں ’کو۔ایجوکیشن‘
دندناتی ہے؟ اِن تعلیمی اداروں میں پڑھنے یا پڑھانے کا کیا حکم ہے؟ حرام؟؟! اِس مخلوط تعلیمی ماحول میں، جہاں جوان جہان
لڑکیاں اتنے بھی پردے میں نہیں ہوتیں جتنی کہ عمران خان کی ادھیڑ عمر جورو مولانا
طارق جمیل کے احترام میں بہرحال دیکھی گئی تھی... ایسے مخلوط کلاس روم میں پڑھنے یا پڑھانے کی غرض
سے دیندار حضرات کا جانا اور گھنٹوں بیٹھنا کیسے جائز ہوگا؟ اور اگر کسی ’مصحلت‘
یا ’ضرورت‘ کے تحت وہ جائز کر دیا جا سکتا ہے تو ویسی ہی (یا کیا بعید اُس سے بھی
کسی اہم تر) مصلحت یا ضرورت کے پیش نظر پاکستانی سیاست کے مستقبل پر اثرانداز ہونے
کی ممکنہ صلاحیت رکھنے والے عمران خان کی دعوت پر طارق جمیل کا وہاں جانا کیوں
جائز نہیں کہا جا سکتا؟
آپ جس دفتر یا جس کمپنی
میں کام کرتے ہیں، وہاں مخلوط ماحول تو نہیں؟ اگر ہے تو کیا فتویٰ یہی ہوگا کہ
وہاں کام کرنا حرام ہے؟ چلئے کیا یہی فتویٰ دیا جا سکتا ہے کہ وہاں کام کرنا
ازراہِ اضطرار جائز ہے، یعنی اگر آپ کا گزارہ کسی ایسی نوکری سے ہو سکتا ہے جو
تنخواہ میں اس مخلوط ماحول والی نوکری سے بہت کم ہے اور صرف پیٹ کی رمق بحال رکھتی
ہے، تو یہ بھاری تنخواہ کی مخلوط ماحول والی نوکری چھوڑ کر اُس تھوڑی تنخواہ کی
غیرمخلوط ماحول والی نوکری کرنا ہی آپ پر فرض ہوگا؛ جبکہ مخلوط والی نوکری برقرار
رکھنا آپ پر قطعی حرام ہو جائے گا؟ شاید ہی کوئی عالم ہو جو یہ فتویٰ دے۔
لاہور سے اسلام آباد جانے
والی تمام یا بیشتر گاڑیوں میں اگر لچر فلمیں لگائی جاتی ہیں... تو کیا ایسی معصیت
کی جگہ پر کئی گھنٹے آپ کا پایا جانا جائز ہوگا؟ اور اگر آپ اسے ’اضطرار‘ کی دلیل
سے حلال کریں تو بھی ایسے سفر کی بابت کیا فتویٰ ہوگا جو مثلاً مری کی سیر کی نیت
سے یا محض میل ملاقات کی غرض سے ہو؟ کیا ایسے (غیراِضطراری مقاصد کےلیے سفر کرنے
والے) سب لوگوں کے حق میں ان لچر فلموں والی بسوں کے اندر سفر کو حرام ٹھہرانے کا
فتوى ہی جاری کر دیا جائے گا؟ یا اِس معاملہ کو دیکھنے کی کوئی اور جہت بھی ہے؟
ہم پوچھتے
ہیں: طارق جمیل کا عمران خان کی اس دعوت میں شریک ہونا اگر آپ کے نزدیک حرام ٹھہرا
ہے تو اس کو حرام ٹھہرانے کی شرعی مناط (بنیاد) آپ کے نزدیک کیا ہے؟
ظاہر ہے کوئی خصوصی نص تو
اس باب میں آپ نہیں دکھا سکتے جس کی طارق جمیل نے خلاف ورزی کی ہو۔
ہاں
اغلباً اس کی دلیل آپ جہاں سے پکڑیں گے وہ ہے شریعت کا ایک عمومی اصول کہ معصیت کی
جگہوں پر جانے سے گریز کیا جائے، اور اگر جائیں تو انکار على المنکر کریں۔ یہ ایک
درست اصول ہے۔ معصیت کی جگہوں پر بلاوجہ نہ جانا چاہئے۔ نیز انکار على المنکر بھی
کرنا چاہئے۔ یہ حق ہے۔ تاہم ایک شرعی مصلحت یا ضرورت اس کو ’بلاوجہ‘ کے زمرے میں باقی نہیں رہنے دیتی۔ ورنہ آج کی
یونیورسٹیوں کے کسی مخلوط کلاس روم کا رخ
کرنا بھی صالحین کے حق میں حرام قرار دے دیا جائے گا۔ کسی مخلوط ورک پلیس mixed
work-place کا رخ کرنا بھی شریعت کی حکم عدولی ٹھہرایا جائے گا۔ حتیٰ کہ ایئرپورٹ
کا رخ کرنا، ایئرلائن میں جہاں فضائی میزبان کچھ بےپرد عورتیں ہوتی ہیں سفر کرنا
بھی آپ از روئے شریعت حرام کر دیں گے۔ حتیٰ کہ حج کا سفر بھی ممنوع ٹھہرا دیں گے۔
رہ گیا انکار على المنکر،
تو آپ کو معلوم ہے یہ چیز مصالح اور مفاسد کے موازنہ کی پابند ہے۔ یعنی اگر کسی
وقت انکار على المنکر مصلحتِ شرعیہ کا موجب نظر نہ آتا ہو تو وہاں انکار على
المنکر شریعت کا تقاضا نہیں رہے گا۔ کوئی ایسا عالم آپ کو نہیں ملے گا جو فتوىٰ دے
کہ اندریں حالات آپ کا ہوائی سفر کرنا اس شرط پر
جائز ہے کہ لازماً آپ اپنی فضائی میزبان بی بی کو اُس کی بےپردگی پر نکیر اور وعید
کر کے آئیں گے یا ہوائی کمپنی کے ہاں اِس پر اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کرا
کر آئیں گے اور آپ کے کئی بار سمجھا لینے کے بعد بھی اگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے تو
آئندہ اُس طرف کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے۔ حضرات ان سب جگہوں پر آپ بڑے آرام سے آتے
جاتے ہیں۔ کبھی آپ کے یہاں اس کو ’حرام‘ ٹھہرانے کا سوال نہیں اٹھا۔ ایسی پریشانی
ہی اللہ کے فضل سے کبھی پیدا نہیں ہوئی! زندگی بڑی
سبک اور رواں دواں ہے! ’شرعی مجبوریاں‘ قیامت تک کےلیے رجسٹریشن پا چکی ہیں! ہاں
مسلم داعی جب کسی دینی و دعوتی ضرورت کو انجام دینے کی غرض سے کہیں پر آوٹ ریچ outreach کریں تو وہاں البتہ آپ اسے از روئے شریعت حرام
کہنے چل دیں گے! خواہ وہ دینی مصلحت پوری ایک مسلم قوم کے مستقبل
سے وابستہ کیوں نہ ہو۔ اسے کہیں گے کوتاہ نظری۔ یعنی ایک نظر دو گز سے آگے دیکھ کر
ہی نہیں دے رہی۔ حج کے سفر کےلیے یہ ایک بےپرد عورت کی میزبانی قبول کرنا بڑے آرام
سے جائز کر دے گی۔ حتیٰ کہ حج سے کم درجہ کے سفر کےلیے اس بات کی پوری گنجائش دے
ڈالے گی۔ لیکن ملکی سیاست میں عمل دخل رکھنے والی ایک بڑی پارٹی پر لبرلز liberals کو حاوی نہ ہونے دینے کی
غرض سے ایسے کسی فعل کی ہرگز گنجائش نہ دے گی؛ اِس لیے کہ یہ نظر اِس مطلوبِ شرعی
کو دیکھنے سے قاصر ہے!
اصل صحیح اصول کیا ہے؟
جب ہم خود کوئی ماحول یا
کوئی نظام تشکیل دیں گے تو ہمارے لیے جائز نہ ہوگا کہ ایک بےپرد مخلوط ماحول
رکھیں۔ ایسا کرنا بلاشبہ ہمارے حق میں حرام ہی ہوگا۔ ہاں جہاں ایک فاسد ماحول یا
ایک باطل نظام خود ہم نے تشکیل نہیں دیا، اور نہ وہ ہم سے پوچھ کر تشکیل دیا گیا
ہے، اور نہ اُس کو آف off کر دینے
کا کوئی بٹن ہمارے ہاتھ میں دے رکھا گیا ہے، وہاں البتہ آپ کا یہ سوال غیرمتعلقہ
ہو جاتا ہے۔ وہاں تو سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ اصلاحِ احوال کی غرض سے یہاں جانے
کے اگر کچھ مواقع ہمارے سامنے آتے ہیں تو کیا ہم وہ مواقع لیں اور وہاں اپنے وجود
سے اصلاحِ احوال کی کوئی صورت پیدا کرنے کی کوشش کر آئیں یا ادھر کا رخ کرنے کو اپنے
اوپر حرام کیے رکھیں؛ نتیجتاً یہ کوچہ ہی پورے کا پورا exclusively لبرلز liberals کے دندنانے کےلیے چھوڑ دیں
جو اپنے اقدامات سے کل ہو سکتا ہے آپ کے اپنے گھروں میں آپ کے بچوں کو ’ہم جنس
پرست شادی‘ یا ’کنواری ماں کے حقوق کے تحفظ‘ ایسے تحائف دے کر جائیں اور آپ کی اِن
گلیوں میں وہ غلاظت لائیں جو فی الحال آپ صالحین کے سان گمان میں نہیں؟
اس سوال کا علمی وفقہی
جواب تو یہی ہے کہ یہاں شر کو کم کرنے اور خیر کو بڑھانے کی اگر کچھ بھی صورت میسر
ہو تو ایسے مواقع آگے بڑھ کر لینے چاہئیں۔
یہ نہ صرف جائز بلکہ بعض صورتوں میں مستحسن بلکہ واجب ہو گا۔ صالحین کو اِس غیر
صالح ماحول میں اتر کر ہی، اور یہاں کے ناگوار مظاہر کے ہوتے ہوئے ہی، یہاں پر کچھ
دُوررَس کردار ادا کرنا ہو گا۔ ایسا کردار ادا کرنے کو حرام کہنے کی اول تو آپ
کوئی دلیل نہیں رکھتے۔ دوسرا، یہ کسی مسئلے کا حل نہیں سوائے یہ کہ بس دعاء کی
جائے کہ: خدایا بس تو ہی اس ماحول کو مطابقِ شریعت کردے تاکہ (اصلاحِ احوال وغیرہ
کےلیے تو کم از کم!) ہم اس میں آ جا سکیں!!! یہ الگ سوال کہ آپ کی دعاؤں یا آپ کی
پھونکوں سے جب خدا نے ہی یہ معاشرہ ٹھیک کر دینا ہے تو آپ نے اصلاحِ احوال یہاں کونسی
کرنی ہے؟! حق یہ ہے کہ اِس منہج میں سب کام پھونکوں، فتووں، درسوں اور ’پروگراموں‘
سے ہی چلایا جانا ہے۔ آج بھی، کل بھی، اور ہزار سال بعد بھی۔ ’دستیاب مواقع‘ کو
استعمال میں لاتے ہوئے، یا خود اپنی ذہانت سے یہاں کچھ مواقع پیدا کر لیتے ہوئے،
ملک میں اسلام کو درپیش خطرات کو کچھ کم کر لینا، یا اسلامی ایجنڈا کے حق میں کچھ
پیش رفت لے آنا شرعاً منع رہے گا، کیونکہ قدم قدم پر یہاں کہیں غضِ بصر کا مسئلہ
ہو گا تو کہیں کچھ غیر شرعی حُلیوں کا، تو کہیں کیمروں وغیرہ کے استعمال کا، یا
ایسے ہی کچھ ’شرعی موانع‘! آخر کیسے اِس طرف کا رخ کیا جائے!!! لہٰذا خدا کے پاس
ہمارا عذر محفوظ ہے!
مصالح و مفاسد کا موازنہ،
جو کہ فقہاء کے ہاں ایک اصلِ شرعی ہے، اِن حضرات کے تخیل سے فزوں تر ایک چیز ہے۔
مولانا
طارق جمیل کا عمران خان وغیرہ ایسے کچھ طبقوں تک آؤٹ ریچ outreach کرنا، جو معاشرے میں کچھ تاثیر رکھتے
ہیں... ایک مستحسن عمل ہے۔ اللہ ان کو اس پر جزائے خیر دے۔
یہ
کوئی دانشمندی نہیں کہ ہم ان طبقوں کو پوری طرح لبرلزم کی گود میں چلے جانے دیں
اور اس دوران ہم بیٹھے بین بجاتے رہیں۔ اس کے بجائے، ان طبقوں کے ساتھ خیر سگالی
رکھنا ملک کے اندر اسلامی ایجنڈا کے حق میں بوجوہ فائدہ مند ہوگا۔ مولانا طارق
جمیل کا اس بات کی اہمیت کو محسوس کرنا یقیناً قابل ستائش ہے اور اس بات کی دلیل
کہ وقت کی ضرورتوں کا ادراک کرنے میں وہ یہاں کے بہت سے مذہبی لوگوں سے بہت آگے
ہیں۔
مولانا
پر پچھلے دنوں جو کیچڑ اچھالا گیا، اور ایک مسلمان داعی کا مردہ گوشت کھانے کو
اسلام کی جو خدمت سمجھا گیا، وہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ گو یہ سب میرے لیے
باعث تعجب نہیں۔ اصلاح پسندوں کے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے۔